کیا وقعی ہم مسلمان ہیں؟
انظرالاسلام بن شبیراحمد
جب سے ہوش سنبھالا۔ جو صورتحال دیکھا۔ قومی سیاست و معاملات بارے جن جن کربناک حالات، سانحات سے گزرنا پڑا مگر پھر بھی دل میں کبھی بے اطمینانی پیدا نہیں ہوا تھا۔ شک و شبہ کے جوار بھاٹا سے گزرنا نہیں پڑا تھا۔ مگر ایک دو سال سے ہمارا ملک جن اندوہناک حالات، بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ اس نے ہمارے ہر شخص کے دل میں طوفان پیدا کر رکھا ہے۔ جس طرح مسجدوں کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ نماز پڑھتے معصوم و جوان، بوڑھے لوگوں کو بموں سے چھلنی کیا گیا۔ وہ کیا ہے؟ اب تو اٹھتے بیٹھتے یہی سوال دماغ میں ہلچل پیدا کئے رکھتا ہے کہ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟ کون کہتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں؟ اگر مسلمان ہیں تو دہشت گرد کیوں کہلائے؟ مسجدوں میں بم دھماکے کیوں کرتے ہیں؟ مسلمان ہوتے تو ایسا کیوں کرتے؟ صرف ’’محمد سلیم یا محمد رفیق‘‘ نام رکھ لینے سے تو کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا؟ مسلمان بننے کیلئے تو اپنے دین مبین پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ ہم مسلمان نہیں ہیں بلکہ ہمارے نام مسلمانوں والے ہیں۔ ہماری عادات بد ’’دین خبثیہ‘‘ کی پیداوار ہیں۔ اس ’’دین خبثیہ‘‘ کی جو ہم نے اپنی ذاتوں، اپنے گھروں، اپنے معاشروں میں خود سے اپنی پسند سے نافذ کیا ہے۔ مسلمان تو ایک درخت کا پتا تک نہیں توڑ سکتا، یہاں نام کے مسلمان تو مخالفوں کا پانی بند کر دیتے ہیں۔ فصلیں نذر آتش کر دی جاتی ہیں۔ باپ بیٹے کا بیٹا باپ کا دشمن ہے، دشمنی تو اسلام میں کہیں نظر نہیں آتی حتیٰ کہ میدان جنگ میں بھی بچوں، عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کا حکم نہیں۔ مگر سوئے اتفاق سے مسلمان گھرانوں میں جنم لینے والے ’’نام کے مسلمان‘‘ تو بغیر کسی وجہ کے کبھی ہوس زر میں کبھی دشمنی میں بچوں کو اغواء کر لیتے ہیں، کبھی تاوان کے بدلہ میں اندھے ہو کر کئی گھرانوں کے چراغ گل کر دیتے ہیں۔ اسلام تو ایک کے بعد دوسری نظر ’’صنف مخالف‘‘ پر ڈالنے سے منع کرتا ہے مگر یہاں ’’نام کے مسلمان‘‘ طوائفوں کے گرد ناچتے زندگی گزار دیتے ہیں۔ دن دیہاڑے معصوم بچیاں ہوس کی اندھی گلی میں جا اترتی ہیں مگر قاضی کا قانون ’’بڑے ہاتھیوں کے گھر کی دہلیز‘‘ پر ہاتھ باندھے سسک رہا ہے۔ گلی گلی، محلہ محلہ رقص و سرور کی محفلیں گرمائی جاتی ہیں۔ جبکہ ہم نے تو یہی پڑھا، سنا ہے کہ اسلام میں موسیقی ناچ گانا حرام ہے تو جب حرام چیزوں کا چلن عام ہو گا۔ حق حلال، جھوٹ، سچ کی تمیز مٹ جائے گی تو ہم کس منہ سے اسلام کا نام لے سکتے ہیں۔ ہم بھلا کیوں کر مسلمان ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ایک مسلمان کی نظر سجدے کی جگہ پر، ہاتھ میں تسبیح، کان قرآن پاک کی تلاوت کریمہ سننے میں ہونا چاہئیں مگر یہ تو چودہ سو سال پہلے والے مسلمان تھے۔ ہم آج کے سامراج کی اغراض میں بندھے چوہے ہیں۔ مسلمان نہیں۔ مسلمان کو تو غیر مسلم کا خون کرنے کی اجازت نہیں۔ یہاں تو مسلمان، مسلمان کا خون بہا رہے ہیں۔ دینی مراکز کو دہشت گردی کے اڈوں میں بدل دیا گیا ہے۔ مسلمان تو اپنی جان نہیں لے سکتا تو اب وہ کونسے مسلمان ہیں جو جسموں سے بم باندھ کر سو، دو سو بندے پھڑکا دیتے ہیں؟ اسلام تو امن و آشتی کا درس دیتا ہے۔ اس درس کے ماننے والے تو مسلمان ہو سکتے ہیں۔ مگر گونگے کانوں سے درس سننے والے مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ محض چند لمحوں کی اٹھک بھیٹک (نماز) کرنے والے بھی مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ مسلمان تو امن کی شاہراہ کا راہ گزار ہے۔ سکون و عافیت کی وادی کا باسی ہے۔ جنت کا متلاشی ہے۔ لائن میں لگا کاغذات تھامے امریکی و برطانوی خوشنودی، ویزے کا طلبگار مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یورپی ممالک خوشحالی کی منزل پر پہنچے تو انہوں نے زندگی کو پرلطف۔ یادگار بنانے کے سینکڑوں طریقوں کے علاوہ انسانی رشتوں کے بندھن کو مضبوط بنانے کی رو سے {}’’فادرز ڈے، مدر ڈے‘‘ منانے کی ریت ڈالی۔ رشتوں سے آگے بڑھ کر مختلف ایام وغیرہ بھی منائے جانے لگے۔ اسلام ایک آفاقی پیغام لئے ہوئے ہمارا دین صرف مسلمانوں کیلئے خیر و برکت کا مرکز نہیں بلکہ ہراس شخص کیلئے باب رحمت کھولے ہوئے ہے جو آگے بڑھ کر اس کا دامن تھام لے۔ یہ صرف مسلمانوں کا مسیحا نہیں۔ روئے کائنات پر بسنے والے کیڑے مکوڑوں پر رحم، ترس، نرمی کے احکامات سناتا دکھائی دیتا ہے تو پھر سوچئیے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے۔ زمین پر ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کا خلیفہ ہے۔ اس کیلئے ایک آیت ایک سورۃ نہیں قرآن پاک کا چوتھائی حصہ نیکی و بھلائی کا حکم دیتا۔ خدمت انسانی کی تلقین سے بھرا ہوا ہے۔ اسلام صحیح معنوں میں دکھی انسانیت کا مسیحا ہے۔ ہر ذی نفس کو چاہے دنیا کے کسی بھی خطہ میں موجود ہو۔ باہمی ملاپ۔ آپسی خدا ترسی۔ نیکی کے سفر کا پیغام بر ہے۔ جو مزہ نیکی کی شاہراہ پر سفر کر کے حاصل ہوتا ہے وہ بار آور ہے۔ اس کا مزہ تا ابد ہے۔ جو سکون مخلوق کی خدمت کرنے سے ملتا ہے وہ سکون دلوں کو رونق بخشتا اور چہروں پر زندگی کی رمق پیدا کرتا ہے۔
اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو کیا مسلمان ہونے کے تقاضوں سے آشنا بھی ہیں کہ نہیں۔ ۔ ۔ ؟ کیا ہم ان تقاضوں پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں۔ ۔ ۔ ؟ دل کی گہرائیوں سے اٹھتی، عمل کی جانب مہمیز کا کردار ادا کرتی ہوئی خوبصورت تحریر۔ ۔ ۔ جسے پڑھ کر آپ یقینا بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے
اسلام ایسا جامع دین ہے جو زندگی میں پیش آمدہ جملہ معاملات کی جزئیات تک ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ جدید مصروفیات مسلمانوں کو دین سے دور لئے جا رہی ہیں ضروری ہے کہ کم از کم فرائض دینی کا ایک جامع نقشہ ہر وقت پیش نظر رہے تاکہ اس کے مطابق عمل کر کے کامیابی کے سفر پر گامزن رہیں۔ اس حوالے سے ترجیحات کا درست تعین بہت ضروری ہے تاکہ تفصیلات میں الجھ کر منزل کھوٹی نہ کر بیٹھیں کیونکہ عقل مند طالب علم صرف انہی سوالوں کی تیاری کرتے ہیں جو امتحانات میں پوچھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت، تقدیر اور مرنے کے بعد زندگی پر پختہ ایمان کے بعد بحیثیت مسلمان ہم پر دو طرح کے فرائض عائد ہوتے ہیں کیونکہ انسانی زندگی بے مقصد نہیں ہوسکتی یہی مسلمانی کے تقاضے ہیں۔
1۔ ذاتی اصلاح
