تحریر: قاری محمد مامون الرشید استاد شعبہ تحفیظ القرآن مدرسہ طیب المدارس پریہار
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہیکہ خالق کائنات کی تخلیقات میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنکی قدردانی کرنے میں انسان کی کامیابی مضمر ہے، انہیں میں سے ایک وقت بھی ہے، جسکے بارے میں کہا گیا "الوقت اثمن من الذھب" ترجمہ: وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے، اور انسان کی موت و حیات اسی پر معلق ہے، وقت کا قدرداں ہی اپنے زمانے کا سکندر بنتا ہے، اور جس نے بھی وقت کو ہمیشہ اپنے عمل کے ساتھ مربوط رکھا ہے اسی کو وقت نے مستقبل میں اپنی آنکھوں پر بیٹھا کر راہ ترقی کا مزہ چکھایا ہے.
چناں چہ وقت کی قدردانی ہی کا نتیجہ ہے کہ ائمہ اربعہ نے لوگوں کو سیدھی راہ دکھا کر امام کی حیثیت حاصل کی اور علامہ زمحشری و جرجانی رحمت اللہ علیہ علم تفسیر کے اندر قرآن فہمی میں اپنی مثال آپ رکھتے ھیں، امام صحاح ستہ نے درس حدیث میں کمال حاصل کر کے امت کو ایک انعام دیا ہے، پھر ہم ماضی قریب میں نظر ڈالتے ہیں، تو برصغیر میں علم و حدیث کی نشر و اشاعت کے داعی و مبلغ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ سات سال کی عمر میں تمام علوم سے فراغت حاصل کر کے دہلی میں مسند درس حدیث پر درس دیتے نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف شاہ عبدالعزیز رحمت اللہ علیہ پندرہ سال کی عمر میں فراغت پانے کے بعد درس وتدریس میں مشغول ہو گئے.
فقیہ العصر مولانا رشید احمد گنگوہی رحمت اللہ علیہ کے علمی انہماک و مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ ان کے نزدیک مطالعہ سے بڑھ کر کوئی شیئ مرغوب نہیں تھی، محدث لاثانی علامہ انور شاہ کشمیری رحمت اللہ علیہ بارہ سال کی عمر میں فتوے دینے لگے تھے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ کئی راتیں ایسی گزریں کہ ان راتوں میں پہلو بستر سے جدا رہا.
مولانا اشرف علی تھانوی رحمت اللہ علیہ نے کم و بیش ایک ہزار کتابوں کی تصنیف کی اور حکیم الامت کے نام سے مشہور ہوئے.
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمت اللہ علیہ نے بھی بہت ساری کتابوں کی تصنیف کی، اور موجودہ دور میں جو علماء دینی خدمت انجام دے رہے ہیں، انہوں نے بھی وقت کی اہمیت و افادیت کا پورا خیال رکھا ہے، جس بنا پر آج علمی حلقوں میں ان کا شہرہ ہے، مثلا مفتی تقی عثمانی صاحب و خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اور ان کے علاوہ بہت سی ایسی شخصیات نظر آتی ہیں جن سے دنیا فیضیاب ہو رہی ہے، کیونکہ سورج وقت کے دامن میں اور ستاروں کے گریباں میں ہے، شہر و بیاباں محل و جھونپڑی ہرجگہ چھایا ہوا ہے موت کے گھاٹ بھی اتارتا ہے، اور زندگی بھی بخشتا ہے، جلانے والی آگ بھی ہے اور باغوں کا باغ بھی، وہ ساکن بھی ہے متحرک بھی، وقت مثل برف ہے، جس طریقے سے برف پگھلتے پگھلتے اپنے وجود کو کھو کر پانی میں تبدیل ہو جاتا ہے، اسی طریقے سے وقت کی ناقدری کرنے والے لوگوں کی کوئی عزت و فضیلت نہیں رہتی.
حاصل یہ ھیکہ جس نے بھی وقت کی قدر و منزلت کو پرکھا ہے وقت نے اس کے قدم بوس ہو کر اسے عزت و عظمت بخشا ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے نزدیک وقت کی کوئی اہمیت نہ رھی یہی وجہ ھیکہ وقت کا ایک بڑا حصہ لغویات و فضولیات میں صرف ہوجاتا ہے اور اسکا احساس تک نہیں ہوتا جس کا نتیجہ خسران مستقبل کو مستلزم ہے، جسکا کوئی حاصل نہیں اسلئے ہمیں چاھیئے کہ ھم اکابر و اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وقت کی اہمیت و فضیلت کو سمجھیں، اور حتی الامکان اپنی زندگی کو نظام الاوقات کے مطابق گذارنے کی سعی کریں.