اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: لوک سبھا الیکشن ہندوستان کی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 6 April 2019

لوک سبھا الیکشن ہندوستان کی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہے!

تحریر: ضیاءالحق تیمی بہار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حالیہ لوک سبھا الیکشن ہندستان کی تاریخ میں اس لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، چونکہ اس بار مقابلہ ہندستان میں جمہوریت کی بقاء اور اس کے خاتمہ کے درمیان ہے، موجودہ صورتحال کے اعتبار  سے  2022 تک راجیہ سبھا  میں بی جے پی کی سیٹیں دوتہائی سے بالکل قریب ہونگی جو کہ اس ایوان سے کسی بھی قانون کو پاس کرنے کے لئے مطلوب ہیں، اور اگر لوک سبھا میں بھی اس کو اکثریت مل جاتی ہے تو پھر  2022 میں اس ملک کی جمہوریت اور آئین  کا گلا ہمیشہ کے لئے گھونٹ دیا جائیگا اور اس کو ایک ہندو راشٹریہ کے طور پر قبول کر لیا جائیگا، جو کہ آر ایس ایس کا اہم ایجنڈا ہے اور جس کے لئے وہ ابتدا  سے کوشاں ہیں، اور جس کی طرف امت شاہ کئی بار اپنی تقریروں میں اشارہ  کر چکے ہیں۔
   اور - لا قدًر اللہ- ایسا ہوتا ہے تو مسلمان دوئم درجہ کا شہری قرار پائیں گے اور ان سے  ووٹ دینے کا حق سلب کر  لیا جائیگا، پھر  فیسبوک اور شوشل میڈیا پر ہمارے بعض دانشوروں کی طرف سے مسلم قیادت کا شور، کانگریس  کی غلامی کے طعنے بھی ہمیشہ کے لئے غائب ہو جائیں گے، اور اس وقت صرف ہندوں کی غلامی اور آرایس ایس  کے غنڈوں کے قتل وغارت گری کے چرچے ہونگے، سڑکوں پر نام نہاد  گاؤ رکچھک مزید بے لگام ہوکر معصوموں کا خون بہائیں گے، اور داڑھی اور ٹوپی والے کو "پاکستانی ملا" کہہ کر تشدد و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا رہیگا، اس کے بعد دھیرے دھیرے اذان پر پابندی لگے گی، تقریروں اور جلسوں پر روک لگا دی جائیگی، مساجد اور مدراس پر تالے لگانے کی کوششیں ہوں گی اور ہندوستان سے اسلامی شناخت اور دینی تشخص کو مٹانے کی ہر جتن تدابیر کئے جائیں گے ۔
     اس لئے اس الیکشن میں مسلمانوں کو اپنی عقل کا بھر پور استعمال کرنا چاہئے اور  متحد ہو کر اس ملک کی سیکولر اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں میں سے جس جماعت کا جس حلقہ میں پلڑا بھاری ہو اس کو  ووٹ کرنا چاہئے،  یہ وقت نہ ہی سیکولر جماعتوں سے ماضی کا حساب لینے کا ہے اور نہ ہی مسلم قیادت کے جذباتی نعروں اور خوشنما خواب کے چکر میں  ملک کی فضا کو ہندو مسلم  بنانے کا ہے۔ویسے بھی دو چند سیٹوں کے علاوہ جب ہمیں ہر حال میں انہیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامنا ہے اور ان  ہی کے کندہوں پر سے ہمیں جمہوریت کی بقا کی لڑائی لڑنی ہے اور فسطائی طاقتوں کے ناپاک منصوبے کو روکنا ہے تو فیسبوک اور شوشل میڈیا کے ذریعہ ان کے خلاف منفی رجحانات اور معاندانہ جذبات کو  ہوا دے کر مسلمانوں کے ووٹ کو منتشر کرنا  اور ان کے اندر اضطراب کی کیفیت پیدا کرنا ہرگز عقلمندی نہیں ہے اور نہ ہی قوم کے حق میں کسی بھی سطح پر مفید ہے۔