از: محمد آصف قاسمی سیتامڑھی
ــــــــــــــــــــــــــ
ان دنوں فلسطین کی زمین مسلم نوجوانوں اور بچوں کے خون سے لہو لہان ہے، کم و بیش دو ہزار سات سو مسلمانوں کے سینوں میں صہیونیوں کی گولیاں اتر چکی ہیں، کتنے ہی بچے اور بچیاں دم توڑ چکے ہیں اور کتنے ہی اسپتالوں میں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں.
عجیب بات ہے کہ فلسطین میں مسلمانوں اور دہشت گرد یہودیوں کے درمیان جو معرکہ آرائی جاری ہے اس میں بندوقوں کا مقابلہ سینوں سے ہو رہا ہے کیونکہ جتنے بھی مارے جا رہے ہیں سب کے سب نہتے، جتنے بھی زخمی ہو رہے ہیں ان کے پاس ترکاری کاٹنے والے چاقو بھی نہیں ہیں مگر پھر بھی یہ معرکہ جاری ہے، نہتے اور جوشیلے مسلم نوجوان اپنے سینوں کے پاکیزہ خون سے صہیونیوں کے نجس خنجروں کی دھار کو کند کر رہے ہیں مگر ساری دنیا خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے بالخصوص مسلم ممالک ایسا لگتا ہے کہ آقا کو خوش کرنے میں مصروف ہیں.
آج کوئی بھی اسرائیل کی دہشت گردی کو دہشت گردی نہیں کہہ رہا ہے، کوئی نیتن یاہو کو اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد کہنے کی جرات و ہمت نہیں کر پارہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل اور امریکہ سے بڑا دہشت گرد اس دنیا میں کوئی نہیں ہے دوسروں کو کیا کہا جائے خود فلسطین کی حکومت اپنے جوشیلے نوجوانوں کا ساتھ نہیں دے پا رہی ہے ورنہ کیا مجال ہے کہ اتنی دور سے آکر انبیاء کی سرزمین پر کوئی دادا گری کرسکے.
حالانکہ جو نوجوان محو کار زار ہیں ان کو حکومت نہیں چاہئیے، دولت نہیں درکار، ان کا تو صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو صہیونیوں سے بچا سکیں.
افسوس کہ چودہ مئی کو اسرائیل کے قیام کی 70 /ویں سالگرہ کا جشن اسرائیلی افواج نے 70 /مسلم نوجوانوں کا خون بہا کر منایا اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے غزہ کے ارد گرد محاصرہ اتنا سخت کردیا کہ زخمیوں کے لئے دوائیں بھی نہیں پہنچ پارہی ہیں
سختیوں میں اضافہ کر کے اسرائیل کی ظالم و جابر دہشت گرد حکومت شاید یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو شکست دے کر ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ جما لے گی تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے اسرائیلی دہشت گرد حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس قوم سے وہ ٹکر لے رہی ہے وہ بہادر اور نڈر قوم ہے اس کو موت کا ڈر دکھا کر جھکا پانا ممکن نہیں ہے.
قابل ذکر امر یہ ہے کہ صیہونیت اور یہودیت کی اس خونی کتاب کا موجودہ باب امریکہ کے پاگل صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تحریر کیا ہے جو ہر حال میں اپنے صیہونی داماد جیراڈ کشنر کو خوش کرنا چاہتا ہے، ٹرمپ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ امریکہ کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کی صورت میں مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس سے بےپروا ہو کر اس نے مسلمانوں کے خون میں لت پت یہ تحفہ اپنے داماد کو دے ہی دیا، غرض ہے مسجد اقصٰی کو شہید کر کے ھیکل سلیمانی تعمیر کرنا.
اس وقت سارے اسرائیل میں جشن کا ماحول ہے اور یقینی طور پر امریکی حلیف بھی جشن منا رہے ہوں گے جبکہ سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام مسلم نوجوانوں کے خون سے آلودہ ہے اور زخمیوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا سے لبریز ہے.