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو کتابوں اور رسولوں کے ذریعے زندگی گزارنے کا طریق کار بھی بتادیا لہذا ۔ذاتی ترقی۔ کے لئے نماز، روزہ، زکوۃ اور حج جیسے ارکان کی ادائیگی بنیادی اہمیت کی حامل ٹھہری۔ جس طرح مشینیں بنانے والے انہیں چلانے کے لئےہدایات کے ساتھ کتابچے بھی فراہم کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی کے لئے قرآن مجید کو نازل کیا۔ قرآن مجید سے احکامات خداوندی معلوم کرکے ان پر عمل پیر اہوتے ہوئے ہمیں تین محاذوں پر مقابلہ کرنا ہے :
نفس
شیطان
معاشرتی رسم و رواج
ان محاذوں پر قابو پاکر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ قوت ارادی سے کام لے کر نفس کی مخالفت کو موافقت میں بدل کر ہر عبادت میں چاہت کا رنگ بھرنا زندگی کا پہلا مرحلہ ہے۔ جب جملہ فرائض اور واجبات برضا و رغبت ادا ہونے لگیں اور زندگی کی ایک ایک ادا میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی جھلک نظر آنے لگے تو سمجھ لیں کہ آپ منزل کے قریب پہنچ گئے۔
2۔ معاشرتی اصلاح
اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایمان کا اعلیٰ درجہ حاصل کرنے کے لئے صرف ذاتی طور پر نیک بن جانا ہی کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ حسب استطاعت معاشرتی اصلاح کی بھرپور کوشش بھی کی جائے۔ جملہ جدید ذرائع استعمال کر کے دوسروں کو سچائی کا راستہ دکھانا ایک لازمی فریضہ ہے ورنہ اللہ کی بارگاہ میں باز پرس ہوگی۔ اگرچہ ایک آیت یا ایک بات ہی معلوم ہو اسے ہی آگے منتقل کیا جائے۔ برائی کے خلاف جہاد بھی اسی لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ معاشرے سے برائی کی قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور اس طرح نیکی کے لئے ایک سازگار ماحول میسر آسکے۔
اللہ تعالیٰ کو ہمارے اموال اور اعمال کی حاجت نہیں، ان کی ادائیگی ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ اسلام میں عبادت ’’پوجا پاٹ‘‘ نہیں بلکہ ایک مستقل نظام طرز حیات ہے جس کی تفصیلات قرآن و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوتی ہیں۔ قرآن اور صاحب قرآن کے ساتھ قلبی اور حبی تعلق کامیابی کی چابی ہے پھر مشکل سے مشکل کام بھی آسان لگے گا۔ حصول علم کا مقصد خدا کی پہچان ہے۔ خدا خوفی کے بغیر معاشرہ کسی جنگل کا منظر پیش کرتا ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے اور عدل و انصاف کا خون ہوجاتا ہے۔ ہماری سرگرمیوں کا ایک رخ اللہ کی جانب اور دوسرا اس کے بندوں کی طرف ہوتا ہے لہذا ہمیں حقوق کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد
اللہ کے ساتھ خوف و امید، تقویٰ و طہارت، توکل و استقامت، شکر و دعا، توبہ و استغفار، عجزو انکسار، تسلیم و اطاعت، تسبیح و ثناء، ذکر و فکر اور انفاق و استعانت کا معاملہ رکھا جائے اور شرک سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ اس کے ساتھ عبادت اور محبت میں غلو کیا جائے۔
جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے اس کے کئی رخ ہیں۔ والدین، اولاد، دوست احباب، رشتہ دار، پڑوسی، عام لوگ، بیمار، غریب لوگ، اہل کتاب، غیر مسلم حتی کے دشمنوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات پیدا کئے جائیں۔ کسی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ نفس کو قابو کرتے ہوئے اس کے حقوق بھی پامال نہ کئے جائیں۔
اس کے علاوہ کچھ آداب و اخلاق کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہاں چند گوشوں کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے۔
1۔ آداب
