اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اتحاد و اتفاق یہاں کب ؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 1 September 2019

اتحاد و اتفاق یہاں کب ؟

تحریر: عزیز اعظمی اسرولی سرائمیر
 ______________
جہاں جنون ہوگا وہاں مسائل بے شمار ہونگے آج ملک  مسائل میں گھرا ہوا ہے این آر سی ، کشمیر ، لنچنگ ، مذہب، معیشت ، معاشرت ہر طرح کے مسائل ملک میں ایک ساتھ درپیش ہیں ، حکومت اپنے اختیارات سے نظم و نسق ، امن و آمان کو روند کر اپنے نظریات کو وہ مقام دینا چاہتی ہے جس کا وہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ خواب کی تعبیر ، مقصد کی تکمیل ایماندارانہ جدو جہد سے تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن غاصبانہ طرز عمل سے نہیں ۔۔
 آسام سے کشمیر تک انسانیت کو رود کر ، ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی کی اخوت کو توڑ کر ، تشدد و تعصب کو ہوا دیکر ، فرقہ واریت کو جنم دیکر ، معیشت و صنعت کو اکھاڑ کر اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ اس ملک کے بھاگیہ ودھاتا بن جائیں تو یہ ممکن نہیں ۔۔۔ اس غاصبانہ طرز عمل سے زمین جیتی جا سکتی ہے اعتماد و اعتبار نہیں -

زمین و آسمان ، چاند و سورج کی طرح مسلمان اس ملک اور اس دنیا کی ایک ایسی حقیقت ہے جسے کسی منصوبے سے ختم نہیں کیا جا سکتا دنیا اسی کے وجود سے شروع ہوئی ہے اور اسی پر ختم ہوگی  اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے حکومت و ریاست کو اقلیت و اکثریت کو آپسی اتحاد ، اخوت و محبت ، مفاہمت و مصالحت سے رہنا چاہیئے جس میں ملک کی ترقی ، خوشحالی اور بقاء ہے ، مسلمانوں کے خلاف اس ساری  ذہن سازی ، قانون سازی ، منصوبہ بندی میں آج ملک عالمی معیار و معیشت پرکہا کھڑا ہے ، صنعت و تجارت کا کیا حال ہے ، امن و آمان اس نہج پر ہے کہ ہندو مسلم علاقے میں مکان نہیں لیتا ، مسلم ہندو علاقے میں دوکان نہیں  لیتا جس  ملک کے شہریوں میں آپسی محبت کے بجائے عدم اعتمادی اور خوف کا یہ عالم ہو وہ ملک وشوا گرو کیسے بن سکتا ہے  بلاشبہ اس ملک میں وشوا گرو بننے کی ہر صلاحیت موجود ہے اگر آپ جملوں سے نہیں بلکہ دل سے اس ملک کو عالمی طاقت بنانا چاہتے ہیں  تو ملک کی صلاحیتوں کو بلا تفریق پروان چڑھانا ہوگا  ، امن و آمان کو بحال کرنا ہوگا ، مذہبی منافرت اور تفریق کے بجائے اتفاق و اتحاد کے راستے پر چلنا ہوگا  -

لیکن کیا ایسا کر پانا اس حکومت اور اس سنستھا کے لئے ممکن ہے جس کی بنیاد مسلم دشمنی اور مذہبی جنون پر قائم ہو ، جس کے ذہن و دماغ میں ہندتوا اس طرح سرایت کر چکا ہو کہ اس کے لئے سیکڑوں سینائیں بنا کر ملک کی اقلیت پر چھوڑ دیا گیا ہو ، جو اس احساس کمتری کا شکار ہو کہ دنیا میں درجنوں مسلم ممالک ہیں جہاں اسلامی نظام ہے لیکن ہندتوا کہیں نہیں ، مسلمانوں کے پاس سیکڑوں مسلم ممالک  ہیں اور ہندو راشٹر کہیں نہیں اور وہ اس راشٹر اور اس نظام کی خاطر انسانیت تو دور رنگ و بو کو بھی بانٹ دیا ہو ۔۔ ایسا جنونی ذہن اپنے ملے ہوئے موقع اور وقت کو چھوڑ کر اپنے منصوبے کو ترک کر کے عوام الناس کی بہتری کے لئے کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کا مقصد پس پشت چلا جائے میرے خیال میں ممکن نہیں ملک کے حالات ، عالمی رجحانات ، معیشت کے دباؤ میں وہ اپنی جنونیت کی شدت میں کمی تو لا سکتے ہیں لیکن ترک نہیں کر سکتے ۔ ملکی حالات ، معیشت و تجارت کے مد نظر  مذاکرات سے حادثات و واقعات میں کمی تو آسکتی ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف جعلسازی ، منصوبہ بندی میں کمی نہیں آسکتی اس سے بچنے کے لئے مسلمانوں کے پاس اپنی تعلیمی ، سیاسی اور متحدہ طاقت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ۔  

لیکن پھر بھی بحیثیت ایک پر امن شہری کے  اس ساری حقیقت ، ساری منصوبہ بندی اور ساری ذہنیت جاننے کے باوجود بھی خیر کی امید باقی رکھنی چاہیئے ، امن و آمان ، اتحاد و اتفاق کی کی بحالی کی بات کرنی چاہئے ، مذاکرات ، گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے کیونکہ ہرمسئلے کا حل بات چیت میں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت و قوت پر دھیان دینا چاہیے ، اس دنیا میں کمزوروں کی کوئی حیثیت نہیں  دوسروں کے ساتھ مل بیٹھ کر اخوت و محبت ، اتحاد و اتفاق کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بھی کھلی نگاہ سے دیکھنا چاہیئے کہ کہیں ہمارے حلقے بھی منتشر تو نہیں ، کہیں ہم بھی مسلکی و گروہی تصادم  کا شکار تو نہیں ، کہیں ہم بھی مدرسے اور مدرسیت کی بنیاد پر دست و گریبان تو نہیں اگر ہیں  تو یہاں بھی آپسی اتحاد ، مذاکرات ، گفت و شنید کی ضرورت ہے ۔