ازقلم: شہزاد احمد اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(1): قَالَ تَعَالیٰ: وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ (سورۃ الحج: 34)
ترجمہ: ہم نےہر امت کےلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپائیوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے ان کو عطاء فرمائے۔
(2): قَالَ تَعَالیٰ: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (سورۃ الکوثر: 2)
ترجمہ: آپ اپنے رب کی نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔
فائدہ:
اس آیت کی ایک تفسیر تو یہی ہے کہ ﴿ وَانْحَرْ﴾سے مراد قربانی ہے، دوسری تفسیر کے مطابق اس سے مراد نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے۔
علامہ ابن عبد البر [م463ھ] مشہور محدث امام ابو بکر احمد بن محمد الاثرم [م273ھ] کے حوالے سے ایک روایت نقل کرتے ہیں:
ذَكَرَ الْأَثْرَمُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيْدِ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَنْ عَاصِمِ الْجَحْدَرِیِّ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ صَبْھَانَ سَمِعَ عَلِیًّا یَقُوْلُ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} قَالَ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ.
(التمہید لابن عبد البر: ج8 ص164 من حدیث عبد الکریم بن ابی المخارق)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ﴿ وَانْحَرْ﴾ سے مراد دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا ہے۔
(3): عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ.
(سنن ابن ماجہ: ص226- باب ثواب الاضحیہ)
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟(یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا؟ فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یا رسول اللہ! اون (کے بدلے میں کیا ملے گا؟) فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔
(4): عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ اَنَّہْ لَیَأْ تِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَّ یَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْساً.
(جا مع التر مذی: ج1ص275 با ب ما جاء فی فضل الاضحیۃ)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:قربانی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
(5):عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہاَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «ضَحُّوا، وَطَيِّبُوا بِهَا أَنْفُسَكُمْ؛ فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ مُسْلِمٍ يُوَجِّهُ ضَحِيَّتَهُ إِلَى الْقِبْلَةِ إِلَّا كَانَ دَمُهَا، وَفَرَثُهَا، وَصُوْفُهَا حَسَنَاتٍ مُحْضَرَاتٍ فِي مِيزَانِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
(مصنف عبد الرزاق: ج4 ص388 باب فضل الضحایا و الھدی)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قربانی کیا کرو اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو پاک کیا کرو اس لیے کہ جب مسلمان اپنی قربانی کا رخ (ذبح کرتے وقت) قبلہ کی طرف کرتا ہے تو اس کا خون، گوبر اور اون قیامت کے دن میزان میں نیکیوں کی شکل میں حاضر کیے جائیں گے۔