تحریر: محمد انور داؤدی ایڈیٹر"روشنی" اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــ
جمعة الوداع یعنی ماہ رمضان کا آخری جمعہ ہمارے یہاں دیہاتی زبان میں اسے "البِدائی جُمَّه" بولتے ہیں، اس جمعے کو خاص طور سے عورتیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، گھرکی صفائی، نفیس کھانے کا اہتمام، بچوں کو نہلا کر نئے کپڑے پہنانا، بعض عورتیں تو دن رات ایک کرکے اس جمعہ کے لئے خاص طور سے نیا کپڑا سلتی ہیں کہ بچہ پہنے گا.
واضح ہوکہ الوداعی جمعہ بحیثیت الوداعی جمعہ کوئی تہوار نہیں ہے،
یہ محض ایک رسم ہے، نہ اس دن کوئی مخصوص عبادت ہے اور نہ ہی شریعت نے اسکے لئے کسی اھتمام کا حکم دیا ہے، بس یہ ایک جمعہ ہے جس طرح اور جمعہ ہوتا ہے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اگر سوچنے کا زاویہ بدل جائے اور یہ تصور پیدا ہوجائےکہ ماہ رمضان جو رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے جسے سیدالشھور کا لقب ملا ہے، اور یوم جمعہ جسکی فضیلت بھی مسلم ہے جسے سیدالایام کا خطاب ملا ہے، یہ دو فضیلتیں ایک ساتھ جمع ہورہی ہیں، اور یہ کہ اب یہ دونوں فضیلتیں آئندہ سال اسی کونصیب ہوں گی جسکی عمر وفا کرے گی، ماہ مبارک اور پھر یوم جمعہ اب رخصت ہونے والا ہے، عبادت میں مزید تیزی آجائے، تلاوت بڑھ جائے، صدقہ وخیرات میں دست کشادہ ہوجائے، تو یہ سوچ اور اس دن ایسا عمل مقبول بلکہ محمود ہے.
بہرحال جمعة الوداع کے حوالے سے لوگوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی ہم سب کوصحیح سمجھ عطا فرمائے. آمین
میں اس میں تھوڑا سا اضافہ اس طور پر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ الوداعی جمعہ کی تقریب کا فیشن جو چل پڑا ہے جس کے لئے بالخصوص عورتیں الگ کپڑا بنواتی ہیں اور عید کے لئے الگ اسی طرح بچوں کو سجا سنوار کے ان کے اندر اس کی اہمیت ڈالی جاتی ہے، مرد حضرات اس دن خاص طور سے افطار کرانے کا پروگرام رکھتے ہیں اور ہمارے گھر کے ذمہ دار خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ہر جائز ناجائز خوشی پوری کرنے میں اپنا اہم کارنامہ سمجھتے ہیں، جبکہ یہ جانے انجانے میں بدعت کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہے کیونکہ الوداعی جمعہ کی تقریب وتکریم کہیں سے ثابت نہیں ہے اور جو چیز رسول اللہ صلعم اور صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی دخول جہنم کا سبب ہے، اس لئے ہمیں ایسی چیزوں سے بچنا ازحد ضروری ہے.
ــــــــــــــــــــــــــــــ
جمعة الوداع یعنی ماہ رمضان کا آخری جمعہ ہمارے یہاں دیہاتی زبان میں اسے "البِدائی جُمَّه" بولتے ہیں، اس جمعے کو خاص طور سے عورتیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، گھرکی صفائی، نفیس کھانے کا اہتمام، بچوں کو نہلا کر نئے کپڑے پہنانا، بعض عورتیں تو دن رات ایک کرکے اس جمعہ کے لئے خاص طور سے نیا کپڑا سلتی ہیں کہ بچہ پہنے گا.
واضح ہوکہ الوداعی جمعہ بحیثیت الوداعی جمعہ کوئی تہوار نہیں ہے،
یہ محض ایک رسم ہے، نہ اس دن کوئی مخصوص عبادت ہے اور نہ ہی شریعت نے اسکے لئے کسی اھتمام کا حکم دیا ہے، بس یہ ایک جمعہ ہے جس طرح اور جمعہ ہوتا ہے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اگر سوچنے کا زاویہ بدل جائے اور یہ تصور پیدا ہوجائےکہ ماہ رمضان جو رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے جسے سیدالشھور کا لقب ملا ہے، اور یوم جمعہ جسکی فضیلت بھی مسلم ہے جسے سیدالایام کا خطاب ملا ہے، یہ دو فضیلتیں ایک ساتھ جمع ہورہی ہیں، اور یہ کہ اب یہ دونوں فضیلتیں آئندہ سال اسی کونصیب ہوں گی جسکی عمر وفا کرے گی، ماہ مبارک اور پھر یوم جمعہ اب رخصت ہونے والا ہے، عبادت میں مزید تیزی آجائے، تلاوت بڑھ جائے، صدقہ وخیرات میں دست کشادہ ہوجائے، تو یہ سوچ اور اس دن ایسا عمل مقبول بلکہ محمود ہے.
بہرحال جمعة الوداع کے حوالے سے لوگوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی ہم سب کوصحیح سمجھ عطا فرمائے. آمین
میں اس میں تھوڑا سا اضافہ اس طور پر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ الوداعی جمعہ کی تقریب کا فیشن جو چل پڑا ہے جس کے لئے بالخصوص عورتیں الگ کپڑا بنواتی ہیں اور عید کے لئے الگ اسی طرح بچوں کو سجا سنوار کے ان کے اندر اس کی اہمیت ڈالی جاتی ہے، مرد حضرات اس دن خاص طور سے افطار کرانے کا پروگرام رکھتے ہیں اور ہمارے گھر کے ذمہ دار خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ہر جائز ناجائز خوشی پوری کرنے میں اپنا اہم کارنامہ سمجھتے ہیں، جبکہ یہ جانے انجانے میں بدعت کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہے کیونکہ الوداعی جمعہ کی تقریب وتکریم کہیں سے ثابت نہیں ہے اور جو چیز رسول اللہ صلعم اور صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی دخول جہنم کا سبب ہے، اس لئے ہمیں ایسی چیزوں سے بچنا ازحد ضروری ہے.