از قلم: عبداللہ المھیمن آسام
متعلم۔دارالعلوم وقف دیوبند
ــــــــــــــــــــــــــــــ
اعتکاف رسول اﷲﷺ کی سنت ہے۔ آپﷺ اعتکاف کا خوب اہتمام فرماتے تھے۔ آپﷺ کا یہ معمول تھا کہ ہر رمضان کے عشرۂ اخیرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھےاور اسی سنت عظیمہ کو باقی رکھتے ہوئے امہات المومنین رضی اﷲ عنہن بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے سرتاج ﷺ رمضان مبارک کے عشرہ اخیرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو وفات عطا فرمائی، پھر آپﷺ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔ (بخاری و مسلم)
رسول اﷲﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی و رضامندی کی خاطرایک دن کا اعتکاف کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا، جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر دکھلاوےکی نیت کے ایک دن کا اعتکاف کرےگا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی مدت کی ہوگی۔
رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو شخص خالصتا اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے رمضان المبارک میں ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں جیسے وہ ان نیکیوں کو خود کرتا رہا ہو (مشکوٰۃ شریف)
ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے اس نے دو حج اور دو عمرے کئے۔
سبحان اﷲ احادیث بالا کی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ اعتکاف کی فضیلت اور اس کی اہمیت کا مقام کس قدربلند وبالا ہے اور اﷲ رب العزت کس قدر اعتکاف کرنے والوں پر اپنا فضل فرماتا ہے۔ اس لئے تمام متبعین اسلام کو چاہئے کہ اگر کوئی معقول اور خاص مجبوری نہ ہو تو کم از کم رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ کے اعتکاف کی سعادت ضرور حاصل کریں۔
اگر ہر سال نہ ہوسکے تو کم از کم زندگی میں ایک ہی بار صحیح مگر ضرور کرنا چاہئے۔
اعتکاف کے چند ضروری مسائل
اعتکاف کی تعریف
اعتکاف کی نیت سے اﷲ تعالیٰ کے واسطے مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
1۔ اعتکاف واجب، 2۔ اعتکاف سنت، 3۔ اعتکاف نفل یا مستحب
اعتکاف واجب:
یہ نذر کا اعتکاف ہے، جیسے کسی نے اعتکاف کی نذر مانی تو اب نذر پوری ہونے پر جتنے دن کا کہا ہے، اتنے دن کا اعتکاف کرنا واجب ہوگیا۔ اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف واجب صحیح نہیں ہوگا
اعتکاف سنت:
رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ کا اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی پوری بستی میں سے کسی ایک نے کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوجائےگا، اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی مجرم گنہگار ہوں گے
رمضان کے اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کے اندر بہ نیت اعتکاف داخل ہوجائے جائے اور انتیس (٢٩)کے چاند کے بعد یا تیس کے غروب آفتاب کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔
اگر غروب آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اعتکاف کی سنت موکدہ ادا نہ ہوئی بلکہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہونا ضروری ہے ۔
اعتکاف کی نیت:
رمضان شریف کے اعتکاف کی نیت اس طرح کریں
’’میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ کے سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں‘‘
نوٹ: نیت زبان سے کرنا ضروری نہیں ہے،ارادہ کافی ہے۔
اعتکاف نفل:
اس کے لئے نہ روزہ شرط ہے، نہ کوئی وقت کی قید ہے۔ جب بھی مسجد میں داخل ہوں، اعتکاف کی نیت کرلیں۔ جب تک مسجد میں رہیں گے، مفت ثواب ملتا رہے گا۔ جب مسجد سے باہر نکلیں گے، اعتکاف ختم ہوجائے گا۔ اعتکاف کی نیت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔
مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیئے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لئے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: اعتکاف کے لئے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصیٰ پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لئے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیونکہ ایک لمحہ کے لئے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسجد کی حدود کا تعین
