مولانا ارشد مدنی کی موہن بھاگوت سے ملاقات کے معنی
✍عاطف سہیل صدیقی
مولانا ارشد مدنی صدر جمیعت علماء ہند کی موہن بھاگوت سے ملاقات حکمت و سیاست و اسلامی تاریخ میں قائم شد روایات اور مثالوں کی بنیاد پر بلکل درست اور وقت کی ضرورت کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ بہت سے حضرات مولانا کی اس ملاقات کو ھدف تنقید بنا رہے ہیں، کچھ اسے بزدلی پر مبنی قدم بتا رہے ہیں تو کچھ یہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا ہی کیوں اور دیگر قائدین کیوں نہیں؟
اس مدعے کو تمام تعصبات سے پاک ہو کر سمجھنے کے لیے تنقید برائے تنقیص نہیں بلکہ جائز ہونی چاہیے (برائے اصلاح اس لیے نہیں لکھا کہ ہماری اتنی اوقات نہیں کہ بڑوں کی اصلاح کر سکیں )۔ میں سمجھتا ہوں کہ جمیعت پر تنقید کرنے یا مولانا ارشد مدنی یا انکے خاندان پر سخت تنقید کرنے میں راقم کبھی پیچھے نہیں رہا، لومۃ لائم کی پروا کیے بغیر احقر نے مولانا کی تنظیم اور انکے خاندان پر ہمیشہ جائز تنقید کی جس کے سبب مولانا کے بہت سے معتقدین نے راقم کو متعصب، حاسد، اور نہ جانے کن کن القاب سے نوازا۔ لیکن تعصب سے پاک سوچ اور فکر کے اظہار کے لیے حق کہنے کی استطاعت رکھنی چاہیے اور ہزارہا اختلاف کے باوجود جس سے آپ کو اختلاف ہے اس کے صحیح موقف اور قدم کی صرف تائید ہی نہیں بلکہ پذیرائی کرنی چاہیے۔ مولانا یا انکے خاندان سے یا انکی تنظیم سے بہت سی جائز وجوہات کی بنا پر ہمیں لاکھ اختلاف سہی لیکن موہن بھاگوت سے انکی ملاقات کی تائید کیے بنا رہنا یقینا متعصب فکر کی غمازی ہے۔
جو لوگ مولانا کی بھاگوت سے ملاقات کی مذمت کر رہے ہیں ذرا وہ یہ بتائیں کہ اس ناگفتہ بہ حالات میں جبکہ حکومت میں بیٹھے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف ہر سازش کو جائز قرار دے دیا ہو اور اس پر عمل کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہو تو اس صورت حال سے باہر نکلنے کے لیے مسلمانوں کے پاس کیا راستہ ہے؟ مسلمانوں کے پاس اسکے صرف دو راستے ہیں، اولا جیسے کو تیسا، ثانیا انکی سب سے اعلی قیادت جس کے ہاتھ میں پالیسی میکنگ کی قوت ہے ان سے مذاکرات برابری کی سطح پر۔ تیسرا راستہ ہے ناگفتہ بہ حالات کو اور بد سے بدتر ہونے دینا اور ظلم میں اضافہ ہونے دینا۔ مسلمان پہلی صورت اختیار کرنے کی حالت میں بلکل نہیں ہیں، انکے پاس صرف دو صورتیں بچتی ہیں، اعلی قیادت سے مذاکرات یا پھر صاحب اقتدار اور اپنے درمیان خلا رکھ کر ظلم کو بڑھنے دینا اور حالات کو اپنے لیے اور خراب ہونے دینا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صرف دو طریقوں پر مبنی ہے۔ جیسے کو تیسے پر اور مذاکرات پر۔ ظلم کو سہنے اور برداشت کرنے اور مذاکرات نہ کرنے کی آپ کی سنت نہیں ہے۔ اور دیگر انبیاء کی سنت بھی کم سے مذاکرات تو ہے ہی۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ مولانا نے جُھک کر ملاقات کی یا برابر کی کرسی پر بیٹھ کر ملاقات کی؟
رپورٹس کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ مذاکرات کی دعوت مولانا کی طرف سے نہیں بلکہ آر ایس ایس کے سپریمو کی طرف سے آئی ۔ جس کا انکار سیاسی نقطۂ نظر اور شرعی نقطۂ نظر دونوں سے صحیح نہیں تھا۔ لہذا مولانا کو سیاسی اور شرعی نقطۂ نظر سے یہ دعوت قبول کرنی ہی چاہیے تھی جو کہ انہوں نے کی۔ دوسری بات مولانا نے جس ایجینڈے پر بات کی ان میں سے ایک ایجنڈا یہ رہا کہ مولانا نے بھاگوت سے صاف صاف کہا کہ آر ایس ایس کے نظریے سے نہ ہم پہلے متفق تھے اور نہ آج ہیں اگر آر ایس ایس اپنے نظریے میں تبدیلی لاتا ہے تو ہمیں بھی اپنے قدم آگے بڑھانے میں کوئی تأمل نہیں ہوگا۔ اس طرح یہ گفتگو بلکل برابری کے خطوط پر منعقد ہوگئی۔ اب اس ملاقات پر تنقید کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ یا اگر کسی کے پاس کوئی اور فارمولہ ہو کہ آر ایس ایس سے پوری دوری بنا کر بھی اپنے حقوق محفوظ کیے جاسکتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے امن و امان کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے تو وہ بیان کریں، ان شاء اللہ ہم انکی تائید میں بھی اپنی بات ضرور عرض کریں گے۔ لیکن فی الحال مسلمانوں کے پاس مذاکرات کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے اور اس موقع کو جو خود آر ایس ایس کی سب سے اعلی قیادت نے دیا ہے اسے ہرگز گنوانا نہیں چاہیے۔