زندگی کے ہر معاملہ اور تعلقات میں آداب کو ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ کسی معاملے کو اس کے آداب سے ہٹ کر بجا لانے سے وہ کام ہو تو جاتا ہے۔ مگر اس کی اصل روح مجروح ہوتی ہے۔ لہذا اسلام نے ہمیں بول چال، تلاوت، صحبت، مجلس، شکار، ذبح، ازدواجی تعلقات، جسمانی اعضاء، اسلام، ملاقات، خط و کتابت، حاکم و محکوم، مکہ و مدینہ، مسجد، قسم، دعا، غسل، وضو، تعلیم بیت الخلاء، تجہیز و تکفین، عبادت، نکاح و طلاق، سفر، لباس، چھینک، جمائی، ہنسنا، رونا، کھانا پینا، نیند، بازار، والدین، اساتذہ اور دیگر معاملات کے بارے میں جو آداب سکھائے گئے ہیں ان کا لحاظ کیا جائے کیونکہ بے ادب مراد کو نہیں پاسکتا۔
2۔ اچھے اخلاق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں رب کائنات نے ارشاد فرمایا :
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم. ’’بے شک آپ اخلاق کے بلند مقام پر فائز ہیں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق.
’’بے شک مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے ہی مبعوث فرمایا گیا ہے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق خلقِ عظیم ہے۔ پس اسی تناظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کو بھی اسی اخلاقِ حسنہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہئے۔ لہذا ہمیں صداقت و امانت، توکل و استغناء، صبرو قناعت، جود و سخا، رحم و کرم، ایثار، ایفائے عہد، باہمی محبت، زبان و شرم گاہ کی حفاظت، کلام، منام اور طعام میں کمی، عجز و انکسار، ملنساری، عفو و درگزر، رواداری، شکر گزاری، استقامت، تسلیم و رضا، غصہ پر قابو، حوصلہ مندی، شرم و حیا، بردباری، صلح جوئی، امن پسندی، خندہ پیشانی، دوستانہ رویہ، خود احتسابی، تزکیہ و تصفیہ، ریاضت و مجاہدہ، حسن ظن، چشم پوشی، خدا خوفی اور وسعت نظری سے کام لیتے ہوئے ان اخلاق کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنانا چاہئے۔
3۔ برے اخلاق
اسلام کی تعلیمات میں جہاں اپنے ماننے والوں کو اخلاقِ حسنہ کی طرف راغب و مال کیا گیا وہاں برے اخلاق سے بچنے کے لئے بھی راہنمائی عطا فرمائی گئی۔ لہذا اخلاقِ حسنہ کی پیروی کے ساتھ ساتھ رذائلِ اخلاق جھوٹ، خیانت، بہتان بازی، اسراف، بخل، حسد، لالچ، دنیا اور منصب کی محبت، ریاکاری، شہرت اور بڑائی کی خواہش، فخر و تکبر، منافقت، غیبت، چغل خوری، عیب چینی، ظلم، قطع تعلق، قتل، گالی گلوچ، تمسخر، طنز، برے القابات، سخت دلی، بدمزاجی، کینہ، تعصب، خود پسندی، بدنیتی، سستی، لاپرواہی، مایوسی، خود غرضی، نفسانیت، بدگمانی، تجسس، دھڑے بندی، نفرت، احساس کمتری اور احساس برتری، سرگوشی، حیلے بہانے، کم چوری، دھوکہ دہی، شکایت بازی، لعن طعن، فتنہ و فساد، لاف زنی، فحش گوئی، خوشامد، ناجائز ستائش، شہوت، غصہ، کفران نعمت، بدنگاہی، لغویات، عجلت اور غیر مفید کھیل تماشوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے۔ چھوٹی موٹی غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں البتہ بڑے بڑے گناہوں سے مکمل اجتناب اور چھوٹے گناہوں پر اصرار سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔
4۔ کبیرہ گناہ
