از قلم: محمد سالم قاسمی سریانوی، استاذ جامعہ عربیہ احیاءالعلوم مبارکپور اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(قسط ثالث و آخر)
زکاۃ کا نصاب اور اس کی مقدار:
سابقہ قسطوں میں آپ نے زکاۃ کی اہمیت وفضیلت اور اس کے نہ دینے پر وعید ودھمکی کو قدرے تفصیل سے پڑھ لیا، اب سوال یہ ہے کہ زکاۃ کا نصاب کیا ہے اور کتنی مقدار زکاۃ نکالی جاتی ہے؟تو بنیادی طور پر یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ جس طرح زکاۃ اللہ کا عائد کردہ ایک فریضہ ہے، اسی طرح اس کی مقادیر اور نصاب بھی اسی کی جانب سے طے کردہ ہے جو جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے احادیث طیبہ کے اندر تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،اور اس کے نصاب و مقدار کا تعین عام افراد انسانی کے ذمہ نہیں رکھا گیا ہے، اس سلسلہ میں انھیں اصول وضوابط کو سامنے رکھنا ہوگا جو قرآن وحدیث کے اندر بیان فرمائے گئے ہیں، یہ نصاب اور مقدار عین فطرت کے مطابق ہیں، نہ ہی اس میں خواہ مخواہ دولت وثروت والوں پر بوجھ ہے اور نہ ہی ا س میں بخیل قسم کے لوگوں کو بالکل چھوٹ دی گئی ہے؛ بل کہ اس کا ایک مناسب ومعتدل نظام رکھا گیا ہے جو افراط وتفریط کی بلا ومصیبت سے پاک ہے۔ مقادیر ونصاب کے تعلق سے مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے نہایت ہی بہترین اور واضح حکمت ومصلحت اپنی مشہور زمانہ کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ“ میں ذکر فرمائی ہے جس کا ترجمہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کے قلم سے آپ حضرات کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں، جس سے بات بالکل واضح ہوجائے گی۔ شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں: ”پھر اس کی ضرورت ہوئی کہ زکاۃ کی مقدارمقرر کر دی جائے؛ اس لیے کہ اگر نہ کیا گیا تو اس میں بہت افراط وتفریط اور حدود سے تجاوز کا خطرہ ہے، یہ نہ اتنی کم ہونی چاہیے کہ ان پر اس کا کوئی اثر ہی محسوس نہ ہواور ان کے بخل کا کوئی علاج ہی نہ ہوسکے، نہ اتنی زیادہ ہونی چاہیے کہ اس کا ادا کرنا مشکل ہوجائے، اسی طرح زکاۃ کی مدت کا بھی معاملہ ہے، نہ یہ مدت اتنی مختصر مناسب تھی کہ کہ بار بار زکاۃ ادا کرنے کی نوبت آتی، نہ اتنی طویل کہ بخیلوں کو پوری چھوٹ مل جاتی اور محتاجوں اور ضرورت مندوں کا کوئی بھلا ہی نہ ہو سکتا، مناسب یہی تھا کہ اس کا ایک ایسا قانون بنا دیا جاتا جس طرح عام طور پر بادشاہ اپنی رعایا کے لیے ٹیکس کی حد مقرر کردیتے ہیں؛ اس لیے کہ عرب وعجم سب اس کے عادی ہیں اور اس کو ایک ناگزیر چیز سمجھتے ہیں، اور ان کے احساس کو اس سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی، خاص طور پر مسلمان جو کلفت کے بجائے الفت کا عادی اور خوگر ہے اس حکم کی تابع داری میں پیش پیش ہوگا۔“ (ارکان اربعہ)
شریعت میں کل چار قسم کی چیزیں اموال زکاۃ کی قبیل سے ہیں، یعنی سائمہ جانور، سونے چاندی، مال تجارت اور کھیتی ودرختوں کی پیداوار، البتہ اس آخری قسم کو فقہاء ”زکاۃ“ سے نہیں بل کہ ”عشر“ سے تعبیر کرتے ہیں، جانور چوں کہ ہمارے یہاں اتنی مقدار میں پالے نہیں جاتے جس پر زکاۃ فرض ہوتی ہے؛ اس لیے اس کا تذکرہ اور اسی طرح پیداوار کا نصاب بیان کرنا یہاں مقصود نہیں ہے، بل کہ صرف دو قسموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔چاندی کا نصاب خود احادیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں کہ چاندی کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”ولیس فیما دون خمس اواق من الورق صدقۃ“ کہ ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے“(بخاری ومسلم) اس روایت میں چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ بیان کیا گیا ہے جس کی مقدار مشہور قول کی بنا پر ساڑھے باون تولہ ہے۔ (معارف الحدیث)