اس وقت ٹرمپ کو مبارکبادیاں مل رہی ہوں گی کہ یروشلم میں امریکہ کا سفارت خانہ منتقل ہو گیا اور مسلمان کچھ نہ کر پائے اور جنہوں نے احتجاج کیا ان کی آواز کو اسرائیلی فائرنگ کے شور میں دبا دیا گیا لیکن کیا واقعی ان مسلم جانبازوں کی آوازیں اسلحوں کی کھنک میں دب جائیں گی؟ بھلے ہی مسلم حکمرانوں کو امریکہ نے خرید لیا ہو لیکن عوام کے دلوں پر تو قرآن اور حدیث کی حکمرانی ہے، کیا وہ بھی خاموش رہیں گے؟
کیا مسجد اقصٰی کو اسرائیلی حکومت ہیکل جبل میں تبدیل کر لے گی اور ساری دنیا کے مسلمان خاموشی سے مسجد اقصٰی کو یہودی معبد میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں گے؟
کیا اسرائیلی دہشت گرد حکومت کا یہ کہنا درست ہے کہ مسجد اقصٰی کا دنیا بھر کے مسلمانوں سے کچھ لینا دینا نہیں؟
کیا نیتن یاہو کا یہ خیال صحیح ہے کہ مسجد اقصٰی کے معاملے میں مسلمانوں کو ایران بھڑکا رہا ہے ورنہ دنیا بھر کے مسلمان ہمارے ساتھ پر امن طریقے سے رہنا چاہتے ہیں؟
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیلی دہشت گرد حکمراں اپنی طاقت کے گھمنڈ اور اسلحوں کے غرور میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ انہیں سچائی نظر نہیں آ رہی ہے.
لیکن پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جارہی ہے کہ جس دن اسرائیلی دہشت گردوں نے مسجد اقصٰی کو گرانے کی کوشش کی وہ دن ان کے ظالم و جابر لشکر فیل کا آخری دن ہو گا انشاءاللہ
ــــــــــــــــــــــــــ
ان دنوں فلسطین کی زمین مسلم نوجوانوں اور بچوں کے خون سے لہو لہان ہے، کم و بیش دو ہزار سات سو مسلمانوں کے سینوں میں صہیونیوں کی گولیاں اتر چکی ہیں، کتنے ہی بچے اور بچیاں دم توڑ چکے ہیں اور کتنے ہی اسپتالوں میں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں.
عجیب بات ہے کہ فلسطین میں مسلمانوں اور دہشت گرد یہودیوں کے درمیان جو معرکہ آرائی جاری ہے اس میں بندوقوں کا مقابلہ سینوں سے ہو رہا ہے کیونکہ جتنے بھی مارے جا رہے ہیں سب کے سب نہتے، جتنے بھی زخمی ہو رہے ہیں ان کے پاس ترکاری کاٹنے والے چاقو بھی نہیں ہیں مگر پھر بھی یہ معرکہ جاری ہے، نہتے اور جوشیلے مسلم نوجوان اپنے سینوں کے پاکیزہ خون سے صہیونیوں کے نجس خنجروں کی دھار کو کند کر رہے ہیں مگر ساری دنیا خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے بالخصوص مسلم ممالک ایسا لگتا ہے کہ آقا کو خوش کرنے میں مصروف ہیں.
آج کوئی بھی اسرائیل کی دہشت گردی کو دہشت گردی نہیں کہہ رہا ہے، کوئی نیتن یاہو کو اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد کہنے کی جرات و ہمت نہیں کر پارہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل اور امریکہ سے بڑا دہشت گرد اس دنیا میں کوئی نہیں ہے دوسروں کو کیا کہا جائے خود فلسطین کی حکومت اپنے جوشیلے نوجوانوں کا ساتھ نہیں دے پا رہی ہے ورنہ کیا مجال ہے کہ اتنی دور سے آکر انبیاء کی سرزمین پر کوئی دادا گری کرسکے.
