عبدالرّحمٰن الخبیر قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رام نوی کے موقع پر اس سال بھیانک فساد بھڑک اٹھا جس سے پورا ملک جل اٹھا لیکن بنگال اور بہار کو اس فساد نے شعلہ جوالہ بنا دیا نفرت کی آگ نے سینکڑوں دکانوں کو خاکستر کردیا اور کئی معصوموں کو خون میں تڑپا دیا سب سے خطرناک آگ بنگال کے شہر آسنسول میں لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی زمین چار لوگوں کے خون سے لالہ زار ھو گئی ان میں ایک جواں سال لڑکا صبغت اللہ رشیدی بھی تھا جس کو ظالموں نے بڑی بیدردی سے قتل کیا سر کو تن سے جدا کیا اور پھر ناخن بھی کھینچ لئے صبغت اللہ کے والد امداد اللہ رشیدی ایک مسجد کے امام ھیں لاش کی بے حرمتی کو دیکھ کر مسلمانوں کا جوش انتقام بھڑک اٹھا اور خون کا بدلہ لینے کیلئے بڑی تعداد میں عیدگاہ میں جمع ھو گئے قریب تھا کہ آسنسول میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں تلواریں نیام سے باہر آگئیں اور نوجوان سر میں کفن باندھ کر میدان کارزار میں کود پڑے حالت کو بارود کے ڈھیر پر دیکھ ضلع انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ان کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ وہ اسکو آگ بجھانے کیلئے کیا کرے کہ اچانک مقتول کے والد بھیڑ کے سامنے نمودار ھوتے ھیں اور کچھ یوں مخاطب ھوتے ھیں :میرے بھائیو اور دوستو مجھے معلوم ھے کہ میرا بیٹا اس دنیا سے جا چکا ھے اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا اس نے اپنی حیات مستعار کے مقررہ دن پورے کر لئے اس لئے اسے رب نے اپنے پاس بلا لیا میں اسکے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ھوں اور آپ لوگوں سے اپنی عزت واحترام کا واسطہ دے کر التجاء کرتاھوں کہ آپ شہر کے امن وسکون کو غارت نہ کریں ورنہ میں اس شہر کو ھمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلا جاؤں گا سوز ودرد میں ڈوبی ھوئی ان کی اپیل کا ایسا اثر ھواکہ پورا مجمع سناٹے میں آگیا لوگوں نے غایت ادب کے ساتھ ان کی صدا پر لبیک کہا اور خاموشی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے یہ منظر دیکھ کر ضلع انتظامیہ کے افسران ہکا بکا ھو گئے انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ مودی کے راج میں نفرت کے ماحول میں کوئی ایسا انسان بھی ھمارے درمیان موجود ھے جس کی آنکھوں کے سامنے اسکی امیدوں کے چراغ کو درندگی کے ساتھ بجھا دیا گیا اور معصوم کلی کو پوری سفاکیت کے ساتھ مسل دیا گیا۔۔۔لیکن اسکی زبان پر حرف شکایت تک نہیں ۔۔۔بلکہ الٹا دوسروں کو امن وشانتی کی تلقین کر رھا ھے ۔۔۔یہ منظر بڑا ھی رقت آمیز تھا جس نے سب کو آبدیدہ کردیا ملک بھر کے میڈیا نے اس خبر کو ہیڈلائن کے ساتھ نشر کیا اور نفرت کی سیاست کرنے والے لیڈروں کو اس سے سبق لینے کی اپیل کی ۔۔۔ٹی وی چینلس نے اسے نفرت کے ماحول میں امید کی کرن سے تعبیر کیا۔۔لیکن لاکھ ٹکے کا سوال یہ ھے کہ کیا ھمارے لیڈران اس سے نصیحت لیں گے یا اپنی ہٹ دھرمی دریدہ دہنی کے ساتھ نفرت کے پجاریوں کو پناہ دیتےرھیں گے ؟؟ظالموں کو کیفر کردار تک پہونچانے کے بجائے اس کی پشت پناھی کر تے رھیں گے؟؟ یہ سوال آج گری راج اور اشونی چوبے سے بھی ھے اور ضمیر فروش نتیش کمار سے بھی ۔۔مودی سے بھی ھے اور یوگی سے بھی ۔۔۔سادھوی پراچی سے بھی ھے اور سنگیت سوم سے بھی ۔۔۔یہ سوال ہمیشہ قائم رھے گا لیکن دیکھنے والی بات یہ ھے کہ کیا امام کی اپیل کسی کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں کامیاب ھوتی ھے یا نہیں؟۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رام نوی کے موقع پر اس سال بھیانک فساد بھڑک اٹھا جس سے پورا ملک جل اٹھا لیکن بنگال اور بہار کو اس فساد نے شعلہ جوالہ بنا دیا نفرت کی آگ نے سینکڑوں دکانوں کو خاکستر کردیا اور کئی معصوموں کو خون میں تڑپا دیا سب سے خطرناک آگ بنگال کے شہر آسنسول میں لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی زمین چار لوگوں کے خون سے لالہ زار ھو گئی ان میں ایک جواں سال لڑکا صبغت اللہ رشیدی بھی تھا جس کو ظالموں نے بڑی بیدردی سے قتل کیا سر کو تن سے جدا کیا اور پھر ناخن بھی کھینچ لئے صبغت اللہ کے والد امداد اللہ رشیدی ایک مسجد کے امام ھیں لاش کی بے حرمتی کو دیکھ کر مسلمانوں کا جوش انتقام بھڑک اٹھا اور خون کا بدلہ لینے کیلئے بڑی تعداد میں عیدگاہ میں جمع ھو گئے قریب تھا کہ آسنسول میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں تلواریں نیام سے باہر آگئیں اور نوجوان سر میں کفن باندھ کر میدان کارزار میں کود پڑے حالت کو بارود کے ڈھیر پر دیکھ ضلع انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ان کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ وہ اسکو آگ بجھانے کیلئے کیا کرے کہ اچانک مقتول کے والد بھیڑ کے سامنے نمودار ھوتے ھیں اور کچھ یوں مخاطب ھوتے ھیں :میرے بھائیو اور دوستو مجھے معلوم ھے کہ میرا بیٹا اس دنیا سے جا چکا ھے اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا اس نے اپنی حیات مستعار کے مقررہ دن پورے کر لئے اس لئے اسے رب نے اپنے پاس بلا لیا میں اسکے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ھوں اور آپ لوگوں سے اپنی عزت واحترام کا واسطہ دے کر التجاء کرتاھوں کہ آپ شہر کے امن وسکون کو غارت نہ کریں ورنہ میں اس شہر کو ھمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلا جاؤں گا سوز ودرد میں ڈوبی ھوئی ان کی اپیل کا ایسا اثر ھواکہ پورا مجمع سناٹے میں آگیا لوگوں نے غایت ادب کے ساتھ ان کی صدا پر لبیک کہا اور خاموشی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے یہ منظر دیکھ کر ضلع انتظامیہ کے افسران ہکا بکا ھو گئے انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ مودی کے راج میں نفرت کے ماحول میں کوئی ایسا انسان بھی ھمارے درمیان موجود ھے جس کی آنکھوں کے سامنے اسکی امیدوں کے چراغ کو درندگی کے ساتھ بجھا دیا گیا اور معصوم کلی کو پوری سفاکیت کے ساتھ مسل دیا گیا۔۔۔لیکن اسکی زبان پر حرف شکایت تک نہیں ۔۔۔بلکہ الٹا دوسروں کو امن وشانتی کی تلقین کر رھا ھے ۔۔۔یہ منظر بڑا ھی رقت آمیز تھا جس نے سب کو آبدیدہ کردیا ملک بھر کے میڈیا نے اس خبر کو ہیڈلائن کے ساتھ نشر کیا اور نفرت کی سیاست کرنے والے لیڈروں کو اس سے سبق لینے کی اپیل کی ۔۔۔ٹی وی چینلس نے اسے نفرت کے ماحول میں امید کی کرن سے تعبیر کیا۔۔لیکن لاکھ ٹکے کا سوال یہ ھے کہ کیا ھمارے لیڈران اس سے نصیحت لیں گے یا اپنی ہٹ دھرمی دریدہ دہنی کے ساتھ نفرت کے پجاریوں کو پناہ دیتےرھیں گے ؟؟ظالموں کو کیفر کردار تک پہونچانے کے بجائے اس کی پشت پناھی کر تے رھیں گے؟؟ یہ سوال آج گری راج اور اشونی چوبے سے بھی ھے اور ضمیر فروش نتیش کمار سے بھی ۔۔مودی سے بھی ھے اور یوگی سے بھی ۔۔۔سادھوی پراچی سے بھی ھے اور سنگیت سوم سے بھی ۔۔۔یہ سوال ہمیشہ قائم رھے گا لیکن دیکھنے والی بات یہ ھے کہ کیا امام کی اپیل کسی کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں کامیاب ھوتی ھے یا نہیں؟۔