گناہ، صغیرہ ہو یا کبیرہ ہر دو صورت میں رب کائنات کے احکامات کی خلاف ورزی ہی ہے۔ البتہ صغیرہ گناہ انسان کی دیگر نیکیوں کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں مگر کبیرہ گناہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و قربت سے مزید دوری کا باعث بنتے ہوئے انسان کو ذلت و گمراہی کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ شرک، کفر، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، تہمت زنا، جادو، شراب نوشی، سود، بددیانتی، زنا، لواطت، قتل، چوری، ماں باپ کی نافرمانی، جہاد سے فرار، گناہ پر اصرار، رحمت الہٰی سے مایوسی، خوف الہٰی سے بے نیازی، حرام خوری، غضب اور فتنہ فساد کبیرہ گناہ ہی ہیں لیکن دور حاضر میں انہیں اتنے خوبصورت اور دلکش نام دے دئے گئے ہیں کہ احساس گناہ تک باقی نہیں رہا۔ ہر گناہ کو سند جواز عطا کی جارہی ہے لہذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ نفس کو گناہوں، نافرمانیوں اور اخلاقی آلودگیوں سے بچا کر رکھنا ہی تصفیہ اور تزکیہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَO الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَO وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَO إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَO فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَO وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَO أُوْلَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَO الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَO (المومنون : 1 تا 11)
’’بیشک ایمان والے مراد پا گئےo جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیںo اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیںo اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیںo اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیںo سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیںo پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیںo اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیںo اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیںo یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیںo یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی کی لذتوں کی کثرت ہوگی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گےo‘‘۔
درج بالا آیات سے ہمیں گناہوں، نافرمانیوں اور برے اخلاق سے بچنے کی طرف دعوت دی گئی ہے اور نیک اعمال کی طرف راغب کیا گیا ہے۔
اسی طرح حدیث جبرائیل سے دین کے تین بڑے شعبوں ایمان، اسلام اور احسان سے بھی عقائد، عبادت اور کیفیات کا پتہ چلتا ہے انہی کو پیش نظر رکھ کر خشوع و خضوع کا پیکر بننا ہے۔
خود احتسابی
روحانی ترقی کے لئے تھوڑا سا وقت نکال کر روزانہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیجئے۔ ۔ ۔ قول و فعل کا تضاد پریشانی اور بے اطمینانی کو جنم دیتا ہے، حقیقی سکون اللہ کو ہر وقت یاد رکھنے اور اس کے ساتھ تعلق محبت کو استوار کرنے میں ہے۔ سونے سے قبل بستر پر من میں جھانک کر اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ آج عقائد میں کہاں کہاں بگاڑ پیدا ہوا۔ ۔ ۔ اوقات کی تقسیم اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا کتنا لحاظ کیا اور کس قدر وقت ضائع ہو گیا۔ ۔ ۔ خلوص نیت کی کتنی کمی رہی عبادت میں کتنی سستی ہوگئی۔ ۔ ۔ لوگوں کے حقوق اور اپنے ذمہ فرائض کے حوالے سے کتنی کوتاہی ہوئی۔ ۔ ۔ مقصود حیات کے حوالے سے کتنا انحراف ہوا۔ ۔ ۔ آج کا دن کل سے بہتر تھا کہ نہیں۔ ۔ ۔ آنے والے دن کو بہتر بنانے کے لئے کیا سوچ بچار کیا۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