✍عاطف سہیل صدیقی
مولانا ارشد مدنی صدر جمیعت علماء ہند کی موہن بھاگوت سے ملاقات حکمت و سیاست و اسلامی تاریخ میں قائم شد روایات اور مثالوں کی بنیاد پر بلکل درست اور وقت کی ضرورت کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ بہت سے حضرات مولانا کی اس ملاقات کو ھدف تنقید بنا رہے ہیں، کچھ اسے بزدلی پر مبنی قدم بتا رہے ہیں تو کچھ یہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا ہی کیوں اور دیگر قائدین کیوں نہیں؟
اس مدعے کو تمام تعصبات سے پاک ہو کر سمجھنے کے لیے تنقید برائے تنقیص نہیں بلکہ جائز ہونی چاہیے (برائے اصلاح اس لیے نہیں لکھا کہ ہماری اتنی اوقات نہیں کہ بڑوں کی اصلاح کر سکیں )۔ میں سمجھتا ہوں کہ جمیعت پر تنقید کرنے یا مولانا ارشد مدنی یا انکے خاندان پر سخت تنقید کرنے میں راقم کبھی پیچھے نہیں رہا، لومۃ لائم کی پروا کیے بغیر احقر نے مولانا کی تنظیم اور انکے خاندان پر ہمیشہ جائز تنقید کی جس کے سبب مولانا کے بہت سے معتقدین نے راقم کو متعصب، حاسد، اور نہ جانے کن کن القاب سے نوازا۔ لیکن تعصب سے پاک سوچ اور فکر کے اظہار کے لیے حق کہنے کی استطاعت رکھنی چاہیے اور ہزارہا اختلاف کے باوجود جس سے آپ کو اختلاف ہے اس کے صحیح موقف اور قدم کی صرف تائید ہی نہیں بلکہ پذیرائی کرنی چاہیے۔ مولانا یا انکے خاندان سے یا انکی تنظیم سے بہت سی جائز وجوہات کی بنا پر ہمیں لاکھ اختلاف سہی لیکن موہن بھاگوت سے انکی ملاقات کی تائید کیے بنا رہنا یقینا متعصب فکر کی غمازی ہے۔
جو لوگ مولانا کی بھاگوت سے ملاقات کی مذمت کر رہے ہیں ذرا وہ یہ بتائیں کہ اس ناگفتہ بہ حالات میں جبکہ حکومت میں بیٹھے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف ہر سازش کو جائز قرار دے دیا ہو اور اس پر عمل کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہو تو اس صورت حال سے باہر نکلنے کے لیے مسلمانوں کے پاس کیا راستہ ہے؟ مسلمانوں کے پاس اسکے صرف دو راستے ہیں، اولا جیسے کو تیسا، ثانیا انکی سب سے اعلی قیادت جس کے ہاتھ میں پالیسی میکنگ کی قوت ہے ان سے مذاکرات برابری کی سطح پر۔ تیسرا راستہ ہے ناگفتہ بہ حالات کو اور بد سے بدتر ہونے دینا اور ظلم میں اضافہ ہونے دینا۔ مسلمان پہلی صورت اختیار کرنے کی حالت میں بلکل نہیں ہیں، انکے پاس صرف دو صورتیں بچتی ہیں، اعلی قیادت سے مذاکرات یا پھر صاحب اقتدار اور اپنے درمیان خلا رکھ کر ظلم کو بڑھنے دینا اور حالات کو اپنے لیے اور خراب ہونے دینا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صرف دو طریقوں پر مبنی ہے۔ جیسے کو تیسے پر اور مذاکرات پر۔ ظلم کو سہنے اور برداشت کرنے اور مذاکرات نہ کرنے کی آپ کی سنت نہیں ہے۔ اور دیگر انبیاء کی سنت بھی کم سے مذاکرات تو ہے ہی۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ مولانا نے جُھک کر ملاقات کی یا برابر کی کرسی پر بیٹھ کر ملاقات کی؟
رپورٹس کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ مذاکرات کی دعوت مولانا کی طرف سے نہیں بلکہ آر ایس ایس کے سپریمو کی طرف سے آئی ۔ جس کا انکار سیاسی نقطۂ نظر اور شرعی نقطۂ نظر دونوں سے صحیح نہیں تھا۔ لہذا مولانا کو سیاسی اور شرعی نقطۂ نظر سے یہ دعوت قبول کرنی ہی چاہیے تھی جو کہ انہوں نے کی۔ دوسری بات مولانا نے جس ایجینڈے پر بات کی ان میں سے ایک ایجنڈا یہ رہا کہ مولانا نے بھاگوت سے صاف صاف کہا کہ آر ایس ایس کے نظریے سے نہ ہم پہلے متفق تھے اور نہ آج ہیں اگر آر ایس ایس اپنے نظریے میں تبدیلی لاتا ہے تو ہمیں بھی اپنے قدم آگے بڑھانے میں کوئی تأمل نہیں ہوگا۔ اس طرح یہ گفتگو بلکل برابری کے خطوط پر منعقد ہوگئی۔ اب اس ملاقات پر تنقید کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ یا اگر کسی کے پاس کوئی اور فارمولہ ہو کہ آر ایس ایس سے پوری دوری بنا کر بھی اپنے حقوق محفوظ کیے جاسکتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے امن و امان کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے تو وہ بیان کریں، ان شاء اللہ ہم انکی تائید میں بھی اپنی بات ضرور عرض کریں گے۔ لیکن فی الحال مسلمانوں کے پاس مذاکرات کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے اور اس موقع کو جو خود آر ایس ایس کی سب سے اعلی قیادت نے دیا ہے اسے ہرگز گنوانا نہیں چاہیے۔