اسلامی زندگی سے دین اور دنیا سنورتی ہے مولانا محمد منصور اسلامی
مدھوبنی محمد سالم آزاد جس کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور وہ اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے جسے اللہ تعالی پسند فرماتے ہیں اس کی داخلی و خارجی زندگی پر زیغ و ضلال کا سایہ نہیں پڑتا وہ ایک امن پسند شہری ہوتا ہے ایک دیانت دار تاجر ہوتا ہے ایک عادل حکمران ہوتا ہے ایک کامیاب شوہر خیر خواہ باپ غم خوار دوست ہوتا ہے غرض وہ معاشرے میں جس حیثیت کا حامل ہوتا ہے اسے خیر و خوبی کے ساتھ نبھابے والا ہوتا ہے انسان کے اندر مذکورہ خوبیاں کس چیز سے پیدا ہوتی ہیں دین اسلام کی تعلیمات کے سمجھنے اور انہیں اپنانے سے جسے دین کی سمجھ حاصل ہو گئی حلال وحرام کا امتیاز اس کے سامنے واضح ہوگیا اور اس نے اللہ کی توفیق سے حلال راستے کا تعین کرکے اسے اختیار کرلیا اور حرام سے دامن کشا رہا اور اللہ کی عبادت کو بھی اپنی زندگی کے معمولات کا ایک حصہ بنا لیا تو سمجھ لو کہ دین و دنیا کی سعادتوں کاوہ امین بن گیا وہ ہلاکت و بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے سے بچ گیا اور جہنم کے گڑھے سے نکل گیا اور جنت کی ابدی راحتوں اور نعمتوں کا مستحق قرار پاگیا اس لئے بھلائی دولت کے ڈھیر میں نہیں ہے وزارت و صدارت اور گورنری کے منصب میں نہیں ہے سر بفلک عمارتوں اور خوش نما کوٹھیوں میں نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف دین کی سمجھ حاصل ہو جانے میں ہے اللہ نے جس کو اپنے دین یعنی اسلام کی سمجھ دے دی اور اس کو اپنا نے کی توفیق سے نواز دیا یقینا اس نے بھلائیوں سے مالا مال کردیا مولانا ابوالکلام آزاد نگر بھوارہ کے مدرسہ اسلامیہ کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ سے قبل مولانا محمد منصور اسلا می نے خطاب میں فرمایا کہ آپس میں میل ملاپ ترک نہ کرو ایک سے ایک خفا مت رہو اور آپس میں بغض اور کینہ حسد نہ کرو سب مل کر اللہ تعالی کے بندے اور آپس کے بھائی بھائی بنے رہو اور کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ اپنے بھائی مسلمان سے تین دن سے زیادہ خفگی رکھے کوئی شخص پورا ایمان دار نہ ہوگا جب تک اس میں یہ صفت نہ ہو کہ جیسا اپنا بھلا چاہتا ہے ویسا ہی اپنے بھائی مسلمان کا بھلا چاہے قران پاک کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث آپ سن چکے ہیں اب خود سوچنے کا مقام ہے کہ آج آپس کے اتفاق کی کس قدر ضرورت ہے جب کہ آج ساری دنیا میں مسلمان نازک دور سے گزررہے ہیں دشمانان اسلام نے چاروں طرف سے نرغے میں لے رکھا ہے یہودی عیشائی مشرکین نت نئے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں ان حالات کا مقابلہ صرف اس طرح ہوسکتا ہے کہ مسلمان متفق ہوجائیں ان میں آپس میں میل ملاپ ہوجائے شیعہ سنی وہابی وغیرہ سب ایک ہوکر کام کریں اپنے اندر ونی فروغی اختلافات کو باہر نہ آنے دیں اسلام کی حفاظت اور ملت کی بقاء کیلئے سب مل کر سینہ سپر ہونا ہے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ باہمی اختلافات اور بھی تباہی و بربادی کا موجب بن جائے جیسا کہ دیکھا جا رہا ہے اے اللہ مسلمانوں کو اتفاق پیدا کرنے کی سعادت عطا فرمائے ہمارے آپس کے جگھڑے مٹادے ہم کو قرآن و حدیث پر ایک کردے دشمنوں کے مقابلہ پر ہم کو سیسے کی دیوار بنا دے آمین یا رب العالمین
مدھوبنی محمد سالم آزاد جس کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور وہ اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے جسے اللہ تعالی پسند فرماتے ہیں اس کی داخلی و خارجی زندگی پر زیغ و ضلال کا سایہ نہیں پڑتا وہ ایک امن پسند شہری ہوتا ہے ایک دیانت دار تاجر ہوتا ہے ایک عادل حکمران ہوتا ہے ایک کامیاب شوہر خیر خواہ باپ غم خوار دوست ہوتا ہے غرض وہ معاشرے میں جس حیثیت کا حامل ہوتا ہے اسے خیر و خوبی کے ساتھ نبھابے والا ہوتا ہے انسان کے اندر مذکورہ خوبیاں کس چیز سے پیدا ہوتی ہیں دین اسلام کی تعلیمات کے سمجھنے اور انہیں اپنانے سے جسے دین کی سمجھ حاصل ہو گئی حلال وحرام کا امتیاز اس کے سامنے واضح ہوگیا اور اس نے اللہ کی توفیق سے حلال راستے کا تعین کرکے اسے اختیار کرلیا اور حرام سے دامن کشا رہا اور اللہ کی عبادت کو بھی اپنی زندگی کے معمولات کا ایک حصہ بنا لیا تو سمجھ لو کہ دین و دنیا کی سعادتوں کاوہ امین بن گیا وہ ہلاکت و بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے سے بچ گیا اور جہنم کے گڑھے سے نکل گیا اور جنت کی ابدی راحتوں اور نعمتوں کا مستحق قرار پاگیا اس لئے بھلائی دولت کے ڈھیر میں نہیں ہے وزارت و صدارت اور گورنری کے منصب میں نہیں ہے سر بفلک عمارتوں اور خوش نما کوٹھیوں میں نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف دین کی سمجھ حاصل ہو جانے میں ہے اللہ نے جس کو اپنے دین یعنی اسلام کی سمجھ دے دی اور اس کو اپنا نے کی توفیق سے نواز دیا یقینا اس نے بھلائیوں سے مالا مال کردیا مولانا ابوالکلام آزاد نگر بھوارہ کے مدرسہ اسلامیہ کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ سے قبل مولانا محمد منصور اسلا می نے خطاب میں فرمایا کہ آپس میں میل ملاپ ترک نہ کرو ایک سے ایک خفا مت رہو اور آپس میں بغض اور کینہ حسد نہ کرو سب مل کر اللہ تعالی کے بندے اور آپس کے بھائی بھائی بنے رہو اور کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ اپنے بھائی مسلمان سے تین دن سے زیادہ خفگی رکھے کوئی شخص پورا ایمان دار نہ ہوگا جب تک اس میں یہ صفت نہ ہو کہ جیسا اپنا بھلا چاہتا ہے ویسا ہی اپنے بھائی مسلمان کا بھلا چاہے قران پاک کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث آپ سن چکے ہیں اب خود سوچنے کا مقام ہے کہ آج آپس کے اتفاق کی کس قدر ضرورت ہے جب کہ آج ساری دنیا میں مسلمان نازک دور سے گزررہے ہیں دشمانان اسلام نے چاروں طرف سے نرغے میں لے رکھا ہے یہودی عیشائی مشرکین نت نئے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں ان حالات کا مقابلہ صرف اس طرح ہوسکتا ہے کہ مسلمان متفق ہوجائیں ان میں آپس میں میل ملاپ ہوجائے شیعہ سنی وہابی وغیرہ سب ایک ہوکر کام کریں اپنے اندر ونی فروغی اختلافات کو باہر نہ آنے دیں اسلام کی حفاظت اور ملت کی بقاء کیلئے سب مل کر سینہ سپر ہونا ہے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ باہمی اختلافات اور بھی تباہی و بربادی کا موجب بن جائے جیسا کہ دیکھا جا رہا ہے اے اللہ مسلمانوں کو اتفاق پیدا کرنے کی سعادت عطا فرمائے ہمارے آپس کے جگھڑے مٹادے ہم کو قرآن و حدیث پر ایک کردے دشمنوں کے مقابلہ پر ہم کو سیسے کی دیوار بنا دے آمین یا رب العالمین