محمد ساجد شاہین مبارکپور اعظم گڑھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی کل شام یہ اندوہناک خبر آئی کہ پلوامہ جموں کشمیر میں ایک دہشت گرد نے خودکش دھماکہ کرکے ہندوستانی فوج کے 50 کے قریب جوانوں کو شہید کر دیا اور سینکڑوں کو گھائل کر دیا، جب سے یہ خبر سنی ہے دل رو رہا ہے اور ان کی ماؤں بیویوں اور بچوں کی چیخیں کانوں میں گونج رہی ہیں بس یہی دعا ہے کہ خدا ان کے گھر والوں کو اس مشکل وقت میں صبر عطا فرمائے.
اس حملے کے لئے ایک طرف جہاں حفاظتی چوک ذمہ دار ہے اس سے کہیں زیادہ ذمہ دار ہماری ملک کی سیاست ہے اور خاص طور سے کشمیر سے متعلق سیاست جس نے کشمیر کے ہی ایک نوجوان کو بیرونی دہشت گردوں کے ہاتھ کا کھلونا بنا دیا، جب سے ہندوستان آزاد ہوا ہے پورے ملک میں امن تو ہو گیا لیکن کشمیر میں وہ امن نہیں پہنچ سکا یا جان بوجھ کر امن قائم نہیں کیا گیا تا کہ سیاست چلتی رہے.
آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ کسی کی بیٹی کا ریپ کر دیا گیا کسی کو پلیٹ گن سے اندھا کر دیا گیا کسی کو بیچ سڑک پر قتل کر دیا گیا اور یہ سب پچھلے کچھ دنوں سے اور زیادہ ہو گیا ہے جب سے مودی حکومت آئی ہے.
آخر کیا ایسا صرف اس لئے نہیں ہو رہا کیونکہ کشمیر واحد مسلم اکثریتی صوبہ ہے، مودی حکومت کی کارگردگی تو صاف صاف یہی اشارہ کررہی ہے، آخر جب ایک معصوم آصفہ کے قاتل درندوں کو بچانے کے لئے پوری بی جے پی سامنے آ جاتی ہے تو بلا شبہ یہ شک اور گہرا جاتا ہے، آج ہم فوجیوں کی شہادت پر ماتم منا رہے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا کہ آصفہ کے گھر والوں اور پلیٹ گن سے گھائل ہونے والوں اور سر عام دوشیزائوں کی عزت کو خاک ہونے پر کبھی ہم نے ماتم کیا کبھی ہم نے ان کے درد کو محسوس کیا کبھی ان کی پریشانیوں کو اپنائیت کے ساتھ سنا بالکل نہیں بلکہ ہم نے ان سب کے خلاف ان کے احتجاج کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کہ جس کے نتیجے میں کوئی مطفر وانی بنتا ہے کوئی عادل ڈار.
ملک کی سیاست الفا اور کھالستان جیسی دہشت گرد سے امن مذاکرات کر سکتی ہے لیکن کشمیر یوں کے ساتھ نہیں کیا یہ سیاست کا دوگلاپن نہیں ہے.
میں سعودی عرب میں ہوں اور میرا ایک دوست جو کشمیر کا رہنے والا ہے اس نے مجھے ایک واقعہ بتایا کہ ایک لڑکی کی شادی ہونے والی تھی لیکن شادی کے 4-5 دن پہلے اس کو گھر سے اغوا کر کے فوجیوں نے دو دن تک مکمل ریپ کیا اور اس کے بعد جان کی دھمکی دے کر گھر واپس بھیج دیا.
ایسے معاملات میں خاطی فوجیوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی جس سے وہاں کے لوگوں میں فوج کے تئیں غصہ بھر جا تاہے اور کوئی انھیں مین سے قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے اور چند فوجیوں کی غلطی کا نتیجہ پوری فوج کو بھگتنا پڑتا ہے.
ابھی چند دن پہلے شاہ فیصل جو کہ آئی اے ایس کا ٹاپر رہ چکا ہے اس نے صرف اس لئے سرکاری نوکری چھوڑ دی کیونکہ وہ کشمیر کو لے کر حکومت کے دوہرے رویے سے تنگ آ چکا تھا اور نا امید ہو گیا تھا
اب آپ بتائیے جب اتنا پڑھا لکھا نوجوان ہار مان لیگا تو آپ عام کشمیریوں کے حالات سمجھ سکتے ہیں.
ابھی بھی وقت ہے اس جنت نما وادی کو پھر سے سرسبز شاداب کرنے کے لئیے لیکن اس کے لئے سب سے پہلے ہماری حکومت کو کشمیریون سے بات کرنی پڑیگی ااور ان کے مسائل کو اپنائیت اور خلوص سے سلجھانا ہوگا اور ان کے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا کرنا ہوگا تاکہ وہ غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونہ نہ بنیں ۔
اگر ہم نے ایسا نہ کیا اور کشمیر کو لے کر دوہری پالیسی جاری رکھی تو آگے بھی مظفر وانی عادل ڈار جیسے جوان پیدا ہوتے رہینگے اور ان کا انجام ہم فوجیوں کی شہادت کے روپ میں بھگتتے رہیں گے.
