خواتین کےلئے حج مقبول جہاد سے بھی افضل،حاجیو سے دعاء کی درخواست کرنا مسنون: مولاناسرفرازاحمد قاسمی
حیدرآباد(آئی این اے نیوز 18/جولائی 2019) فریضہ حج اسلام کے چاربنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن اورمقدس عبادت ہے،یہ ہرصاحب استطاعت اورصاحب نصاب پر پوری زندگی میں صرف ایک بارفرض ہے، جولوگ فرض ہونے کےباوجود اسکی ادائیگی میں کسی طرح کی لاپرواہی اورسستی کامظاہرہ کرتے ہیں ایسے لوگوں کےلئے بہت ساری وعیدیں نازل ہوئی ہیں، اوراسکااہتمام کرنے والوں کے لئے بے شمار اجرو ثواب کاوعدہ کیاگیاہے،
ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا"جو شخص مکہ مکرمہ سے عرفات تک پیدل چل کر حج کریگا اسکو ہرقدم پر سات سو نیکیاں ملتی ہیں اورجو مکہ مکرمہ سے عرفات تک سواری پرچل کر حج کرےگا اسکو سواری کے ہرہر قدم پر ستر ستر نیکیاں ملتی ہے، اورامام بیہقی نے اپنی کتاب شعب الایمان میں صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا"جوآدمی مکہ مکرمہ سے عرفات تک پیدل حج کرےگا اسکو ہرقدم پر 700 نیکیاں ملتی ہیں اور حرم مقدس کے ہرنیکی کے بدلے میں ایک لاکھ نیکیاں ملتی ہیں"ایک لاکھ کو اگرسات سو میں ضرب دیاجائے توسات کروڑ ہوجاتے ہیں گویا ہرقدم پرعازمین حج کوسات کروڑ نیکیاں ملیں گی،یہ حق تعالیٰ کے بے شمارانعامات واحسانات ہیں کہ ایک عبادت کے بدلے لاکھوں کروڑوں عبادتوں کی نیکیاں عطافرماتے ہیں،ان خیالات کااظہار،ممتاز اورمعروف عالم دین مولاناحافظ سرفراز احمد قاسمی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک نے یہاں اپنے ایک بیان میں کیا،انھوں نے کہا کہ حج ایک عظیم اورعاشقانہ عبادت ہے اوریہ عبادت ایسی جگہ ادا کی جاتی ہے جو اللہ تعالی کی توجہات اوراسکے انوارو تجلیات کامرکز ہے، حج وعمرہ کی ادائیگی سے انسان گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتاہے،اسی طرح حدیث میں ہے کہ عازمین حج وعمرہ کی دعاء ضرور قبول ہوتی ہے،لیکن ایک بات یادرکھنے کی ہے کہ سیرو تفریح اورنام ونمود،آب وہوا کی تبدیلی اورحاجی کالقب حاصل کرنے کےلئے ہرگزسفرحج نہ کیاجائے، علماء نے لکھاہے کہ اسطرح اگرچہ فریضہ حج اداہوجائےگا مگر ثواب نہیں مل سکتا،یعنی ثواب سے محروم رہے گا،مولاناقاسمی نے کہاکہ بیت اللہ شریف جس جگہ قائم ہے ٹھیک اسکے اوپرساتویں آسمان پر بیت المعمور قائم ہے،اورپھر بیت المعمور کے بالکل اوپرعرش الہی ہے جہاں سے اللہ تعالی کی توجہات،اوراسکے انواروتجلیات کانزول سب سے پہلے کعبة اللہ پر ہوتاہے،پھر وہاں سے اسکی شعائیں پوری دنیامیں پھیلتی ہیں، اسلئے وہاں کی حاضری سب سے بڑی سعادت مندی کی بات ہے،اس مقدس سرزمین کی حاضری صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جنہوں نے سیدنا حضرت ابراہیمؑ کے اعلان اورآواز پر لبیک کہا اورجس نے جتنی بارلبیک کہا اسکو اتنی ہی بارحاضری کی سعادت حاصل ہوتی رہے گی، بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ"جوآدمی اسطرح حج کرتاہے کہ دوران حج اسنے خودکو لڑائی،جھگڑے،فسق وفجور،بدکلامی وبدمزاجی وغیرہ سے دوررکھاتو وہ حج کرکے گناہوں سے ایساپاک وصاف ہوکرلوٹے گاجیسے کوئی نومولو بچہ ماں کےپیٹ سے پیداہوتاہے"ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگرمیت کی جانب سے حج بدل کیاجائے توایک حج کی وجہ سے تین آدمی جنت کے مستحق ہوجاتے ہیں،ایک وہ میت جسکی طرف سے حج بدل کیاجائے،دوسراحج بدل کرنے والا، اورتیسرا وہ وارث اوررشتہ دار جوحج بدل کاخرچ برداشت کرتاہے،علماء نے یہ بھی لکھاہے کہ حج وعمرہ کےلئے کثرت سے سفر کرناسب سے بڑی سعادت اورخوش نصیبی کی بات ہے،اسی لئے صحابہ کرامؓ اورتابعین عظامؒ اپنی غربت وعسرت اور تمام مصروفیات کے باوجود کثرت سے حج وعمرہ کیاکرتے تھے،امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اپنی زندگی میں 55 حج فرمایا،اسی طرح باربار حج وعمرہ کاسفرکرنے سے تنگ دستی اورفقروفاقہ سے اللہ تعالی حفاظت فرماتےہیں،مولاناقاسمی نے مزید کہاکہ حج وعمرہ کی ادائیگی کےلئے حلال اورپاکیزہ مال فراہم کرنالازم و ضروری ہے، اللہ تعالی پاک مال کی ہی عبادت قبول کرتاہے،حرام اورمشتبہ مال سے حج وعمرہ کرناجائز نہیں،اوراس سے حج وعمرہ قبول بھی نہیں ہوتا،جولوگ مال حرام سے حج کےلئے نکلتے ہیں توایسے لوگوں کے لئے آسمان سے نداآتی ہے کہ تیراتوشہ حرام، تیرانفقہ حرام اورتیراسفرخرچ بھی حرام اسلئے تیراحج اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہوسکتا،ایک حدیث میں ہے کہ"خواتین کےلئے حج مقبول، جہاد جیسے اہم فریضہ سے بھی افضل ہے،اورخواتین کاجہاد یہی ہے کہ وہ حج کرے،مولانانے مزید کہاکہ حج وعمرے سے انسان گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتاہے،اسی لئے حاجیوں سے دعاء کی درخواست کرنامسنون ہے،خودرسول اکرمؐ نے بھی حاجیوں سے دعاء کی فرمائش کی،حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمؐ سے عمرے کےلئے اجازت مانگی توآپؐ نے اجازت دیدی اورساتھ میں یہ بھی فرمایاکہ میرے بھائی اپنی مخصوص دعاؤں میں ہمکوبھی شریک کرنااوراپنی دعاء میں یادرکھنا"(ابوداؤد)حاجیوں کی دعاضرورقبول ہوتی ہے اسلئے حجاج کرام سے ہمکو بھی دعاء کی درخواست کرنی چاہیے،اللہ تعالی ہم سبکو بھی باربارحج کی سعادت نصیب فرمائے۔
حیدرآباد(آئی این اے نیوز 18/جولائی 2019) فریضہ حج اسلام کے چاربنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن اورمقدس عبادت ہے،یہ ہرصاحب استطاعت اورصاحب نصاب پر پوری زندگی میں صرف ایک بارفرض ہے، جولوگ فرض ہونے کےباوجود اسکی ادائیگی میں کسی طرح کی لاپرواہی اورسستی کامظاہرہ کرتے ہیں ایسے لوگوں کےلئے بہت ساری وعیدیں نازل ہوئی ہیں، اوراسکااہتمام کرنے والوں کے لئے بے شمار اجرو ثواب کاوعدہ کیاگیاہے،
ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا"جو شخص مکہ مکرمہ سے عرفات تک پیدل چل کر حج کریگا اسکو ہرقدم پر سات سو نیکیاں ملتی ہیں اورجو مکہ مکرمہ سے عرفات تک سواری پرچل کر حج کرےگا اسکو سواری کے ہرہر قدم پر ستر ستر نیکیاں ملتی ہے، اورامام بیہقی نے اپنی کتاب شعب الایمان میں صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا"جوآدمی مکہ مکرمہ سے عرفات تک پیدل حج کرےگا اسکو ہرقدم پر 700 نیکیاں ملتی ہیں اور حرم مقدس کے ہرنیکی کے بدلے میں ایک لاکھ نیکیاں ملتی ہیں"ایک لاکھ کو اگرسات سو میں ضرب دیاجائے توسات کروڑ ہوجاتے ہیں گویا ہرقدم پرعازمین حج کوسات کروڑ نیکیاں ملیں گی،یہ حق تعالیٰ کے بے شمارانعامات واحسانات ہیں کہ ایک عبادت کے بدلے لاکھوں کروڑوں عبادتوں کی نیکیاں عطافرماتے ہیں،ان خیالات کااظہار،ممتاز اورمعروف عالم دین مولاناحافظ سرفراز احمد قاسمی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک نے یہاں اپنے ایک بیان میں کیا،انھوں نے کہا کہ حج ایک عظیم اورعاشقانہ عبادت ہے اوریہ عبادت ایسی جگہ ادا کی جاتی ہے جو اللہ تعالی کی توجہات اوراسکے انوارو تجلیات کامرکز