اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: سیکولر پارٹیوں کا اتحاد ناممکن !

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 20 November 2016

سیکولر پارٹیوں کا اتحاد ناممکن !

ازقلم: حبیب اللہ قاسمی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ آئندہ سال پانچ صوبوں میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کو سر کرنے کیلئے تقریباً تمام چھوٹی بڑی علاقائی اور غیرعلاقائی سیاسی پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی کے مطابق ابھی سے عمل شروع کردیا ہے ان میں سے کون سی پارٹی کس مقام پر سیاسی بازی مارنے میں کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ بس کچھ ہی مہینوں میں ہمارے سامنے ہوگا اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ گذشتہ سال بہار اسمبلی الیکشن میں بہار کے عوام نے جس غیر معمولی دانشمندی کا ثبوت دیا تھا جسے دیکھ کر دنیا حیران وششدر رہ گئی تھی اور یہ سوچنے پر مجبور تھی کہ بہار کے بعض علاقے ابھی بھی پسماندہ ضرور ہیں لیکن وہاں کے لوگوں ابھی بھی بڑے حساسیت کا نمونہ پیش کررہے ہیں تاریخ کی روشنی میں  ملک کے دشمنوں کو سبق سکھانے میں ہمیشہ  پیش پیش رہے ہیں اسی جذبہ کے تحت انہوں نے جس سوجھ بوجھ اور عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اندر ملک کے ناگفتہ بہ حالات میں بھی جمہوریت اور ملک کی سالمیت کی بقا کی فکر کس قدر دامن گیر رہتی ہے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت ان کیلئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیا اسی تاریخ کو دھراتے ہوئے خصوصاً اترپردیش کی سیاسی گھماسان میں سیکولر پارٹیاں متحد ہوکر فرقہ پرست طاقتوں کو ملک میں اتحاد ویکجہتی کو بری نظر سے دیکھنے والوں کو شکست فاش دے کر ملک کی جمہوریت کی بقا کے واسطے  سیاسی لڑائی لڑنے کیلئے خود کو تیار کرسکتی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کی تلاش بیشمار افراد کو ہے  اگر اس کے مثبت پہلو پر عمل کیا گیا تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیئے کہ بہار کے نتائج سے کہیں عمدہ نتائج اترپردیش میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں اترپردیش کے عوام کیلئے بھی بہار والے سبق کو دھرانے کا اچھا موقع ہوگا اور یقیناً اترپردیش کے ہوشمند عوام فرقہ پرستوں کو ان کی اوقات بتانے میں سیکولر اتحاد کے واسطے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، مگـــر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی پارٹیوں کو ملک کے اندرونی حالات کو بہتر بنانے میں زیادہ دلچسپی ہے یا پارٹی کی مسخ شبیہ کو؟ انہیں اپنا اور اپنی پارٹی کا سیاسی قد اونچا کرنے کی زیادہ فکر ہے یا ملک کی سربلندی  کی؟ ان سوالات کے جوابات انتہائی سہل ہیں کہ ملک کی اکثر سیاسی پارٹیوں کو ملک کے اندر بگڑے حالات کی سدھار،   ملک میں امن چین کی بحالی سے بڑھ کر انہیں اپنی پارٹی عزیز ہے ظاہر ہے ایسے گمراہ کنندگان سیاسی رہنماؤں سے ہماری ہر قسم کے توقعات بیجا ہیں یہی وجہ ہے کہ اب جب کہ انتخابات میں  بہت کم وقت  باقی رہ گئے ہیں سیکولر اتحاد کی جانب کسی بھی پارٹی کی طرف سے پیش قدمی دیکھنے کو نصیب نہیں ہوئی جس سیکولر اتحاد کے ذریعے بہار میں کامیابی