حالانکہ جو نوجوان محو کار زار ہیں ان کو حکومت نہیں چاہئیے، دولت نہیں درکار، ان کا تو صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو صہیونیوں سے بچا سکیں.
افسوس کہ چودہ مئی کو اسرائیل کے قیام کی 70 /ویں سالگرہ کا جشن اسرائیلی افواج نے 70 /مسلم نوجوانوں کا خون بہا کر منایا اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے غزہ کے ارد گرد محاصرہ اتنا سخت کردیا کہ زخمیوں کے لئے دوائیں بھی نہیں پہنچ پارہی ہیں
سختیوں میں اضافہ کر کے اسرائیل کی ظالم و جابر دہشت گرد حکومت شاید یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو شکست دے کر ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ جما لے گی تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے اسرائیلی دہشت گرد حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس قوم سے وہ ٹکر لے رہی ہے وہ بہادر اور نڈر قوم ہے اس کو موت کا ڈر دکھا کر جھکا پانا ممکن نہیں ہے.
قابل ذکر امر یہ ہے کہ صیہونیت اور یہودیت کی اس خونی کتاب کا موجودہ باب امریکہ کے پاگل صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تحریر کیا ہے جو ہر حال میں اپنے صیہونی داماد جیراڈ کشنر کو خوش کرنا چاہتا ہے، ٹرمپ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ امریکہ کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کی صورت میں مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس سے بےپروا ہو کر اس نے مسلمانوں کے خون میں لت پت یہ تحفہ اپنے داماد کو دے ہی دیا، غرض ہے مسجد اقصٰی کو شہید کر کے ھیکل سلیمانی تعمیر کرنا.
اس وقت سارے اسرائیل میں جشن کا ماحول ہے اور یقینی طور پر امریکی حلیف بھی جشن منا رہے ہوں گے جبکہ سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام مسلم نوجوانوں کے خون سے آلودہ ہے اور زخمیوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا سے لبریز ہے.
اس وقت ٹرمپ کو مبارکبادیاں مل رہی ہوں گی کہ یروشلم میں امریکہ کا سفارت خانہ منتقل ہو گیا اور مسلمان کچھ نہ کر پائے اور جنہوں نے احتجاج کیا ان کی آواز کو اسرائیلی فائرنگ کے شور میں دبا دیا گیا لیکن کیا واقعی ان مسلم جانبازوں کی آوازیں اسلحوں کی کھنک میں دب جائیں گی؟ بھلے ہی مسلم حکمرانوں کو امریکہ نے خرید لیا ہو لیکن عوام کے دلوں پر تو قرآن اور حدیث کی حکمرانی ہے، کیا وہ بھی خاموش رہیں گے؟
کیا مسجد اقصٰی کو اسرائیلی حکومت ہیکل جبل میں تبدیل کر لے گی اور ساری دنیا کے مسلمان خاموشی سے مسجد اقصٰی کو یہودی معبد میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں گے؟
کیا اسرائیلی دہشت گرد حکومت کا یہ کہنا درست ہے کہ مسجد اقصٰی کا دنیا بھر کے مسلمانوں سے کچھ لینا دینا نہیں؟
کیا نیتن یاہو کا یہ خیال صحیح ہے کہ مسجد اقصٰی کے معاملے میں مسلمانوں کو ایران بھڑکا رہا ہے ورنہ دنیا بھر کے مسلمان ہمارے ساتھ پر امن طریقے سے رہنا چاہتے ہیں؟
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیلی دہشت گرد حکمراں اپنی طاقت کے گھمنڈ اور اسلحوں کے غرور میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ انہیں سچائی نظر نہیں آ رہی ہے.
لیکن پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جارہی ہے کہ جس دن اسرائیلی دہشت گردوں نے مسجد اقصٰی کو گرانے کی کوشش کی وہ دن ان کے ظالم و جابر لشکر فیل کا آخری دن ہو گا انشاءاللہ