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی کل شام یہ اندوہناک خبر آئی کہ پلوامہ جموں کشمیر میں ایک دہشت گرد نے خودکش دھماکہ کرکے ہندوستانی فوج کے 50 کے قریب جوانوں کو شہید کر دیا اور سینکڑوں کو گھائل کر دیا، جب سے یہ خبر سنی ہے دل رو رہا ہے اور ان کی ماؤں بیویوں اور بچوں کی چیخیں کانوں میں گونج رہی ہیں بس یہی دعا ہے کہ خدا ان کے گھر والوں کو اس مشکل وقت میں صبر عطا فرمائے.
اس حملے کے لئے ایک طرف جہاں حفاظتی چوک ذمہ دار ہے اس سے کہیں زیادہ ذمہ دار ہماری ملک کی سیاست ہے اور خاص طور سے کشمیر سے متعلق سیاست جس نے کشمیر کے ہی ایک نوجوان کو بیرونی دہشت گردوں کے ہاتھ کا کھلونا بنا دیا، جب سے ہندوستان آزاد ہوا ہے پورے ملک میں امن تو ہو گیا لیکن کشمیر میں وہ امن نہیں پہنچ سکا یا جان بوجھ کر امن قائم نہیں کیا گیا تا کہ سیاست چلتی رہے.
آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ کسی کی بیٹی کا ریپ کر دیا گیا کسی کو پلیٹ گن سے اندھا کر دیا گیا کسی کو بیچ سڑک پر قتل کر دیا گیا اور یہ سب پچھلے کچھ دنوں سے اور زیادہ ہو گیا ہے جب سے مودی حکومت آئی ہے.
آخر کیا ایسا صرف اس لئے نہیں ہو رہا کیونکہ کشمیر واحد مسلم اکثریتی صوبہ ہے، مودی حکومت کی کارگردگی تو صاف صاف یہی اشارہ کررہی ہے، آخر جب ایک معصوم آصفہ کے قاتل درندوں کو بچانے کے لئے پوری بی جے پی سامنے آ جاتی ہے تو بلا شبہ یہ شک اور گہرا جاتا ہے، آج ہم فوجیوں کی شہادت پر ماتم منا رہے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا کہ آصفہ کے گھر والوں اور پلیٹ گن سے گھائل ہونے والوں اور سر عام دوشیزائوں کی عزت کو خاک ہونے پر کبھی ہم نے ماتم کیا کبھی ہم نے ان کے درد کو محسوس کیا کبھی ان کی پریشانیوں کو اپنائیت کے ساتھ سنا بالکل نہیں بلکہ ہم نے ان سب کے خلاف ان کے احتجاج کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کہ جس کے نتیجے میں کوئی مطفر وانی بنتا ہے کوئی عادل ڈار.
ملک کی سیاست الفا اور کھالستان جیسی دہشت گرد سے امن مذاکرات کر سکتی ہے لیکن کشمیر یوں کے ساتھ نہیں کیا یہ سیاست کا دوگلاپن نہیں ہے.
میں سعودی عرب میں ہوں اور میرا ایک دوست جو کشمیر کا رہنے والا ہے اس نے مجھے ایک واقعہ بتایا کہ ایک لڑکی کی شادی ہونے والی تھی لیکن شادی کے 4-5 دن پہلے اس کو گھر سے اغوا کر کے فوجیوں نے دو دن تک مکمل ریپ کیا اور اس کے بعد جان کی دھمکی دے کر گھر واپس بھیج دیا.
ایسے معاملات میں خاطی فوجیوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی جس سے وہاں کے لوگوں میں فوج کے تئیں غصہ بھر جا تاہے اور کوئی انھیں مین سے قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے اور چند فوجیوں کی غلطی کا نتیجہ پوری فوج کو بھگتنا پڑتا ہے.
ابھی چند دن پہلے شاہ فیصل جو کہ آئی اے ایس کا ٹاپر رہ چکا ہے اس نے صرف اس لئے سرکاری نوکری چھوڑ دی کیونکہ وہ کشمیر کو لے کر حکومت کے دوہرے رویے سے تنگ آ چکا تھا اور نا امید ہو گیا تھا
اب آپ بتائیے جب اتنا پڑھا لکھا نوجوان ہار مان لیگا تو آپ عام کشمیریوں کے حالات سمجھ سکتے ہیں.
ابھی بھی وقت ہے اس جنت نما وادی کو پھر سے سرسبز شاداب کرنے کے لئیے لیکن اس کے لئے سب سے پہلے ہماری حکومت کو کشمیریون سے بات کرنی پڑیگی ااور ان کے مسائل کو اپنائیت اور خلوص سے سلجھانا ہوگا اور ان کے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا کرنا ہوگا تاکہ وہ غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونہ نہ بنیں ۔
اگر ہم نے ایسا نہ کیا اور کشمیر کو لے کر دوہری پالیسی جاری رکھی تو آگے بھی مظفر وانی عادل ڈار جیسے جوان پیدا ہوتے رہینگے اور ان کا انجام ہم فوجیوں کی شہادت کے روپ میں بھگتتے رہیں گے.