از قلم: مفتی محمد ثاقب قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مالیر کوٹلہ/پنجاب (آئی ان اے نیوز 14/فروری 2017) ہر سال چودہ فروری کو منایا جانے والا دن ویلنٹائن ڈے (یوم عاشقان یا یوم محبت) کہلاتا ہے، جسمیں لڑکے اور لڑکیاں آپس میں جن سے وہ محبت کرتے ہیں اپنی محبت وچاہت کا اظہار کرنے کیلئے تحفے، کارڈز اور گلاب پیش کرتے ہیں، دکانیں سجائی جاتی ہیں لوگ کارڈز، تحفے اور گلاب خریدتے نظر آتے ہیں، ویلنٹائن ڈے کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ اس کے بارے میں کوئی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، البتہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی محبت کے شکار ہوگئے، چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کیلئے نکاح ممنوع تھا، اس لئے اس دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کیلئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس دن اگر کوئی راہب اور راہبہ جنسی تعلقات بھی قائم کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا، راہبہ نے اس پر یقین کیا دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے، اس طرح سے جنسی تعلقات کے قائم کرکے کلیسا کی بے ادبی کرنے پر اسے قتل کردیا گیا بعد میں کچھ نوجوان عیاشوں اور منچلوں نے ویلنٹائن کو شہیدِ محبت پر فائز کرتے ہوئے ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا، تاریخ میں اس دن سے اور بھی کئی منسوب داستانیں ہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ جس نے بھی اس دن کو یومِ محبت کا نام دیا اس نے انسانیت پر بہت بڑا ظلم کیا ہے یہ محبت نہیں ہوس کا دن ہے محبت میں خلوص ہوتا ہے، ہوس میں مفاد ہوتا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس مکرو فریب کا سب سے زیادہ نشانہ صنفِ نازک ہی بنی، محبت کے نام پر ان کو دھوکہ دیا جاتا ہے، محبت کے نام پر انہیں بے آبرو کیا جاتا ہے، لیکن عورت سمجھ رہی ہے کہ یہی میری عزت ہے یہی میرا کمال ہے، ویلنٹائن ڈے کے ذریعے سے ایک طرف تو بے حیائی، عریانیت پھیلتی ہے جبکہ دوسری جانب معاشرے میں خاندانی نظام میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور اس موقع سے خواتین کو ملنے والے تحائف کی وجہ سے کئی گھروں میں بہت ہی سنگین حادثات جنم لے لیتے ہیں، اگر ہم آنے والی نسلوں کو مغرب کے اس حملے سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسکے خلاف قدم اٹھانا ہوگا اسکے لئے ہمیں چند اقدامات کرنے ہوں گے اولا جو دکاندار اس کارڈز اور گلاب کو فروخت کررہے ہیں ان کو سمجھایا جائے، اور معاشرتی طور پر ان پر دباؤ ڈالا جائے، پھر فیملی ممبرز، دوستوں اور اپنے سے منسلک تمام لوگوں سے کہا جائے کہ اس کام کے ارتکاب کرنے سے بچیں اس دن کو بے شرمی اور عریانیت کے طور پر منانے کے بجائے حیاء ڈے کے طور پر منائیں.