تحریر: فضیل احمد ناصری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امتِ مسلمہ جن حرام اعمال میں مبتلا ہے، ان میں سے ایک "تصویر کشی "بھی ہے، اس بدترین شوق نے امتِ مسلمہ کی روحانیت پر زبردست بم باریاں کی ہیں، آں قدر ایں قدر کو چھوڑیے، عظیم ترین علمی ہستیاں بھی اس "عملِ قبیح "میں بری طرح ملوث ہیں-بلکہ سچ کہیے تو علما کی وجہ سے تصویر کشی کا گناہ عوام کی نظر میں اب گناہ بھی نہیں رہا-لوگ دھڑلے سے فوٹو کھنچوا رہے ہیں، تصویریں کھنچواتے وقت وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کس مقام پر یہ عمل انجام پا رہا ہے؟ خانقاہیں تک محفوظ نہیں، بڑے بڑے "شیوخِ حرم "فوٹو اتروا رہے ہیں، سیلفی لے رہے ہیں، مدرسے بھی پاک نہیں، حتیٰ کہ مسجدوں کو بھی بندگانِ خدا نے نہیں چھوڑا-
رات میں دستار بندی کے ایک جلسے میں تھا، جلسہ گاہ مسجد تھی، اس موقع پر دارالعلوم اور وقف کے معتبر اساتذہ بھی تھے-اجلاس صحیح سلامت اختتام پذیر ہو گیا، جب علما کی بڑی تعداد رخصت ہوگئی تو اچانک دیکھا کہ محرابِ مسجد کے پاس ہی عمامہ پوش طلبہ صف بستہ ہوگئے اور دھڑا دھڑ تصویریں اترنے لگیں، میں نے صاحبِ کیمرہ سے کہا کہ بھائی! کم از کم مسجد کا تو احترام کرلو! اس نے اَن سنی کردی اور مشغول رہا، میں نے پھر تنبیہ کی تو وہ چلا گیا اور مسجد خالی ہوگئی، اجلاس کے بعد کھانے کا بھی نظم تھا، خورد و نوش کے لیے مسجد کے دوسرے منزلے کے بغلی کمرے میں کھانے کے لیے پہونچا تو دیکھتا کیا ہوں کہ مسجد کے بالائی حصے کی صفِ اول میں وہی "اصحابِ جبہ و دستار "کھڑے ہیں اور تصویر بازی جاری ہے-میں حیران رہ گیا کہ یہ لوگ اللہ کے گھر کو بھی "گناہ کا مرکز "بنا رہے ہیں اور انہیں اللہ کا ڈر بھی نہیں لگتا-
یہ خطرناک اور مذموم ترین عمل ہے، پیغمبرﷺ نے ایسے لوگوں کے لیے جہنم کی دھمکی دی ہے، لیکن چل رہا ہے، صورتِ حال یہ ہے کہ ایک شخص ڈوب رہا ہے اور دوسرا فوٹو لے رہا ہے، کوئی پِٹ رہا ہے اور "من چلا "کیمرے بازی میں غرق، کوئی گاڑی سے تصادم کے سبب سڑک پر زخمی پڑا کراہ رہا ہے، ایڑیاں رگڑ رہا ہے، ایک عدد "مدد "کا منتظر ہے اور صاحب ہیں کہ انہیں کینوس سے فرصت ہی نہیں، غضب تو یہ کہ جنازہ تیار ہے اور اس کی تصویر اتر رہی ہے، میت کاندھوں پر سوار ہے اور "احباب "اپنے محبوب عمل میں سرگرم، مردے کو قبر میں اتارا جارہا ہے اور ادھر دھڑا دھڑ فوٹو کھیچ رہے ہیں، رونے اور نصیحت قبول کرنے کے مواقع پر بھیِ اسلامی تعلیمات سے بیزاری کی انتہا ہے.
عوام کی اصلاح کیوں کر ہوگی، جب دینی جلسے جلوس بھی اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتے-مجھے یہ سب دیکھ کر بڑی کڑھن ہوتی ہے، ایک طرف مسلمان ظالم حکمرانوں کی مار جھیل رہے ہیں اور دوسری طرف رجوع الی اللہ کی بجاے معاصی کا سیلاب ہے-نمایاں ہونے کے شوق اور شہرت کی طلب نے دینِ اسلام کو زبردست نقصان پہونچایا ہے اور ہم ہیں کہ فلم ایکٹروں، کھلاڑیوں اور سیاست دانوں کے نقالی میں ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں:
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