وقف بورڈ کا چیئر مین وقف کا محافظ ہوتا ہے مالک نہیں
مسجد کے لئے جو جگہ وقف ہو جائے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے - مولانا سید ارشد مدنی
نئی دہلی-۱۶/اکتوبر: سپریم کورٹ میں آج جو کچھ ہوا اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ بابری مسجد کے سلسلہ مسلمانانِ ہند کا موقف وہی ہے جس کا اظہار جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے بار بار کیا جا چکا ہے یعنی جو جگہ مسجد کے لئے وقف کردی جائے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے، اس کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، اس لئے نہ تو مسلمان دست بردار ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق و شواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کر کے یا کسی مندر کی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے، انہوں نے وضاحت کی کہ مسجد وقف علی اللہ ہوتی ہے، اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ وہ مسجد کی زمین واپس لے اور وقف بورڈ کا صدر یا چیئرمین صرف اس کا منتظم اور کیئر ٹیکر ہوتا ہے، مالک نہیں۔ یہ تولیت کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ ملکیت کے حق کا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ ہر طرح کی مصالحت کی کوشش کے ناکام ہونے کہ بعد ہی عدالت میں حتمی بحث شروع ہوئی تھی، مگر اب آخری لمحوں میں یہ جو کچھ ہوا اس پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے، یہ مسلمانوں کو نفسیاتی اور اخلاقی طور پر پست ہمت کرنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہو سکتی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملہ میں ابتدا ہی سے حق اور انصاف کی جگہ طاقت اور زبردستی کا ہی مظاہرہ ہوتا آیا ہے، مسجد کے اندر رات کے اندھیرے میں جبراً مورتیاں رکھی گئیں، مسلمانوں نے انصاف طلب کیا تو نماز پر پابندی عائد کرکے مسجد میں تالا لگا دیا گیا، اس کے بعد ایک مقامی عدالت کے فیصلہ کی آڑ میں تالا کھول تو دیا گیا مگر مسلمانوں کو مسجد میں داخل ہونے کا حق نہیں دیا گیا اور بالآخر 6/دسمبر 1992 کو تو آئین وقانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسے شہید بھی کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ ملک کے دستور میں ہمیں جو اختیارات دیئے ہیں ان کا سہارا لیکر ہم انصاف کی جنگ قانونی سطح پر لڑتے آئے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آئندہ بھی لڑیں گے انہوں نے آگے کہا کہ مسلمان ملک کے آئین قانون اور عدلیہ پر مکمل یقین رکھتے ہیں ان کا پوری طرح احترام کرتے ہیں چنانچہ وہ اس معاملہ میں عدالت کے فیصلہ کے منتظر ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر وضاحت کی کہ کسی وقف بورڈ یا اس کے صدر کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وقف شدہ آراضی کسی کو فروخت کرے یا تحفہ میں دے کیونکہ وہ صرف وقف کا نگراں اور محافظ ہوتا ہے، دوسرے وقف بورڈ کی حیثیت سرکاری ہوتی ہے، کل کو سرکار اگر چاہے تو وقف بورڈ کو تحلیل یا ختم کرسکتی ہے تو کیا اس سے وقف اور وقف آراضی کی بھی حیثیت ختم ہوجائے گی؟ نہیں بالکل نہیں وقف آراضی کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ ہی وقف کے تعلق سے شریعت کے حکم میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے۔ مولانا مدنی نے آخر میں اپنے وکلاء کی ٹیم اور خاص طور پر ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی خدمات کا اعتراف کیا اور ان کا اس بات کیلئے ایک بار پھر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے نہ صرف مسجد کے حق میں ایک مؤثر بحث کی بلکہ عدالت کے سامنے تمام ثبوت و شواہد بھی بہتر انداز میں رکھے اور مخالف فریق کے وکلاء کی بحث کا معقول جواب بھی دئے۔
مسجد کے لئے جو جگہ وقف ہو جائے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے - مولانا سید ارشد مدنی
نئی دہلی-۱۶/اکتوبر: سپریم کورٹ میں آج جو کچھ ہوا اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ بابری مسجد کے سلسلہ مسلمانانِ ہند کا موقف وہی ہے جس کا اظہار جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے بار بار کیا جا چکا ہے یعنی جو جگہ مسجد کے لئے وقف کردی جائے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے، اس کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، اس لئے نہ تو مسلمان دست بردار ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق و شواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کر کے یا کسی مندر کی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے، انہوں نے وضاحت کی کہ مسجد وقف علی اللہ ہوتی ہے، اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ وہ مسجد کی زمین واپس لے اور وقف بورڈ کا صدر یا چیئرمین صرف اس کا منتظم اور کیئر ٹیکر ہوتا ہے، مالک نہیں۔ یہ تولیت کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ ملکیت کے حق کا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ ہر طرح کی مصالحت کی کوشش کے ناکام ہونے کہ بعد ہی عدالت میں حتمی بحث شروع ہوئی تھی، مگر اب آخری لمحوں میں یہ جو کچھ ہوا اس پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے، یہ مسلمانوں کو نفسیاتی اور اخلاقی طور پر پست ہمت کرنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہو سکتی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملہ میں ابتدا ہی سے حق اور انصاف کی جگہ طاقت اور زبردستی کا ہی مظاہرہ ہوتا آیا ہے، مسجد کے اندر رات کے اندھیرے میں جبراً مورتیاں رکھی گئیں، مسلمانوں نے انصاف طلب کیا تو نماز پر پابندی عائد کرکے مسجد میں تالا لگا دیا گیا، اس کے بعد ایک مقامی عدالت کے فیصلہ کی آڑ میں تالا کھول تو دیا گیا مگر مسلمانوں کو مسجد میں داخل ہونے کا حق نہیں دیا گیا اور بالآخر 6/دسمبر 1992 کو تو آئین وقانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسے شہید بھی کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ ملک کے دستور میں ہمیں جو اختیارات دیئے ہیں ان کا سہارا لیکر ہم انصاف کی جنگ قانونی سطح پر لڑتے آئے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آئندہ بھی لڑیں گے انہوں نے آگے کہا کہ مسلمان ملک کے آئین قانون اور عدلیہ پر مکمل یقین رکھتے ہیں ان کا پوری طرح احترام کرتے ہیں چنانچہ وہ اس معاملہ میں عدالت کے فیصلہ کے منتظر ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر وضاحت کی کہ کسی وقف بورڈ یا اس کے صدر کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وقف شدہ آراضی کسی کو فروخت کرے یا تحفہ میں دے کیونکہ وہ صرف وقف کا نگراں اور محافظ ہوتا ہے، دوسرے وقف بورڈ کی حیثیت سرکاری ہوتی ہے، کل کو سرکار اگر چاہے تو وقف بورڈ کو تحلیل یا ختم کرسکتی ہے تو کیا اس سے وقف اور وقف آراضی کی بھی حیثیت ختم ہوجائے گی؟ نہیں بالکل نہیں وقف آراضی کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ ہی وقف کے تعلق سے شریعت کے حکم میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے۔ مولانا مدنی نے آخر میں اپنے وکلاء کی ٹیم اور خاص طور پر ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی خدمات کا اعتراف کیا اور ان کا اس بات کیلئے ایک بار پھر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے نہ صرف مسجد کے حق میں ایک مؤثر بحث کی بلکہ عدالت کے سامنے تمام ثبوت و شواہد بھی بہتر انداز میں رکھے اور مخالف فریق کے وکلاء کی بحث کا معقول جواب بھی دئے۔