کشمیر کی صورت حال اورمستقبل کے اندیشے
✍🏻 از :محمد عظیم مقیم حال دیوبند
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی جی نے کشمیر پالیسی کے تین ذرائع بتائے تھے انسانیت ، جمہوریت ، اور کشمیریت ، آج ملک کی سب سے بڑی ایوان نے دفعہ 370جو کشمیر کو خصوصی درجہ دیئے ہوئے تھی ختم کرکے جہاں انسانیت کو شرمشار کیا ہے وہیں جمہوریت کا بھی قتل ہے اور کشمیریت کوتو یہ پہلے سے ہی خون میں لت پت کرکے فنا کے گھاٹ اتار چکے ہیں اس طرح اب یہ دفعہ 370 ختم کرکے شری اٹل بہاری باجپائی کی کشمیر پالیسی کے تینوں ذرائع کو تہس نہس کردیاگیا اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹل بہاری باجپائی بڑے ہی دوراندیش وزیر اعظم تھے وہ ضرور ان پالیسی کو بروئے کار لاکر کشیمر کے مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کی کوشش کرتے
آج اگر کشمیریت کو باقی رکھا جاتا اوربرسوں سے کشمیریت کا خیال رکھاگیا ہوتا تو شاید اس دفعہ کے ختم کرنے کی آج ضرورت ہی پیش نہ آتی کشمیر خود اپنے ہاتھوں سے اپنا پلو ہمارے ساتھ باندھ چکاہوتا
لیکن آج ان تینوں ذرائع انسانیت، جمہوریت، اور کشمیریت کو نظر اندازکرنے والایہ فیصلہ دہشت گردی کو نہ صرف یہ کہ فروغ دے گابلکہ دہشت گرودوں کو مزید مضبوط کرے گا تاریخ
بتاتی ہے کہ گلے لگانے کے بجائے گلے دبانے کے طریقہ کار کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ لیکن صرف جمو کشمیر اور لداخ کا علاقہ نہیں بلکہ ہندوستان کا دعویٰ تو پورے خطہء کشمیر پر تھا چاہے چین کے قبضے والاکشمیر ہو یا پاکستان کے قبضے والاہو پورے خطہ کشمیر پر ہندوستان کا دعویٰ ہے میں کوئی قانون کا طالب علم نہیں یہ تو قانون کےماہرین ہی بتلائیں گے لیکن مجھے لگتاہے کہ اس دفعہ 370 کے خاتمے سے بقیہ حصے پر ہندستان کی دعوے داری کمزورہوجائے گی
یہی نہیں بلکہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے اس لئے یہ ایک طرح سے اقوام متحدہ اور اس کی قراردادوں کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان ہے
یہ قدم شملہ معاہدے سے بھی انحراف ہے جس میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ پر امن حل کرنا طے پایاتھا
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی دفعات کا خاتمہ یاکسی صوبہ کی تقسیم وہاں کی عوام کی مرضی اور ان کی رائے کے بغیر اگر کیاجائے تو یہ جمہوریت کے قتل کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے سب سے بڑے مندر پارلیمنٹ کی توہین بھی ہے
سب جانتے ہیں کہ حق خودارادیت اہل کشمیر کاجمہوری حق ہے اس دفعہ کے خاتمے سے ان کے حق خود ارادیت پر جو ضرب
پڑےگی اہل کشمیر اسے کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے
اب اس دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر اور اہل کشمیر کے سیاسی مستقبل پر اس کے کیااثرات مرتب ہونگے اس تعلق سے کچھ کہنا مشکل ہے
ہوسکتاہے کہ ان کا وقتی جزبہ اورغم آئندہ ملنے والے حقوق سے وآزادی سے سرد پڑجائے
البتہ اتناضرور ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی تہذیب، اپناکلچر ، اپناحق خود ارادیت ،اپنے جمہوری حقوق اور اپنی آزادی کو چِھنتاہوا نہیں دیکھ سکتی
70 سال پہلے جب کشمیر کے پاس دواختیار تھے لیکن اس نے بہت غور فکرکے بعد ہندوستان پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے جمہوری تانے بانے میں سماجانے کا عزم مصمم کرلیا اور اور کچھ مخصوص اختیارات کے ساتھ اس منصوبے کو عملی جامہ بھی پہنایا اس کا نتیجہ یہ ہواکہ ان کا دل جیتنے ، انھیں اپنانے ، ان کو ان کے حقوق دلانے کے بجائے طاقت کے بل بوتے پر ان کا استحصال کیا گیا تو اب ان کو کسی طرح بھی اعتماد میں لینا اور ان کو بھروسہ دلانے سے وہ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا سا محسوس کریں گے
کشمیریوں کو اعتماد میں لئے بغیر ان کے حقوق سلب کرنے والی دفعات کا خاتمہ اور ان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اک طرح سے کشمیریوں کو للکارنا بھی ہے اور ان کی خود مختار حیثیت کا خاتمہ کرکے ان کے حقوق پر ڈاکازنی کے مترادف بھی ہے اگر آئندہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک نہ رہا تو یہ ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتاہے
خداکرے کہ مزید حالات خراب نہ ہوں ملک میں امن و آمان کی فضا ہموار ہو اور کشمیریوں کو ان کے حقوق ملیں اللہ کشمیریوں کے جان مال عزت آبرؤ کی حفاظت کی سبیل پیدافرمائے