زکاۃ کا نصاب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس ضرورتِ اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان میں کسی ایک کی مالیت کے بقدر روپیے یا سامان تجارت ہوں اور ان پر سال گزر گیا ہو تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں صاحب نصاب ہے اور اس پر زکاۃ فرض ہے، اسی طرح اس پر صدقہ فطر اور قربانی بھی واجب ہے۔ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار موجودہ گرام کے اعتبار سے 612/ گرام ہے، اور ساڑھے سات تولہ کی مقدار ساڑھے 87 /گرام ہے۔اور جس شخص کے پاس یہ نصاب یا اس سے زائد ہو اسے اس مقدار کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد بطور زکاۃ کے نکالنا ہوگا، مثلا اگر کسی کے پاس ایک لاکھ روپیے پچھلے سال یکم رمضان کو تھے، اب اس کے پاس اتنے ہی روپیے سالِ رواں بھی موجود ہیں تو اب اس پر زکاۃ فرض ہوگی اور کل روپیوں کا ڈھائی فیصد اسے نکالنا ہوگا، یعنی ایک لاکھ میں ڈھائی ہزار روپیے بطور زکاۃ کے نکالنا ہوگا،اِس وقت روپیوں کے اعتبار سے زکاۃ کا نصاب پچیس ہزار (25000)روپیے ہے؛لہذا جس شخص کے پاس اتنی مالیت ہوگی وہ صاحبِ نصاب ہوگا۔
زکاۃ کے کچھ اہم مسائل:
ویسے زکاۃ کے بے شمار مسائل ہیں جن کو جاننے کی کوشش کرنا چاہیے، ان مسائل کو کتب فقہ وغیرہ میں نہایت بسط وتفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جو حضرات تفصیلی طور پر ان مسائل کو جاننا چاہیں وہ مسائل وغیرہ کی کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں، البتہ کچھ مسائل ایسے ہیں جن کا جاننا ہر صاحب نصاب کو ضروری ہے تاکہ زکاۃ میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
زکاۃ ہر ایسے شخص پر فرض ہے جو نصاب کا مالک ہوگا، یہ شریعت کا ایک متفقہ مسئلہ ہے، لیکن لوگ اس میں کوتاہی کرتے ہیں، ملکیت عموما واضح نہیں ہوتی جس سے زکاۃ کے حوالے سے لاپرواہی ہوتی ہے جو قطعا مناسب نہیں ہے۔ اگر کئی لوگ ایک ساتھ رہتے ہوں یا ایک ساتھ کاروبار کرتے ہوں، تو ہر ایک کی ملکیت متعین ہونی چاہیے کہ کون کس چیز کا مالک ہے، اسی طرح کس کی ملکیت میں کتنے روپیے ہیں؟ مثلا اگر ایک گھر میں دو بھائی رہتے ہیں، کاروبار ایک ساتھ کرتے ہیں لیکن منافع وغیرہ میں الگ الگ حصہ داری ہے، جو نفع ہوتاہے وہ علاحدہ علاحدہ رکھتے ہیں اور دونوں الگ الگ نقدی کے مالک ہوتے ہیں تو رقم اور اشیاء کی الگ الگ تعیین ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ جو بڑا بھائی ہے وہی صرف زکاۃ ادا کرے، دوسرا بھائی سمجھے کہ میری بھی زکاۃ ادا ہوگئی، ایسا کرنا صحیح نہیں؛ بل کہ زکاۃ میں ہر ایک کی الگ الگ ملکیت دیکھی جائے گی اور اسی کے اعتبار سے فرضیت زکاۃ وعدم فرضیت زکاۃ کا حکم جاری ہوگا۔
زیورات کی ملکیت بھی بالکل واضح ہونی چاہیے، جو زیورات عورت اپنے گھر سے شادی کے موقع پر لاتی ہے وہ خود اس کا ہوتاہے، اس میں اسی کی ملکیت کا اعتبار ہوگا، البتہ جو زیور شوہر کے گھر کی طرف سے عورت کو دیا جاتا ہے وہ عارضی ہوتاہے، اس میں عورت کی ملکیت کا اعتبار نہیں ہے، بل کہ شوہر یا باپ یا ماں جو بھی اس کا مالک ہوگا اسی کے اعتبار سے نصاب دیکھا جائے گا، اس لیے اس زیور کی ملکیت متعین کرلینی چاہیے، تاکہ کوئی دقت نہ ہو۔
جو زیورات عورت کی ملکیت میں ہوتے ہیں تو ان میں عورت ہی پر زکاۃ فرض ہوگی اور اسے ہی اس کی زکاۃ نکالنا ہوگا، لیکن اگر اس کے پاس روپیے نہ ہوں یا خود شوہر اس کی اجازت سے زکاۃ نکال دے تو زکاۃ ادا ہو جائے گی جیسا کہ عام طور سے یہی طریقہ رائج ہے۔