ہے، حج وعمرہ کی ادائیگی سے انسان گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتاہے،اسی طرح حدیث میں ہے کہ عازمین حج وعمرہ کی دعاء ضرور قبول ہوتی ہے،لیکن ایک بات یادرکھنے کی ہے کہ سیرو تفریح اورنام ونمود،آب وہوا کی تبدیلی اورحاجی کالقب حاصل کرنے کےلئے ہرگزسفرحج نہ کیاجائے، علماء نے لکھاہے کہ اسطرح اگرچہ فریضہ حج اداہوجائےگا مگر ثواب نہیں مل سکتا،یعنی ثواب سے محروم رہے گا،مولاناقاسمی نے کہاکہ بیت اللہ شریف جس جگہ قائم ہے ٹھیک اسکے اوپرساتویں آسمان پر بیت المعمور قائم ہے،اورپھر بیت المعمور کے بالکل اوپرعرش الہی ہے جہاں سے اللہ تعالی کی توجہات،اوراسکے انواروتجلیات کانزول سب سے پہلے کعبة اللہ پر ہوتاہے،پھر وہاں سے اسکی شعائیں پوری دنیامیں پھیلتی ہیں، اسلئے وہاں کی حاضری سب سے بڑی سعادت مندی کی بات ہے،اس مقدس سرزمین کی حاضری صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جنہوں نے سیدنا حضرت ابراہیمؑ کے اعلان اورآواز پر لبیک کہا اورجس نے جتنی بارلبیک کہا اسکو اتنی ہی بارحاضری کی سعادت حاصل ہوتی رہے گی، بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ"جوآدمی اسطرح حج کرتاہے کہ دوران حج اسنے خودکو لڑائی،جھگڑے،فسق وفجور،بدکلامی وبدمزاجی وغیرہ سے دوررکھاتو وہ حج کرکے گناہوں سے ایساپاک وصاف ہوکرلوٹے گاجیسے کوئی نومولو بچہ ماں کےپیٹ سے پیداہوتاہے"ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگرمیت کی جانب سے حج بدل کیاجائے توایک حج کی وجہ سے تین آدمی جنت کے مستحق ہوجاتے ہیں،ایک وہ میت جسکی طرف سے حج بدل کیاجائے،دوسراحج بدل کرنے والا، اورتیسرا وہ وارث اوررشتہ دار جوحج بدل کاخرچ برداشت کرتاہے،علماء نے یہ بھی لکھاہے کہ حج وعمرہ کےلئے کثرت سے سفر کرناسب سے بڑی سعادت اورخوش نصیبی کی بات ہے،اسی لئے صحابہ کرامؓ اورتابعین عظامؒ اپنی غربت وعسرت اور تمام مصروفیات کے باوجود کثرت سے حج وعمرہ کیاکرتے تھے،امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اپنی زندگی میں 55 حج فرمایا،اسی طرح باربار حج وعمرہ کاسفرکرنے سے تنگ دستی اورفقروفاقہ سے اللہ تعالی حفاظت فرماتےہیں،مولاناقاسمی نے مزید کہاکہ حج وعمرہ کی ادائیگی کےلئے حلال اورپاکیزہ مال فراہم کرنالازم و ضروری ہے، اللہ تعالی پاک مال کی ہی عبادت قبول کرتاہے،حرام اورمشتبہ مال سے حج وعمرہ کرناجائز نہیں،اوراس سے حج وعمرہ قبول بھی نہیں ہوتا،جولوگ مال حرام سے حج کےلئے نکلتے ہیں توایسے لوگوں کے لئے آسمان سے نداآتی ہے کہ تیراتوشہ حرام، تیرانفقہ حرام اورتیراسفرخرچ بھی حرام اسلئے تیراحج اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہوسکتا،ایک حدیث میں ہے کہ"خواتین کےلئے حج مقبول، جہاد جیسے اہم فریضہ سے بھی افضل ہے،اورخواتین کاجہاد یہی ہے کہ وہ حج کرے،مولانانے مزید کہاکہ حج وعمرے سے انسان گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتاہے،اسی لئے حاجیوں سے دعاء کی درخواست کرنامسنون ہے،خودرسول اکرمؐ نے بھی حاجیوں سے دعاء کی فرمائش کی،حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمؐ سے عمرے کےلئے اجازت مانگی توآپؐ نے اجازت دیدی اورساتھ میں یہ بھی فرمایاکہ میرے بھائی اپنی مخصوص دعاؤں میں ہمکوبھی شریک کرنااوراپنی دعاء میں یادرکھنا"(ابوداؤد)حاجیوں کی دعاضرورقبول ہوتی ہے اسلئے حجاج کرام سے ہمکو بھی دعاء کی درخواست کرنی چاہیے،اللہ تعالی ہم سبکو بھی باربارحج کی سعادت نصیب فرمائے۔