اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کے لاثانی کردار، محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ پنجاب

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 2 September 2019

راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کے لاثانی کردار، محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ پنجاب


اردو کے معروف افسانہ نگار راجندر بیدی کی یومِ پیدائش یکم ستمبر کے ضمن میں ایک خصوصی پیشکش 

محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ پنجاب. 
رابطہ 9855259650 
"راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کے لاثانی کردار "

افسانہ کے لغوی معنی داستان، طویل بات، قصہ یا کہانی کے ہیں . کہانی کہنا اور سننا فطرت انسانی میں داخل ہے، گویا انسانی وجود سے ہی کہانی کا آغاز ہوتا ہے. پھر جیسے جیسے وقت کروٹ بدلتا رہا، کہانی کہنے اور سننے کے انداز میں تبدیلیاں آتی گئیں، پہلے داستان پھر ناول اسکے بعد افسانے کی شکل اختیارکی.
اردو افسانے کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل سے منشی پریم چند کے افسانوں سے ہوتا ہے. اس کے بعد ترقی پسند تحریک کے دوران جن افسانہ نگاروں نے افسانہ کو نئے موضوعات نئی جہتوں اور نئے پیمانوں سے آشنا کیا. ان میں کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے نام خاص اہمیت کے حامل ہیں اردو ادب کی تنقید میں یہ چاروں فنکار افسانہ کے ” عناصر اربعہ”کہلاتے ہیں.
زیر بحث افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا جنم یکم ستمبر 1915 کو لاہور میں ہوا.انکےوالد کا نام ہیرا سنگھ تھا ذات کے اعتبار سے کہشتریہ سکھ تھے، جبکہ والدہ سیوا دیوی ہندو برہمن تھیں.
بیدی کی حیات کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی پوری زندگی حصول روزگار فکر میں گزری. اس دوران انہوں نے پوسٹ آفس ریڈیو اسٹیشن، پرنٹنگ پریس، مہیشوری فلم کمپنی وغیرہ میں ملازمت کی. لیکن لگتا ہے ان کی فنکارانہ طبیعت نے انہیں کہیں بھی مستقل مزاجی سے کام نہیں کر نے دیا. بقول شاعر :-
جستجو نے کسی منزل پہ ٹھہرنے نہ دیا،
ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح،
اسی بیچ ملک تقسیم ہوا. پنجاب کے فسادات کے لپیٹ میں آتے ہی بیدی سب کچھ چھوڑ چھاڑ شملہ آگئے.ایک سال تک بطور ڈائیرکٹر جموں ریڈیو اسٹیشن پر اپنی خدمات انجام دیں. یہاں سے مستعفی ہو کر ممبئی چلے آئے. لیکن گردش حالات نے یہاں بھی انکا پیچھا نہیں چھوڑا.بقول غالب :-
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں.
راجندر سنگھ بیدی نے ایک لمبی جدوجہد کے بعد دیوداس، بڑی بہن اور داغ جیسی دلیپ کمار کی اداکاری کی والی فلموں کے مکالمے لکھے اور "ایک چادر میلی سی”فلم بنا کر بولی وڈ میں اپنا ایک منفرد و خاص مقام بنایا. یہاں آپ نے عزت شہرت اور پیسہ وہ سب کمایا جسکے آپ متمنی ومستحق تھے. لیکن زندگی کے آخری چھ سال لقوہ کا شکار ہونے کے چلتے نہایت بے بسی قابل رحم حالت میں کاٹے.آخر کار گیارہ نومبر 1984کوافسانوی ادب کے افق پر چمکنے والا یہ ستارہ ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہو گیا. بے شک راجندر سنگھ بیدی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن انکی شاہکار تخلیقات ہمارے لیے آج بھی مشعل راہ ہیں. بقول پریم:-
دیتا رہوں گا روشنی بجھنے کے بعد بھی
میں بزمِ فکر و فن کا وہ تنہا چراغ ہوں.
بیدی نے اردو ادب کو اپنے چھ افسانوی مجمووں سے نوازہ ان میں دانہ و دام، گرہن ، کوکھ جلی، اپنے دکھ مجھے دے دو، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے، مکتی بودھ ان کے علاوہ ایک درجن ایسے افسانے بھی ہیں جو کسی مجموعہ میں شامل نہیں، جیسےکہ مہارانی کا تحفہ، مثبت اور منفی، پہاڑی کوا ، خود غرض، شکار اور فرشتے وغیرہ قابل ذکر ہیں.
یوں تو بیدی نے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے افسانوں کے کرداروں و موضوعات میں سمویا و جگہ دی ہے. لیکن جس خوبصورتی ، لطافت و نزاکت کے ساتھ بیدی نے روزانہ زندگی میں گھریلو خواتین کو درپیش آ نیوالے مسائل اور مشکلات و پریشانیوں کو اپنے افسانوں میں خصوصی اہمیت کے ساتھ اجاگر کیا ہے ا سکی مثال ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں کے یہاں بہت کم ملتی ہے.آیئے انکے کچھ ایسے ہی شاہکار افسانوں کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں.
بیدی کا افسانہ”اپنے دکھ مجھے دے دو” جو ادبی دنیا میں آج بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھا جا تا ہے. اس کی مرکزی کردار ‘اندوھ آج بھی اہل ادب کے دلوں پر راج کرتی ہے. اندو ایک سگھڑ اور سمجھ دار عورت ہے اسکے اخلاق کی بلندی کی نظیر بہت کم ملتی ہے. وہ پورے خاندان کے افراد کا خیال رکھتی ہے بچوں سے شفقت سے پیش آ تی ہے بوڑھے سسر کی خدمت کرتی ہے ، دیور کو پڑھاتی ہے اور نند کی شادی کرتی ہے آوارہ بنتے ہوئے اپنے پتی کو سیدھے راستے پر لاتی ہے. بظاہر اندو کا کردار آئیڈیل معلوم ہوتا ہے لیکن افسانہ کا ماحول اس قدر حقیقت پسندانہ وزمینی سطح سے جڑا ہے .
ویسے اگر دنیا کی سبھی عورتیں اندو جیسے اخلاق والی بن جائیں تو یہی دنیا جنت کا اعلیٰ نمونہ بن جائے.افسانہ میں اندو کے منہ سے بیدی نے ایک ایسی بات کہلائی ہے جو مدن جیسے لاکھوں مردوں کی سمجھ میں نہیں آتی. اقتباس”تم مرد لوگ کیا جانو؟جس سے پیار ہوتا ہے اس کے سبھی چھوٹے بڑے پیارے معلوم ہوتے ہیں، کیا باپ، کیا بھائی اور کیا بہن”اقتباس ختم.
مجموعے دانہ و دام کا افسانہ "بھولا” اب تک بچوں پر لکھے گئے افسانوی ادب کی نمائندگی کرتا ہے. بھولا جہاں معصوم بچوں کی نفسیات کی ترجمانی کرتا ہے وہیں اس افسانہ کا دوسرا کردار دادا، ان بوڑھے بے بس ضعیف لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے،جو زندگی میں وقت کے بے وقت پڑے تھپیڑوں کے کھا نے کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بقیہ عمر اپنے معصوم پوتے اور بیوہ بہو کی آئندہ زندگی میں خوشیاں بھر نے کیلئے وقف کر دیتے ہیں. افسانہ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں”اپنی بہو کے اس طرح کھل کر ہنسنے پر میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا، مایا بیوہ تھی اور سماج اسے اچھے کپڑے پہننے، ہنسنے اور خوشی کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتا تھا. میں نے بارہا مایا کو اچھے کپڑے پہننے، ہنسنے کھیلنے کی تلقین کرتے ہوئے سماج کی پرواہ نہ کرنے کیلئے کہا تھا، مگر مایا نے از خود اپنے آپ کو سماج کے روح فرسا احکام کے طابع کر لیا تھا. اس نے اپنے آپ تمام اچھے کپڑے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں مقفل کر کے چابی ایک جوہڑ میں پھینک دی تھی”اقتباس ختم.
اسی طرح افسانہ گرہن کا کردار” ہولی”پچھڑے سماج میں ان عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے جو سسرال میں جسمانی اور نفسیاتی استحصال کا شکار ہو تی ہیں اور ظلم کی انتہا کو برداشت نہ کرتے ہوئے آخر گھر سے جاتی ہیں، لیکن ستم ظریفی دیکھئے گھر سے بھاگ کر بھی ایسی عورتوں کا نصیب نہیں بدلتا، بلکہ ایسی خواتین باہر آدمیوں کے بھیس میں چھپے بھیڑیوں کی هوس کا شکار ہو جاتی ہیں. افسانہ کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں”رسیلے نے ایک پر ہوس نگاہ سے ہولی کی طرف دیکھا. اس وقت ہولی اکیلی تھی. رسیلے نے آہستہ سے آنچل کو چھوا .ہولی نے ڈرتے ڈرتے دامن جھٹک دیا اور اپنے دیور کو آواز دینے لگی. گویا دوسرے آدمی کی موجودگی چاہتی ہے، اس کیفیت میں مرد کو ٹھکرا دینا معمولی بات نہیں ہوتی، رسیلا آواز کو چباتے ہوئے بولا.
میں پوچھتا ہوں بھلا اتنی جلدی کاہے کی تھی.
جلدی کیسی؟ ”
رسیلا پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا، "یہی تم بھی کتیاہو..کتیا”
ہولی سہم کر بولی”تو اس میں میرا کیا قصور ہے”
ہولی نے نادانستگی میں رسیلے کو وحشی، بد چلن، ہوس ران سبھی کچھ کہہ دیا. چوٹ سیدھی پڑی، رسیلا کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا. لاجواب آدمی کا جواب چپت ہوتی ہے اور دوسرے لمحے میں انگلیوں کے نشان ہولی کے گالوں پر دکھائی دینے لگے. ”
ازدواجی محبت پر مبنی افسانہ ” گرم کوٹ ” بھی ایک کلاسک درجہ کی شاہکار تخلیق ہے. اس افسانہ میں ایک غریب کلرک اس کی حسین بیوی اور بچوں کی کہانی ہے کہ کیسے ایک معمولی کلرک کے تنگ دستی والے حالات میں خوب سیرت بیوی اپنے ایثار و قربانی اور صدق دلی سے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھتی ہے اور معاشی تنگ دستی کو کبھی زندگی کی خوشیوں کے آڑے نہیں آنے دیتی.اسی طرح افسانہ”گھر میں بازار میں” ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جس میں ایک نو بیاہتا آتی ہے اور اپنے ہاتھ خرچ کے لیے شوہر سے پیسے مانگتے ہوئے جھ جھ کتی ہے دراصل بیدی نے اس افسانہ میں بہت ہی نازک اور لطیف انداز میں معاشرے میں عورت کی معاشی آزادی کے مسلہ کو پیش کیا ہے. رنگوں کے فشار کا افسانہ ” جوگیا” نوجوان لڑکے اور لڑکی کی محبت کی کہانی ہے جو وصل کی بجائے جدائی پر ختم ہوتی ہے افسانہ میں جوگیا کی شکل کو بیدی نے ایک مصور کی طرح الفاظ کے مجسمے میں کیسے ڈھالا ہے اقتباس ملاحظہ فرمائیں، "جوگیا کا چہرہ سومنات کے مندر کے پیش رخ کی طرح چوڑا تھا. جس میں قندیل جیسی آنکھیں رات کے اندھیرے میں بھٹکے ہوئے مسافروں کو روشنی دکھاتی تھی. مورتی میں ناک اور ہونٹ زمرد اور یاقوت کی طرح ٹنکے ہوئے تھے. "اقتباس ختم. افسانہ ” چشم بدور” بیدی کی بے مثال تخلیق ہے طنز و ظرافت سے بھر پور اس افسانہ میں امریکہ و روس جیسی عالمی طاقتوں کی سیاست اور اس سیاست کے ہتھ کنڈھے چڑھنے والے ہمارے جیسے دیگر ممالک ضمیر فروش لوگوں کو بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش ہے. افسانہ ” رحمان کے جوتے” بیدی کے شاہکار افسانوں میں ایک ہے. جوتے پر جوتا چڑھنا سفر کی نشانی ہے اور یہی علامت رحمان کی زندگی کے آخری سفر کا المیہ بنتی ہے.کوکھ جلی بظاہر ایک سیدھا سادھا سا افسانہ ہے یہ افسانہ ایک ماں کی گہری معنویت اور اس کے بیٹے گھمنڈی کی زندگی تلخ حقیقت بیان کرتا ہے. اسی طرح” کلیانی ” واحد ایسا افسانہ ہے جو بیدی نے طوائف کی زندگی پرلکھاہے پورا افسانہ علامتی تصاویر سے سجایا ہوا محسوس ہوتا ہے. جبکہ "مکتی بودھ” کی ظرافت میں پوری فلمی دنیا کے پس منظر کو فلمانے کی بیدی نے کامیاب کو شش کی ہے. اسی طرح افسانہ” لمبی لڑکی” میں رقمن دادی کے موت کے منظر کو یاد گار ی بنا ہے. جب بڑھیا کی پوتی اپنے ننھے بچے کو گود میں اٹھائے آتی ہے. تو گویا دادی کی موت بھی ساتھ لاتی ہے. بالکل ہوا کے جھونکے کی مانند، اسی وقت تپائی پر پڑی ہوئی گیتا کے صفحات اڑنے لگتے ہیں، اور وہاں آ کر خود بخود تھم جا تے ہیں جہاں لفظ”سماپت”لکھا ہوتا