عموماً ہمارے اسلامی بھائی حدود مسجد کا مطلب ہی نہیں سمجھتے اور اس بناء پر ان کا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لئے جب کسی اسلامی بھائی کا کسی مسجد میں اعتکاف کرنا کا ارادہ ہو تو سے سب سے پہلے یہ کام کرنا چاہئے کہ مسجد کے بانی یا متولی سے مسجد کے احاطہ کی ٹھیک ٹھیک حدود معلوم کرلیں اور خوب اچھی طرح حدود مسجد کا مطلب سمجھ لیں۔
دیکھئے! عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے پورا احاطہ مسجد ہوناضروری نہیں بلکہ شرعاً صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے جسے بانی مسجد نے مسجد قرار دے کر وقف کیا ہو۔ استنجا کی جگہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ، امام و موذن اور خادم صاحبان کے حجرے پر شرعاً مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ خارج مسجد ہوتے ہیں۔ وضو خانہ بھی مسجد کا حصہ نہیں ہوتا ، اس لئے معتکف کے لئے ضروری ہے کہ بغیر شرعی ضرورت کے وہاں نہ جائے۔
اسی طرح مسجد میں جوتے اتارنے کی جگہ، مسجد میں داخل ہونے کے زینے، بعض مسجدوں کے صحن میں حوض بنا ہوتا ہے، وہ حوض اور بعض مسجدوں میں نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ بنی ہوتی ہے، وہ جگہ یہ سب کے سب خارج مسجد کہلاتے ہیں۔
مسئلہ: بعض مساجد میں اصل مسجد کے بالکل ساتھ ہی بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کے لئے مدرسہ بنایا جاتا ہے، اس جگہ کو بھی جب تک بانی مسجد نے مسجد قرار نہ دیا ہو، اس وقت تک معتکف کے لئے اس میں جانا جائز نہیں۔
مسئلہ: دوران اعتکاف مسجد کے اندر ضرورتاً دینوی بات کرنے کی اجازت ہے، لیکن حتی الامکان دھیمی آواز کے ساتھ اور احترام مسجد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی بات کرنی چاہئے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام مسلمنان عالم کو رمضان المبارک کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اور اعتکاف کرنے اور اس کے فضائل و برکات سے مال مال فرمائے۔
رمضان المبارک کی برکت سے اللہ تعالی عالم اسلام میں خصوصا اور پوری میں عموما امن و امان کی فضا قائم فرمائے
اللہ تعالی مرحومین امت مسلمہ کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے، اور جو باحیات ہیں ان کو سربلندی و سرخروعی نصیب فرمائے.
آمین ثم آمین
متعلم۔دارالعلوم وقف دیوبند
ــــــــــــــــــــــــــــــ
اعتکاف رسول اﷲﷺ کی سنت ہے۔ آپﷺ اعتکاف کا خوب اہتمام فرماتے تھے۔ آپﷺ کا یہ معمول تھا کہ ہر رمضان کے عشرۂ اخیرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھےاور اسی سنت عظیمہ کو باقی رکھتے ہوئے امہات المومنین رضی اﷲ عنہن بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے سرتاج ﷺ رمضان مبارک کے عشرہ اخیرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو وفات عطا فرمائی، پھر آپﷺ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔ (بخاری و مسلم)
رسول اﷲﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی و رضامندی کی خاطرایک دن کا اعتکاف کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا، جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر دکھلاوےکی نیت کے ایک دن کا اعتکاف کرےگا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی مدت کی ہوگی۔
رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو شخص خالصتا اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے رمضان المبارک میں ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں جیسے وہ ان نیکیوں کو خود کرتا رہا ہو (مشکوٰۃ شریف)
ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے اس نے دو حج اور دو عمرے کئے۔
سبحان اﷲ احادیث بالا کی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ اعتکاف کی فضیلت اور اس کی اہمیت کا مقام کس قدربلند وبالا ہے اور اﷲ رب العزت کس قدر اعتکاف کرنے والوں پر اپنا فضل فرماتا ہے۔ اس لئے تمام متبعین اسلام کو چاہئے کہ اگر کوئی معقول اور خاص مجبوری نہ ہو تو کم از کم رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ کے اعتکاف کی سعادت ضرور حاصل کریں۔
اگر ہر سال نہ ہوسکے تو کم از کم زندگی میں ایک ہی بار صحیح مگر ضرور کرنا چاہئے۔
اعتکاف کے چند ضروری مسائل
اعتکاف کی تعریف
اعتکاف کی نیت سے اﷲ تعالیٰ کے واسطے مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
1۔ اعتکاف واجب، 2۔ اعتکاف سنت، 3۔ اعتکاف نفل یا مستحب
اعتکاف واجب:
یہ نذر کا اعتکاف ہے، جیسے کسی نے اعتکاف کی نذر مانی تو اب نذر پوری ہونے پر جتنے دن کا کہا ہے، اتنے دن کا اعتکاف کرنا واجب ہوگیا۔ اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف واجب صحیح نہیں ہوگا
اعتکاف سنت:
رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ کا اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی پوری بستی میں سے کسی ایک نے کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوجائےگا، اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی مجرم گنہگار ہوں گے
رمضان کے اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کے اندر بہ نیت اعتکاف داخل ہوجائے جائے اور انتیس (٢٩)کے چاند کے بعد یا تیس کے غروب آفتاب کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔
اگر غروب آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اعتکاف کی سنت موکدہ ادا نہ ہوئی بلکہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہونا ضروری ہے ۔
اعتکاف کی نیت:
رمضان شریف کے اعتکاف کی نیت اس طرح کریں
’’میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ کے سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں‘‘
نوٹ: نیت زبان سے کرنا ضروری نہیں ہے،ارادہ کافی ہے۔
اعتکاف نفل:
اس کے لئے نہ روزہ شرط ہے، نہ کوئی وقت کی قید ہے۔ جب بھی مسجد میں داخل ہوں، اعتکاف کی نیت کرلیں۔ جب تک مسجد میں رہیں گے، مفت ثواب ملتا رہے گا۔ جب مسجد سے باہر نکلیں گے، اعتکاف ختم ہوجائے گا۔ اعتکاف کی نیت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔
مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیئے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لئے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: اعتکاف کے لئے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصیٰ پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لئے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیونکہ ایک لمحہ کے لئے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسجد کی حدود کا تعین
عموماً ہمارے اسلامی بھائی حدود مسجد کا مطلب ہی نہیں سمجھتے اور اس بناء پر ان کا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لئے جب کسی اسلامی بھائی کا کسی مسجد میں اعتکاف کرنا کا ارادہ ہو تو سے سب سے پہلے یہ کام کرنا چاہئے کہ مسجد کے بانی یا متولی سے مسجد کے احاطہ کی ٹھیک ٹھیک حدود معلوم کرلیں اور خوب اچھی طرح حدود مسجد کا مطلب سمجھ لیں۔
دیکھئے! عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے پورا احاطہ مسجد ہوناضروری نہیں بلکہ شرعاً صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے جسے بانی مسجد نے مسجد قرار دے کر وقف کیا ہو۔ استنجا کی جگہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ، امام و موذن اور خادم صاحبان کے حجرے پر شرعاً مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ خارج مسجد ہوتے ہیں۔ وضو خانہ بھی مسجد کا حصہ نہیں ہوتا ، اس لئے معتکف کے لئے ضروری ہے کہ بغیر شرعی ضرورت کے وہاں نہ جائے۔
اسی طرح مسجد میں جوتے اتارنے کی جگہ، مسجد میں داخل ہونے کے زینے، بعض مسجدوں کے صحن میں حوض بنا ہوتا ہے، وہ حوض اور بعض مسجدوں میں نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ بنی ہوتی ہے، وہ جگہ یہ سب کے سب خارج مسجد کہلاتے ہیں۔
مسئلہ: بعض مساجد میں اصل مسجد کے بالکل ساتھ ہی بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کے لئے مدرسہ بنایا جاتا ہے، اس جگہ کو بھی جب تک بانی مسجد نے مسجد قرار نہ دیا ہو، اس وقت تک معتکف کے لئے اس میں جانا جائز نہیں۔
مسئلہ: دوران اعتکاف مسجد کے اندر ضرورتاً دینوی بات کرنے کی اجازت ہے، لیکن حتی الامکان دھیمی آواز کے ساتھ اور احترام مسجد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی بات کرنی چاہئے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام مسلمنان عالم کو رمضان المبارک کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اور اعتکاف کرنے اور اس کے فضائل و برکات سے مال مال فرمائے۔
رمضان المبارک کی برکت سے اللہ تعالی عالم اسلام میں خصوصا اور پوری میں عموما امن و امان کی فضا قائم فرمائے
اللہ تعالی مرحومین امت مسلمہ کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے، اور جو باحیات ہیں ان کو سربلندی و سرخروعی نصیب فرمائے.
آمین ثم آمین