آمین
✍🏻 از :محمد عظیم مقیم حال دیوبند
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی جی نے کشمیر پالیسی کے تین ذرائع بتائے تھے انسانیت ، جمہوریت ، اور کشمیریت ، آج ملک کی سب سے بڑی ایوان نے دفعہ 370جو کشمیر کو خصوصی درجہ دیئے ہوئے تھی ختم کرکے جہاں انسانیت کو شرمشار کیا ہے وہیں جمہوریت کا بھی قتل ہے اور کشمیریت کوتو یہ پہلے سے ہی خون میں لت پت کرکے فنا کے گھاٹ اتار چکے ہیں اس طرح اب یہ دفعہ 370 ختم کرکے شری اٹل بہاری باجپائی کی کشمیر پالیسی کے تینوں ذرائع کو تہس نہس کردیاگیا اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹل بہاری باجپائی بڑے ہی دوراندیش وزیر اعظم تھے وہ ضرور ان پالیسی کو بروئے کار لاکر کشیمر کے مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کی کوشش کرتے
آج اگر کشمیریت کو باقی رکھا جاتا اوربرسوں سے کشمیریت کا خیال رکھاگیا ہوتا تو شاید اس دفعہ کے ختم کرنے کی آج ضرورت ہی پیش نہ آتی کشمیر خود اپنے ہاتھوں سے اپنا پلو ہمارے ساتھ باندھ چکاہوتا
لیکن آج ان تینوں ذرائع انسانیت، جمہوریت، اور کشمیریت کو نظر اندازکرنے والایہ فیصلہ دہشت گردی کو نہ صرف یہ کہ فروغ دے گابلکہ دہشت گرودوں کو مزید مضبوط کرے گا تاریخ
بتاتی ہے کہ گلے لگانے کے بجائے گلے دبانے کے طریقہ کار کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ لیکن صرف جمو کشمیر اور لداخ کا علاقہ نہیں بلکہ ہندوستان کا دعویٰ تو پورے خطہء کشمیر پر تھا چاہے چین کے قبضے والاکشمیر ہو یا پاکستان کے قبضے والاہو پورے خطہ کشمیر پر ہندوستان کا دعویٰ ہے میں کوئی قانون کا طالب علم نہیں یہ تو قانون کےماہرین ہی بتلائیں گے لیکن مجھے لگتاہے کہ اس دفعہ 370 کے خاتمے سے بقیہ حصے پر ہندستان کی دعوے داری کمزورہوجائے گی
یہی نہیں بلکہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے اس لئے یہ ایک طرح سے اقوام متحدہ اور اس کی قراردادوں کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان ہے
یہ قدم شملہ معاہدے سے بھی انحراف ہے جس میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ پر امن حل کرنا طے پایاتھا
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی دفعات کا خاتمہ یاکسی صوبہ کی تقسیم وہاں کی عوام کی مرضی اور ان کی رائے کے بغیر اگر کیاجائے تو یہ جمہوریت کے قتل کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے سب سے بڑے مندر پارلیمنٹ کی توہین بھی ہے
سب جانتے ہیں کہ حق خودارادیت اہل کشمیر کاجمہوری حق ہے اس دفعہ کے خاتمے سے ان کے حق خود ارادیت پر جو ضرب
پڑےگی اہل کشمیر اسے کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے
اب اس دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر اور اہل کشمیر کے سیاسی مستقبل پر اس کے کیااثرات مرتب ہونگے اس تعلق سے کچھ کہنا مشکل ہے
ہوسکتاہے کہ ان کا وقتی جزبہ اورغم آئندہ ملنے والے حقوق سے وآزادی سے سرد پڑجائے
البتہ اتناضرور ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی تہذیب، اپناکلچر ، اپناحق خود ارادیت ،اپنے جمہوری حقوق اور اپنی آزادی کو چِھنتاہوا نہیں دیکھ سکتی
70 سال پہلے جب کشمیر کے پاس دواختیار تھے لیکن اس نے بہت غور فکرکے بعد ہندوستان پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے جمہوری تانے بانے میں سماجانے کا عزم مصمم کرلیا اور اور کچھ مخصوص اختیارات کے ساتھ اس منصوبے کو عملی جامہ بھی پہنایا اس کا نتیجہ یہ ہواکہ ان کا دل جیتنے ، انھیں اپنانے ، ان کو ان کے حقوق دلانے کے بجائے طاقت کے بل بوتے پر ان کا استحصال کیا گیا تو اب ان کو کسی طرح بھی اعتماد میں لینا اور ان کو بھروسہ دلانے سے وہ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا سا محسوس کریں گے
کشمیریوں کو اعتماد میں لئے بغیر ان کے حقوق سلب کرنے والی دفعات کا خاتمہ اور ان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اک طرح سے کشمیریوں کو للکارنا بھی ہے اور ان کی خود مختار حیثیت کا خاتمہ کرکے ان کے حقوق پر ڈاکازنی کے مترادف بھی ہے اگر آئندہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک نہ رہا تو یہ ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتاہے
خداکرے کہ مزید حالات خراب نہ ہوں ملک میں امن و آمان کی فضا ہموار ہو اور کشمیریوں کو ان کے حقوق ملیں اللہ کشمیریوں کے جان مال عزت آبرؤ کی حفاظت کی سبیل پیدافرمائے
آمین