ملی تھی اس کو دیکھنے کے بعد اکثر لوگ یہ کہنے پر مجبور تھے کہ اب کسی بھی فرقہ پرست طاقت کو شکست دینے کیلئے مزید فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے سامنے بہــــار نے ایک بہــــــار نو کی مثال قائم کردی ہے جسے اپنالینے کے بعد بڑی بڑی طاقتیں ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائیں گی اور اس کا دوسرا تجربہ گاہ اترپردیش اسمبلی الیکشن کو بتایا جارہا تھا مگــــر نہ جانے اندر ہی اندر کون سی ایسی کھچڑی بن رہی ہے جس کی مہک ابھی تک باہر نہیں آئی، جہاں تک اترپردیش میں بڑی سیکولر پارٹیوں کے متحد ہونے کی جو امید جتائی جارہی ہے مجھے نہیں لگتا کہ اس طرح کی کسی بھی صورت حال سے ہمارا سامنا ہونے والا ہے کیونکہ اتحاد کیطرف اشارہ کرنے والی کوئی بھی ہوا اب تک نہیں چلی ہے جس سے کچھ اندازہ لگاپانا ممکن ہو بس تن تنہا ہی تمام پارٹیاں ملک کے اس سب سے بڑے صوبہ کے اقتدار کو حاصل کرنے کا سنہرا خواب دیکھنے میں مست ہیں یہ بات تو طے ہے کہ ذات پات کے نام پر علٰحدگی کے ذریعے کسی بھی پارٹی کو اکثریت ملنا مشکل ہے   کیونکہ یوپی کا سیاسی منظر نامہ ہی کچھ ایسا ہے کہ ووٹوں کی تقسیم یقینی ہے ووٹوں کو منتشر ہونے سے روکنے کا واحد علاج اتحاد ہے جس کی اب تک کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے  آپ کو یاد ہوگا کہ 2014ء لوک سبھا الیکشن میں بے جے پی کے ہاتھوں تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو بری طرح شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا تھا جس بھول کو بڑی تیزی سے محسوس کرتے ہوئے اور ملک کو تباہی وبربادی کی دلدل میں دھکیلنے والوں کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے کانگریس، آر جے ڈی،  اور جے ڈی یو کے لیڈران آئندہ سال ہونے والے بہار اسمبلی الیکشن میں ایک ساتھ مل کر جمہوری لڑائی لڑنے کا عزم کرتے ہوئے نئی دہلی میں ایک میٹینگ منعقد کرکے سیکولر اتحاد کی بنیاد ڈال کر مہا گٹھ بندھن کی شکل میں عوام کے سامنے ابھر کر نئے عزم وحوصلہ کے ساتھ آئے اور موقع بموقع ایک ہی اسٹیج پر سیکولر اتحاد کی تمام جماعتوں کے لیڈران ایک ساتھ کندھوں سے کندھا ملاکر اس اتحاد کو مزید پختگی عطاکرتے رہے تب جاکر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے، یوپی کو فتح کرنے کیلئے اس طرح کی پہل بھی کیا ابھی تک دیکھنے کو ملی ہے؟ حالانکہ اب وقت بہت ہی کم بچ گیا ہے ہوسکتا ہے اب بھی ملک وملت کے دانشوروں کی ایماء پر بڑی پارٹیاں نہ سہی علاقائی چھوٹی پارٹیاں ہی مل کر انتخاب لڑیں تو نقشہ بدل جائے مگــــر فائدہ اتنا نہیں ملے گا جتنا بڑی پارٹیوں کے انضمام سے مل سکتا ہے، ان سب کے باوجود اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ترین امر ہرگز بھی نہیں ہے کہ یوپی الیکشن میں کیا ہونے والا ہے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ سیکولر اتحاد کی کرن دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے جس کے تناظر میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے اترپردیش کو فتح کرنے کی تگ ودو میں لگی پارٹیوں کیلئے دشواریوں کا سامنا ضرور کرنا ہوگا اور دشوار گذار گھاٹیوں کو پار کرلینے کے بعد بھی کامیابی مل جائے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے.