۩ ماہ صفر المظفراسلام کی نظرمیں ۩
٭انظرالاسلا م بن شبیر احمد ٭
متعلم دارالعلوم وقف دیوبند
وجہ تسمیہ،، ۔ «صفرالمظفر» اسلامی سال (قمری تقویم) کا دوسرامہینہ ہےجومحرالحرام کے بعدآتاہے،، صَفَرٌ،، عربی زبان کا لفظ ہےجسکے متعدد معنی بیان کئے گئےہیں،، مثلاً،، ۔۱۔ پیٹ کے کیڑےیاسانپ، ۔۲۔ سونا، پیتل، زردرنگ، خشک کھاس، صفراوی امراض، نحوست، شگون بد، وغیرہ ۔مگریہ سب مجازی اورمرادی معانی ہیں، حقیقی نہیں، کیوں کے اسلام ان کی تردید کر چکا ہے، ۔۳۔ خالی ہونا۔تفسیرابن کثیر: ۴۔/۱۲۹/تحت سورہ التوبہ، ۳۶،، ۔یہ تیسرامعنی زیادہ معروف ہے۔عرب کےلوگ زمانئہ جاہلیت میں،، اسلام سے پہلے،، محرم الحرام کی حرمت کی وجہ سے جنگ سےبازرہتے تھے، اسلئے جیسے ہی ماہ صفرکا آغازہوتا تواپنی ضرورت کی اشیاء لینے اورجنگ وجدال کیلئے گھروں سے نکل جاتے اور گھروں کو خالی چھوڑ دیتے تھے، پس اس مناسبت سے اس ماہ کو،، صفر،،. (خالی ہونا) کہاجانے لگا۔۔
شریعت اسلامیہ میں اس مہینہ کو،، صفر،، اسلئے کہا جاتاہے تاکہ یہ بھی محرم الحرام کی طرح معصیت اور گناہ سے خالی رہے، ۔
عن ابی ھریرہؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاعدوی ولاھامۃ ولانوء لاصفر۔(مسلم: ۲۲۲۰)
حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ؐ سے روایت کرتےہیں کہ آپؐ نے فرمایا، مرض کا لگ جانا، الو،. ستارہ اور صفر یہ سب وہم پرستی کی باتیں ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں ۔
**ماہ صفرزمانہ جاہلیت میں**
زمانہ جاہلیت میں صفرکے بارے میں مختلف نظریاترتھے۔
بعض لوگوں کا یہ نظریہ تھا کہ اس مہینہ میں بکثرت مصائب تکلیفیں پریشانیان نازل ہوتی ہیں ۔اور اس مہینے سے وہ بد فالی لیا کرتے تھے۔
بعض لوگوں کا یہ نظریہ تھا صفر ایک بیماری ہے جس میں آدمی کھاتا چلا جاتا ہے مگر اسکی بھوک ختم نہیں ہوتی جیسے جوع البقر کہا جاتا ہے۔
بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ صفر پیٹ میں ایک کیڑا یا سانپ ہوتا ہے۔یا ایک خطر ناک بیماری ہوتی ہے اور جس کو یہ بیماری لاحق ہوجاتی وہ ہلاک ہوجاتا ہے، اور یہ بیماری خارش سے بھی زیادہ متعدی ہوتی ہے۔
بعض لوگ صفر اس کیڑے کو کہتے تھے جو جگر اور پسلیوں کے درمیان پیدا ہوجاتا ہےجس کی وجہ سے انسان کا رنگ بالکل زرد پڑ جاتا ہے جس کو یر قان کہتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس سے موت تک واقع ہو جاتی ہے ۔
۞۞ماہ صفر کے فضائل واعمال۞۞اس مہینے کی فضیلت یا مخصوص اعمال کی کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری، اس مہینہ میں معمول کی عبادت ہے۔البتہ اس ماہ سے منسوب باطل نظریات و توہمات سے دور رہنے کا حکم فرمایا ہے
صفر کے ساتھ لفظ،، المظفر،، یا،، الخیر،، کا اضافہ کیوں؟
چونکہ زمانئہ جاہلیت میں عرب کے لوگ ماہ صفر کو منحوس، بدشگون اور بُرا سمجھتے تھے اور بڑے عجیب وغریب قسم کے خیالات رکھتے تھے کہ اس مہینے میں آفات ومصائب نازل ہوتی ہے، اسلئے اسے،، صفرالمظفر،، یاصفرالخیر،،. کہا گیا تاکہ اسے نحوست والا مہینہ نہ سمجھا جائے، مظفر، کا معنی کامیابی، اور خیر،. کا معنی نیکی، سلامتی اور برکت کے ہیں
افسوس! آج بھی زمانئہ جاہلیت کے وہ فاسدخیالات اورباطل عقائد ہمارے معاشرے میں نسل درنسل چلے آرہے ہیں ۔اسی لئے اس ماہ میں خوشی کی تقریبات مثلاً،، شادی بیاہ، لڑکی کی رخصتی،. ختنہ اورعقیقہ وغیرہ سے مکمل احتراز کیا جاتا ہے،
نحوست کو دور کرنے کیلئے مختلف ٹوٹکے اورعملیات کیے جاتے ہیں، اوراگرکوئی حادثہ یا غمناک واقعہ یا کسی کام میں ناکا می ہوجائے تو کہتے ہیں کہ یہ دن یا یہ مہینہ یا یہ تاریخ ہی منحوس تھی۔ اَسْتَغْفِرُاللہ
۩ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،، ۔
آدمؑ کی اولادزمانےکو گالی دیتی ہے زمانےکو بُرا کہتی ہے، حالانکہ زمانہ تو میں ہوں، رات دن کی گردش میرے ہاتھ میں ہے، ۔صحیح البخاری: ۸۔/۴۱(۶۱۸۱) کتاب الادب ۔ایک دوسری روایت میں ہے رات دن کو میں بدلتا ہوں، اور جب چاہوں گا تو اس کو اُلٹ پلٹ کر ختم کردونگا، ۔صحیح مسلم: ۴۔/۱۷۶۲(۲۲۴۶) (۳) کتاب الالفاظ من الادب وغیرھا، ایک روایت میں ہے ابن آدمؑ زمانے کو گالی دے کر مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، ۔صحیح البخاری کتا ب التفسیر، ۶۔/۱۳۳(۴۸۲۶)
مطلب یہ ھیکہ بعض لوگ حوادثاتِ زمانہ سے متاثر ہوکرزمانے کو بُراکہنے لگتے ہیں،
حالانکہ زمانہ کوئی کام نہیں کرتا، زنانے میں جو واقعات اور حودثات رونما ہوتے ہیں اور جوانقلاب ہوتے رہتے ہیں، وہ تمام حضرت حق تعالیٰ کی مشیت اور ان کے حکم سے ہوتے ہیں، لوگ اپنی بے وقوفی سے یا جان بوجھ کر زمانے کو بُرا کہتے ہیں،
گالیاں دیتے ہیں، زمانے کو بُرا کہنا در حقیقت اللہ تعالیٰ کو بُرا کہنا ہے، کیونکہ اصل فاعل تو وہ ہیں اسلئے اس فعل سے منع فرمایا، الھدایۃ السینہ فی الاحادیث القدسیہ(المعروف، خاکی باتیں) ص۔۲۳: ۲۴۔
نیزاس ماہ میں بے شمارخیر کے کام ہوئے ہیں، مثلاً، مکہ سےمدینہ ہجرت، غارثور میں داخلہ، رحمۃ للعالمین ؐ کی صاحبزادیوں کے نکاح، کئی حضرات کے قبول اسلام وغیرہ، نیزفتح خیبروغیرہ بھی اس مہینہ میں ہوئیں، ان خیر کے کاموں کا ہوناہی اس بات کی علامت ہے کہ یہ مہینہ نحوست اوربے برکتی وناکامی کا نہیں ہے، کتاب الفتاویٰ۔ ۱۔/۳۹۲/۳۹۳۔فتاویٰ رحیمہ ۲۔/۶۷
۩ ۔ ایک من گھڑت روایت سے استدلال اوراس کا جواب""
بعض لوگ ماہ صفر کے منحوس ہونے پر ایک مشہور روایت کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
مَنْ بَشَّرَ نِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ ، بِشَّرْ تُہُ بِالْجَنَّۃِ
،، جوشخص مجھکو ماہ صفرکے گزرنے کی بشارت دےگا، میں اسے جنت کی بشارت دونگا،، ۔
٭ ۔ جواب ۔دشمنان اسلام نے سرور ے عالمؐ کی طرف منسوب بہت سی روایت جھوٹی روایات پھیلائی ہیں، انہی میں سے ایک درج بالاروایت ہے، مشہور محدث مُلاعلی القاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس روایت کو بے اصل اور موضوع قرار دیا ہے، اسکے علاوہ اور اَئمہ حدیث مثلاً، علامہ عجلونی ؒ، قاضی شوکانی ؒ اور علامہ طاہر پٹنی ؒ وغیرہ ہم نے بھی اسکو بے اصل کہا ہے، اور من گھڑت روایت سے استدلال کرنا سرا سر جہالت ہے،
ماہ صفر کے منحوس ہونے کی اس من گھڑت روویت کے بالمقابل ماہ صفرکے بارے میں بےشمار صحیح احادیث موجود ہیں، جوماہ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں اسلئے صحیح احادیث کے مقابلہ میں ایک من گھڑت روایت پر عمل کرنا خلاف عقل بھی ہے،
اگر بالفرض اس روایت کو صحیح تسلیم کر کے الفاظ پر غور کیا جائےتوبھی ان الفاظ سے ماہ صفر کی نحوست ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اسکا صحیح مطلب اورمصداق یہ ہوگا کہ آپؐ کی وفات ماہ ربیع الاوّل میں ہونے والی تھی اور آپ موت کے بعداللہ کی ملاقات کے مشتاق تھے، اسلئے ربیع الاوّل کے شروع ہونے اورصفرکے گزرجانے کی خبرکا آپؐ کو انتظارتھا، پس اس خبرکے لانے پر آپؐ نے بشارت کو مرتب فرمایا، چنانچہ تصوف کی بعض کتابوں میں اسی مطلب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس روایت کو ذکر کیا گیا ہے، ۩ سال بھر کے مسنون اعمال! ۸۔/۹ (بتغیر) وغیرہ
المختصر! اس من گھڑت وبے اصل حدیث کی نسبت رسول اللہ ؐ کی طرف کرنا، بیان کرنا اور اسکے مطابق اپنا ذہن بنانا یا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے(مستفادکتب اکابر)
۩۔ ماہ صفر کی دو اہم بدعات""
جاہل وبے دین لوگوں اور اسلام دشمن عناصرنے ماہ صفر المظفر میں دین کے نام پر بے شمار من گھڑت رسومات وبدعات اور فاسد عقائد داخل کر رکھے ہیں جو آج بھی ہمارے اسلامی معاشرے میں عوامی سطح پر رائج ہیں،
حالانکہ ان کا تعلق وجودڑ کسی بھی طرح دین اسلام سے نہیں،
مثلاً۔ جنات کا آسمان زمیں پر اُتر نا، مکڑی کے جالے صاف کرنا، وغیرہ ۔زمانئہ جاہلیت میں،، نسئی کی رسم،،. یعنی نفسانی اغراض پر حرمت والے مہینوں میں ردّ وبدل(آگے پیچھے ) کرنا اب دو مشہور بدعت جن کے گرد تقریباً ساری بدعت وخرافات گھومتی ہیں،
٭اسکی تفصیل مع انکا حکم ملاحظہ فرمائے٭
۞۔۱۔ تیرہ تیری کی بدعت!! بعض لوگ کہتے ہیں کی ماہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن نہایت منحوس بُرے اور سخت ہیں، کیونکہ ان دنوں میں رسول اللہ ؐ بھی سخت بیمار ہوگئے تھے، یہ بیماری اسی نحوست کا اثرہے، تیرہ سے مراد.،، ۱۳۔ کا ہند سہ.، اور تیری سے مراد.،،. سختی اورپریشانی ہے،. بعض جگہ لوگ تیرہ تاریخ کو،، چنے اُبال کر، تقسیم کرتے ہیں. تاکہ بلائیں اور نحوستیں دور ہو جائیں ۔
یاد رکھے! ان سب باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں یہ صرف توہمُّ پرستی اور مشرکین کے عقیدہ کی اقتداء کرنا ہے،،. نیز رسول اللہ ؐ اپنے مرض وفات میں تیرہ دن بیمار رہے ہیں، مگر وہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن نہیں بلکہ صفر کے آخری ربیع الاوّل کے ابتدائی آیام تھے۔
۩۔۲۔آخری چہار شنبہ (بدھ) کی بدعت""
لوگ اس دن کوشیاں مناتے ہیں،. مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں، چھٹی کرنے کو اجرو ثواب سمجھتے ہیں، سیر وتفر یح کیلئے جاتے ہیں،
بعض جگہ اس دن روزہ رکھا جاتا ہے، اور ایک خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے، وجہ یہ بیان کی جاتی ہیکہ، اس دن رسول اللہؐ کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسل صحت فرمایا تھا، نیزبہت سے لوگ اس دن تعویذ بناکر مصیبتوں اور بیماریوں سے بچنے کی غرض سے پہنتے ہیں۔
یاد رکھے! یہ مشہور بات بالکل غلط اور بے اصل ہے،
حقیقت یہ ہیکہ اس دن ۔ صفر کے آخری بدھ ۔ سے تو آپؐ کے مرض کی شدت ۔، مرض وفات، ۔ کا آغاز ہوتھا، جس پر یہودیوں نے عداوت وشقاوت اور اپنے کینہ و بغض کی وجہ سے خوشی کی تھی ۔ ایرانی مجو سیوں سے منتقل ہوکر ہندوستان میں آئی اور یہاں کے بے دین بادشاہوں نے اسے پروان چڑھا یا ۔
المختصر ۔ یہ یہودیوں اور مجوسیوں کی رسم اور ایجاد فی الدیں ۔،. بدعت، ۔ ہے اہل اسلام کا اسکا اہتمام کرنا اور خوشی منانا سخت بے عیزتی وبے ادبی کی بات ہے۔۔
تاریخ ابن اثیر،. تاریخ طبری اوّل البدایۃ والنھایۃ ۔ جلد ۵۔ مظا ہر حق جدید،. ۵۔ ۵۲۳۔ کفایت الفتی ۔ ۲۔ ۸۴ احسن الفتاویٰ ۔۱۔ ۳۶۰۔ ۱۰۔ ۵۸
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور تمام خرافات وبد عات سے محفوظ رکھے آمین
واللہ اعلم با لصواب
٭انظرالاسلا م بن شبیر احمد ٭
متعلم دارالعلوم وقف دیوبند
وجہ تسمیہ،، ۔ «صفرالمظفر» اسلامی سال (قمری تقویم) کا دوسرامہینہ ہےجومحرالحرام کے بعدآتاہے،، صَفَرٌ،، عربی زبان کا لفظ ہےجسکے متعدد معنی بیان کئے گئےہیں،، مثلاً،، ۔۱۔ پیٹ کے کیڑےیاسانپ، ۔۲۔ سونا، پیتل، زردرنگ، خشک کھاس، صفراوی امراض، نحوست، شگون بد، وغیرہ ۔مگریہ سب مجازی اورمرادی معانی ہیں، حقیقی نہیں، کیوں کے اسلام ان کی تردید کر چکا ہے، ۔۳۔ خالی ہونا۔تفسیرابن کثیر: ۴۔/۱۲۹/تحت سورہ التوبہ، ۳۶،، ۔یہ تیسرامعنی زیادہ معروف ہے۔عرب کےلوگ زمانئہ جاہلیت میں،، اسلام سے پہلے،، محرم الحرام کی حرمت کی وجہ سے جنگ سےبازرہتے تھے، اسلئے جیسے ہی ماہ صفرکا آغازہوتا تواپنی ضرورت کی اشیاء لینے اورجنگ وجدال کیلئے گھروں سے نکل جاتے اور گھروں کو خالی چھوڑ دیتے تھے، پس اس مناسبت سے اس ماہ کو،، صفر،،. (خالی ہونا) کہاجانے لگا۔۔
شریعت اسلامیہ میں اس مہینہ کو،، صفر،، اسلئے کہا جاتاہے تاکہ یہ بھی محرم الحرام کی طرح معصیت اور گناہ سے خالی رہے، ۔
عن ابی ھریرہؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاعدوی ولاھامۃ ولانوء لاصفر۔(مسلم: ۲۲۲۰)
حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ؐ سے روایت کرتےہیں کہ آپؐ نے فرمایا، مرض کا لگ جانا، الو،. ستارہ اور صفر یہ سب وہم پرستی کی باتیں ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں ۔
**ماہ صفرزمانہ جاہلیت میں**
زمانہ جاہلیت میں صفرکے بارے میں مختلف نظریاترتھے۔
بعض لوگوں کا یہ نظریہ تھا کہ اس مہینہ میں بکثرت مصائب تکلیفیں پریشانیان نازل ہوتی ہیں ۔اور اس مہینے سے وہ بد فالی لیا کرتے تھے۔
بعض لوگوں کا یہ نظریہ تھا صفر ایک بیماری ہے جس میں آدمی کھاتا چلا جاتا ہے مگر اسکی بھوک ختم نہیں ہوتی جیسے جوع البقر کہا جاتا ہے۔
بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ صفر پیٹ میں ایک کیڑا یا سانپ ہوتا ہے۔یا ایک خطر ناک بیماری ہوتی ہے اور جس کو یہ بیماری لاحق ہوجاتی وہ ہلاک ہوجاتا ہے، اور یہ بیماری خارش سے بھی زیادہ متعدی ہوتی ہے۔
بعض لوگ صفر اس کیڑے کو کہتے تھے جو جگر اور پسلیوں کے درمیان پیدا ہوجاتا ہےجس کی وجہ سے انسان کا رنگ بالکل زرد پڑ جاتا ہے جس کو یر قان کہتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس سے موت تک واقع ہو جاتی ہے ۔
۞۞ماہ صفر کے فضائل واعمال۞۞اس مہینے کی فضیلت یا مخصوص اعمال کی کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری، اس مہینہ میں معمول کی عبادت ہے۔البتہ اس ماہ سے منسوب باطل نظریات و توہمات سے دور رہنے کا حکم فرمایا ہے
صفر کے ساتھ لفظ،، المظفر،، یا،، الخیر،، کا اضافہ کیوں؟
چونکہ زمانئہ جاہلیت میں عرب کے لوگ ماہ صفر کو منحوس، بدشگون اور بُرا سمجھتے تھے اور بڑے عجیب وغریب قسم کے خیالات رکھتے تھے کہ اس مہینے میں آفات ومصائب نازل ہوتی ہے، اسلئے اسے،، صفرالمظفر،، یاصفرالخیر،،. کہا گیا تاکہ اسے نحوست والا مہینہ نہ سمجھا جائے، مظفر، کا معنی کامیابی، اور خیر،. کا معنی نیکی، سلامتی اور برکت کے ہیں
افسوس! آج بھی زمانئہ جاہلیت کے وہ فاسدخیالات اورباطل عقائد ہمارے معاشرے میں نسل درنسل چلے آرہے ہیں ۔اسی لئے اس ماہ میں خوشی کی تقریبات مثلاً،، شادی بیاہ، لڑکی کی رخصتی،. ختنہ اورعقیقہ وغیرہ سے مکمل احتراز کیا جاتا ہے،
نحوست کو دور کرنے کیلئے مختلف ٹوٹکے اورعملیات کیے جاتے ہیں، اوراگرکوئی حادثہ یا غمناک واقعہ یا کسی کام میں ناکا می ہوجائے تو کہتے ہیں کہ یہ دن یا یہ مہینہ یا یہ تاریخ ہی منحوس تھی۔ اَسْتَغْفِرُاللہ
۩ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،، ۔
آدمؑ کی اولادزمانےکو گالی دیتی ہے زمانےکو بُرا کہتی ہے، حالانکہ زمانہ تو میں ہوں، رات دن کی گردش میرے ہاتھ میں ہے، ۔صحیح البخاری: ۸۔/۴۱(۶۱۸۱) کتاب الادب ۔ایک دوسری روایت میں ہے رات دن کو میں بدلتا ہوں، اور جب چاہوں گا تو اس کو اُلٹ پلٹ کر ختم کردونگا، ۔صحیح مسلم: ۴۔/۱۷۶۲(۲۲۴۶) (۳) کتاب الالفاظ من الادب وغیرھا، ایک روایت میں ہے ابن آدمؑ زمانے کو گالی دے کر مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، ۔صحیح البخاری کتا ب التفسیر، ۶۔/۱۳۳(۴۸۲۶)
مطلب یہ ھیکہ بعض لوگ حوادثاتِ زمانہ سے متاثر ہوکرزمانے کو بُراکہنے لگتے ہیں،
حالانکہ زمانہ کوئی کام نہیں کرتا، زنانے میں جو واقعات اور حودثات رونما ہوتے ہیں اور جوانقلاب ہوتے رہتے ہیں، وہ تمام حضرت حق تعالیٰ کی مشیت اور ان کے حکم سے ہوتے ہیں، لوگ اپنی بے وقوفی سے یا جان بوجھ کر زمانے کو بُرا کہتے ہیں،
گالیاں دیتے ہیں، زمانے کو بُرا کہنا در حقیقت اللہ تعالیٰ کو بُرا کہنا ہے، کیونکہ اصل فاعل تو وہ ہیں اسلئے اس فعل سے منع فرمایا، الھدایۃ السینہ فی الاحادیث القدسیہ(المعروف، خاکی باتیں) ص۔۲۳: ۲۴۔
نیزاس ماہ میں بے شمارخیر کے کام ہوئے ہیں، مثلاً، مکہ سےمدینہ ہجرت، غارثور میں داخلہ، رحمۃ للعالمین ؐ کی صاحبزادیوں کے نکاح، کئی حضرات کے قبول اسلام وغیرہ، نیزفتح خیبروغیرہ بھی اس مہینہ میں ہوئیں، ان خیر کے کاموں کا ہوناہی اس بات کی علامت ہے کہ یہ مہینہ نحوست اوربے برکتی وناکامی کا نہیں ہے، کتاب الفتاویٰ۔ ۱۔/۳۹۲/۳۹۳۔فتاویٰ رحیمہ ۲۔/۶۷
۩ ۔ ایک من گھڑت روایت سے استدلال اوراس کا جواب""
بعض لوگ ماہ صفر کے منحوس ہونے پر ایک مشہور روایت کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
مَنْ بَشَّرَ نِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ ، بِشَّرْ تُہُ بِالْجَنَّۃِ
،، جوشخص مجھکو ماہ صفرکے گزرنے کی بشارت دےگا، میں اسے جنت کی بشارت دونگا،، ۔
٭ ۔ جواب ۔دشمنان اسلام نے سرور ے عالمؐ کی طرف منسوب بہت سی روایت جھوٹی روایات پھیلائی ہیں، انہی میں سے ایک درج بالاروایت ہے، مشہور محدث مُلاعلی القاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس روایت کو بے اصل اور موضوع قرار دیا ہے، اسکے علاوہ اور اَئمہ حدیث مثلاً، علامہ عجلونی ؒ، قاضی شوکانی ؒ اور علامہ طاہر پٹنی ؒ وغیرہ ہم نے بھی اسکو بے اصل کہا ہے، اور من گھڑت روایت سے استدلال کرنا سرا سر جہالت ہے،
ماہ صفر کے منحوس ہونے کی اس من گھڑت روویت کے بالمقابل ماہ صفرکے بارے میں بےشمار صحیح احادیث موجود ہیں، جوماہ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں اسلئے صحیح احادیث کے مقابلہ میں ایک من گھڑت روایت پر عمل کرنا خلاف عقل بھی ہے،
اگر بالفرض اس روایت کو صحیح تسلیم کر کے الفاظ پر غور کیا جائےتوبھی ان الفاظ سے ماہ صفر کی نحوست ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اسکا صحیح مطلب اورمصداق یہ ہوگا کہ آپؐ کی وفات ماہ ربیع الاوّل میں ہونے والی تھی اور آپ موت کے بعداللہ کی ملاقات کے مشتاق تھے، اسلئے ربیع الاوّل کے شروع ہونے اورصفرکے گزرجانے کی خبرکا آپؐ کو انتظارتھا، پس اس خبرکے لانے پر آپؐ نے بشارت کو مرتب فرمایا، چنانچہ تصوف کی بعض کتابوں میں اسی مطلب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس روایت کو ذکر کیا گیا ہے، ۩ سال بھر کے مسنون اعمال! ۸۔/۹ (بتغیر) وغیرہ
المختصر! اس من گھڑت وبے اصل حدیث کی نسبت رسول اللہ ؐ کی طرف کرنا، بیان کرنا اور اسکے مطابق اپنا ذہن بنانا یا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے(مستفادکتب اکابر)
۩۔ ماہ صفر کی دو اہم بدعات""
جاہل وبے دین لوگوں اور اسلام دشمن عناصرنے ماہ صفر المظفر میں دین کے نام پر بے شمار من گھڑت رسومات وبدعات اور فاسد عقائد داخل کر رکھے ہیں جو آج بھی ہمارے اسلامی معاشرے میں عوامی سطح پر رائج ہیں،
حالانکہ ان کا تعلق وجودڑ کسی بھی طرح دین اسلام سے نہیں،
مثلاً۔ جنات کا آسمان زمیں پر اُتر نا، مکڑی کے جالے صاف کرنا، وغیرہ ۔زمانئہ جاہلیت میں،، نسئی کی رسم،،. یعنی نفسانی اغراض پر حرمت والے مہینوں میں ردّ وبدل(آگے پیچھے ) کرنا اب دو مشہور بدعت جن کے گرد تقریباً ساری بدعت وخرافات گھومتی ہیں،
٭اسکی تفصیل مع انکا حکم ملاحظہ فرمائے٭
۞۔۱۔ تیرہ تیری کی بدعت!! بعض لوگ کہتے ہیں کی ماہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن نہایت منحوس بُرے اور سخت ہیں، کیونکہ ان دنوں میں رسول اللہ ؐ بھی سخت بیمار ہوگئے تھے، یہ بیماری اسی نحوست کا اثرہے، تیرہ سے مراد.،، ۱۳۔ کا ہند سہ.، اور تیری سے مراد.،،. سختی اورپریشانی ہے،. بعض جگہ لوگ تیرہ تاریخ کو،، چنے اُبال کر، تقسیم کرتے ہیں. تاکہ بلائیں اور نحوستیں دور ہو جائیں ۔
یاد رکھے! ان سب باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں یہ صرف توہمُّ پرستی اور مشرکین کے عقیدہ کی اقتداء کرنا ہے،،. نیز رسول اللہ ؐ اپنے مرض وفات میں تیرہ دن بیمار رہے ہیں، مگر وہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن نہیں بلکہ صفر کے آخری ربیع الاوّل کے ابتدائی آیام تھے۔
۩۔۲۔آخری چہار شنبہ (بدھ) کی بدعت""
لوگ اس دن کوشیاں مناتے ہیں،. مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں، چھٹی کرنے کو اجرو ثواب سمجھتے ہیں، سیر وتفر یح کیلئے جاتے ہیں،
بعض جگہ اس دن روزہ رکھا جاتا ہے، اور ایک خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے، وجہ یہ بیان کی جاتی ہیکہ، اس دن رسول اللہؐ کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسل صحت فرمایا تھا، نیزبہت سے لوگ اس دن تعویذ بناکر مصیبتوں اور بیماریوں سے بچنے کی غرض سے پہنتے ہیں۔
یاد رکھے! یہ مشہور بات بالکل غلط اور بے اصل ہے،
حقیقت یہ ہیکہ اس دن ۔ صفر کے آخری بدھ ۔ سے تو آپؐ کے مرض کی شدت ۔، مرض وفات، ۔ کا آغاز ہوتھا، جس پر یہودیوں نے عداوت وشقاوت اور اپنے کینہ و بغض کی وجہ سے خوشی کی تھی ۔ ایرانی مجو سیوں سے منتقل ہوکر ہندوستان میں آئی اور یہاں کے بے دین بادشاہوں نے اسے پروان چڑھا یا ۔
المختصر ۔ یہ یہودیوں اور مجوسیوں کی رسم اور ایجاد فی الدیں ۔،. بدعت، ۔ ہے اہل اسلام کا اسکا اہتمام کرنا اور خوشی منانا سخت بے عیزتی وبے ادبی کی بات ہے۔۔
تاریخ ابن اثیر،. تاریخ طبری اوّل البدایۃ والنھایۃ ۔ جلد ۵۔ مظا ہر حق جدید،. ۵۔ ۵۲۳۔ کفایت الفتی ۔ ۲۔ ۸۴ احسن الفتاویٰ ۔۱۔ ۳۶۰۔ ۱۰۔ ۵۸
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور تمام خرافات وبد عات سے محفوظ رکھے آمین
واللہ اعلم با لصواب