اگر ایک باپ کے ساتھ کئی ایک بیٹے ہوں اور وہ سب اسی کی عیال میں ہوں تو اصلا باپ پر زکاۃ فرض ہوگی، لیکن اگر باپ کی اجازت سے بیٹوں کے پاس بھی اپنا نصاب کے بقدر روپیہ ہوتو ہر ایک پر الگ سے زکاۃ فرض ہوگی، صرف باپ کی طرف سے زکاۃ نکالنے سے بیٹوں کی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔
زکاۃ کی فرضیت کے لیے مال پر سال کا گزرنا شرط ہے، لیکن ہر ہر مال پر سال کا گزرنا ضروری نہیں ہے جیسا کہ لوگ اس سلسلہ میں غلط فہمی کے شکار رہتے ہیں بل کہ صرف بقدر نصاب مال پر سال کا گزرنا شرط ہے،اس میں بھی اگر دورانِ سال کبھی نصاب سے کم مال ہوجائے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، مثلا ایک شخص کے پاس سال کے شروع میں ایک لاکھ روپیہ تھا،درمیان سال میں پیسہ کبھی بڑھ گیا کبھی کم ہوگیا، جب سال پورا ہونے کا وقت ہوا تو اس کے پاس قریب ایک ہی لاکھ روپیہ تھا، لیکن سال کے مکمل ہونے سے دو دن پہلے اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ اور آگیا تو اس نئے ایک لاکھ پر الگ سے سال گزرنا شرط نہیں ہے، بل کہ اسے پہلے والے مال کے ساتھ ملایا جائے گا اور اس پر کل دو لاکھ روپیہ کی زکاۃ فرض ہوگی۔
زیورات کی زکاۃ کے سلسلہ میں یہ مسئلہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی وہی قیمت لگے گی جو مارکیٹ میں اُس وقت رائج ہوگی، قیمتِ خرید کا اس میں کوئی اعتبار نہیں ہے، مثلا اگر کسی نے دو سال پہلے ایک زیور دو لاکھ کا خریدا، اب اس کی قیمت مارکیٹ میں پونے دو ہی لاکھ روپیے ہے تو اس پر پونے دو لاکھ روپیے ہی کی زکاۃ فرض ہوگی، اسی طرح اگر اس کی قیمت بڑھ جائے مثلا وہ زیور اِس وقت ڈھائی لاکھ روپیے کا ہے تو اب ڈھائی لاکھ روپیے کے اعتبار سے زکاۃ فرض ہوگی، اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مارکیٹ میں وہی قیمت معتبر ہوگی جس قیمت پر سونار لوگ زیورات بیچتے ہیں، نہ کہ وہ قیمت جس پر وہ زیور خریدتے ہیں؛ کیوں کہ عموما سونار کچھ کم قیمت پر زیور خریدتے ہیں، تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، بل کہ اصل فروخت والی قیمت کا اعتبار ہوگا۔
اسی طرح زکاۃ نکالتے وقت مکمل رقم اور سامانِ تجارت کا اچھی طرح حساب کرنا چاہیے، جتنی بھی رقم اور سامان ہو سب جوڑ کر کہیں نوٹ کر لینا چاہیے اس کے بعد حساب لگانا چاہیے، صرف اندازے اور اٹکل سے حساب نہیں لگانا چاہیے جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی، کیوں کہ اندازے سے حساب میں غلطی کا امکان ہوتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی غلطی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے پکڑ آجائے اور ہمیں احساس ہی نہ ہو۔
جس طرح زکاۃ نکالنے میں پوری توجہ ضروری ہے اسی طرح اس کو خرچ کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے، اللہ نے قرآن کے اندر مصارف زکاۃ کو خود بیان فرمایا ہے، اگر ان سے ہٹ کر کسی غیر مستحق کو زکاۃ دی جائے گی تو زکاۃ ادا نہیں ہوگی، بل کہ ذمہ میں باقی رہے گی، اس لیے دیتے وقت اس پر نگاہ ہونی چاہیے کہ کس کو زکاۃ دے رہیں، وہ مستحق زکاۃ ہے بھی کہ نہیں، تاکہ ہم زکاۃ کے فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دے سکیں اور اس کی وجہ سے اللہ کی خوشنودی کے مستحق ہو سکیں۔
اس سلسلہ میں ایک نہایت اہم چیز نیت کی اصلاح بھی ہے، زکاۃ کی ادائیگی کے وقت نیت کو ضرور ٹٹول لینا چاہیے کہ ہماری نیت کیا ہے، کہیں ریا اور دکھاوا نہ آجائے اور ہماری زکاۃ ہی مقبول نہ ہو، نیت کا معاملہ بہت مہتم بالشان ہے، اعمال کی قبولیت کا دار ومدار اسی پر رکھا گیا ہے؛ اس لیے ہر حال میں اللہ کی رضا وخوش نودی کو سامنے رکھا جائے، اور ریا ونمود اور فخر وغیرہ سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے۔ واللہ الموفق