حرف آخر
دینِ اسلام کی تعلیمات اور ان کی حقیقی روح کا ایک خاکہ آپ کے سامنے موجود ہے اس میں حسن نیت اور حسن عمل کے موتی آپ نے پرونے ہیں۔ اسلامی تعلیمات پر کاربند رہنا، حقوق العباد کی ادائیگی پر کمر بستہ ہو جانا اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اجتناب کے بعد ہی صحیح معنوں میں احیائے اسلام و تجدیدِ دین کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا مسلمان بنا کر اپنی رضا سے فیضیاب فرمائے۔
انظرالاسلام بن شبیراحمد
جب سے ہوش سنبھالا۔ جو صورتحال دیکھا۔ قومی سیاست و معاملات بارے جن جن کربناک حالات، سانحات سے گزرنا پڑا مگر پھر بھی دل میں کبھی بے اطمینانی پیدا نہیں ہوا تھا۔ شک و شبہ کے جوار بھاٹا سے گزرنا نہیں پڑا تھا۔ مگر ایک دو سال سے ہمارا ملک جن اندوہناک حالات، بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ اس نے ہمارے ہر شخص کے دل میں طوفان پیدا کر رکھا ہے۔ جس طرح مسجدوں کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ نماز پڑھتے معصوم و جوان، بوڑھے لوگوں کو بموں سے چھلنی کیا گیا۔ وہ کیا ہے؟ اب تو اٹھتے بیٹھتے یہی سوال دماغ میں ہلچل پیدا کئے رکھتا ہے کہ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟ کون کہتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں؟ اگر مسلمان ہیں تو دہشت گرد کیوں کہلائے؟ مسجدوں میں بم دھماکے کیوں کرتے ہیں؟ مسلمان ہوتے تو ایسا کیوں کرتے؟ صرف ’’محمد سلیم یا محمد رفیق‘‘ نام رکھ لینے سے تو کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا؟ مسلمان بننے کیلئے تو اپنے دین مبین پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ ہم مسلمان نہیں ہیں بلکہ ہمارے نام مسلمانوں والے ہیں۔ ہماری عادات بد ’’دین خبثیہ‘‘ کی پیداوار ہیں۔ اس ’’دین خبثیہ‘‘ کی جو ہم نے اپنی ذاتوں، اپنے گھروں، اپنے معاشروں میں خود سے اپنی پسند سے نافذ کیا ہے۔ مسلمان تو ایک درخت کا پتا تک نہیں توڑ سکتا، یہاں نام کے مسلمان تو مخالفوں کا پانی بند کر دیتے ہیں۔ فصلیں نذر آتش کر دی جاتی ہیں۔ باپ بیٹے کا بیٹا باپ کا دشمن ہے، دشمنی تو اسلام میں کہیں نظر نہیں آتی حتیٰ کہ میدان جنگ میں بھی بچوں، عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کا حکم نہیں۔ مگر سوئے اتفاق سے مسلمان گھرانوں میں جنم لینے والے ’’نام کے مسلمان‘‘ تو بغیر کسی وجہ کے کبھی ہوس زر میں کبھی دشمنی میں بچوں کو اغواء کر لیتے ہیں، کبھی تاوان کے بدلہ میں اندھے ہو کر کئی گھرانوں کے چراغ گل کر دیتے ہیں۔ اسلام تو ایک کے بعد دوسری نظر ’’صنف مخالف‘‘ پر ڈالنے سے منع کرتا ہے مگر یہاں ’’نام کے مسلمان‘‘ طوائفوں کے گرد ناچتے زندگی گزار دیتے ہیں۔ دن دیہاڑے معصوم بچیاں ہوس کی اندھی گلی میں جا اترتی ہیں مگر قاضی کا قانون ’’بڑے ہاتھیوں کے گھر کی دہلیز‘‘ پر ہاتھ باندھے سسک رہا ہے۔ گلی گلی، محلہ محلہ رقص و سرور کی محفلیں گرمائی جاتی ہیں۔ جبکہ ہم نے تو یہی پڑھا، سنا ہے کہ اسلام میں موسیقی ناچ گانا حرام ہے تو جب حرام چیزوں کا چلن عام ہو گا۔ حق حلال، جھوٹ، سچ کی تمیز مٹ جائے گی تو ہم کس منہ سے اسلام کا نام لے سکتے ہیں۔ ہم بھلا کیوں کر مسلمان ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ایک مسلمان کی نظر سجدے کی جگہ پر، ہاتھ میں تسبیح، کان قرآن پاک کی تلاوت کریمہ سننے میں ہونا چاہئیں مگر یہ تو چودہ سو سال پہلے والے مسلمان تھے۔ ہم آج کے سامراج کی اغراض میں بندھے چوہے ہیں۔ مسلمان نہیں۔ مسلمان کو تو غیر مسلم کا خون کرنے کی اجازت نہیں۔ یہاں تو مسلمان، مسلمان کا خون بہا رہے ہیں۔ دینی مراکز کو دہشت گردی کے اڈوں میں بدل دیا گیا ہے۔ مسلمان تو اپنی جان نہیں لے سکتا تو اب وہ کونسے مسلمان ہیں جو جسموں سے بم باندھ کر سو، دو سو بندے پھڑکا دیتے ہیں؟ اسلام تو امن و آشتی کا درس دیتا ہے۔ اس درس کے ماننے والے تو مسلمان ہو سکتے ہیں۔ مگر گونگے کانوں سے درس سننے والے مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ محض چند لمحوں کی اٹھک بھیٹک (نماز) کرنے والے بھی مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ مسلمان تو امن کی شاہراہ کا راہ گزار ہے۔ سکون و عافیت کی وادی کا باسی ہے۔ جنت کا متلاشی ہے۔ لائن میں لگا کاغذات تھامے امریکی و برطانوی خوشنودی، ویزے کا طلبگار مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یورپی ممالک خوشحالی کی منزل پر پہنچے تو انہوں نے زندگی کو پرلطف۔ یادگار بنانے کے سینکڑوں طریقوں کے علاوہ انسانی رشتوں کے بندھن کو مضبوط بنانے کی رو سے {}’’فادرز ڈے، مدر ڈے‘‘ منانے کی ریت ڈالی۔ رشتوں سے آگے بڑھ کر مختلف ایام وغیرہ بھی منائے جانے لگے۔ اسلام ایک آفاقی پیغام لئے ہوئے ہمارا دین صرف مسلمانوں کیلئے خیر و برکت کا مرکز نہیں بلکہ ہراس شخص کیلئے باب رحمت کھولے ہوئے ہے جو آگے بڑھ کر اس کا دامن تھام لے۔ یہ صرف مسلمانوں کا مسیحا نہیں۔ روئے کائنات پر بسنے والے کیڑے مکوڑوں پر رحم، ترس، نرمی کے احکامات سناتا دکھائی دیتا ہے تو پھر سوچئیے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے۔ زمین پر ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کا خلیفہ ہے۔ اس کیلئے ایک آیت ایک سورۃ نہیں قرآن پاک کا چوتھائی حصہ نیکی و بھلائی کا حکم دیتا۔ خدمت انسانی کی تلقین سے بھرا ہوا ہے۔ اسلام صحیح معنوں میں دکھی انسانیت کا مسیحا ہے۔ ہر ذی نفس کو چاہے دنیا کے کسی بھی خطہ میں موجود ہو۔ باہمی ملاپ۔ آپسی خدا ترسی۔ نیکی کے سفر کا پیغام بر ہے۔ جو مزہ نیکی کی شاہراہ پر سفر کر کے حاصل ہوتا ہے وہ بار آور ہے۔ اس کا مزہ تا ابد ہے۔ جو سکون مخلوق کی خدمت کرنے سے ملتا ہے وہ سکون دلوں کو رونق بخشتا اور چہروں پر زندگی کی رمق پیدا کرتا ہے۔
اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو کیا مسلمان ہونے کے تقاضوں سے آشنا بھی ہیں کہ نہیں۔ ۔ ۔ ؟ کیا ہم ان تقاضوں پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں۔ ۔ ۔ ؟ دل کی گہرائیوں سے اٹھتی، عمل کی جانب مہمیز کا کردار ادا کرتی ہوئی خوبصورت تحریر۔ ۔ ۔ جسے پڑھ کر آپ یقینا بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے
اسلام ایسا جامع دین ہے جو زندگی میں پیش آمدہ جملہ معاملات کی جزئیات تک ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ جدید مصروفیات مسلمانوں کو دین سے دور لئے جا رہی ہیں ضروری ہے کہ کم از کم فرائض دینی کا ایک جامع نقشہ ہر وقت پیش نظر رہے تاکہ اس کے مطابق عمل کر کے کامیابی کے سفر پر گامزن رہیں۔ اس حوالے سے ترجیحات کا درست تعین بہت ضروری ہے تاکہ تفصیلات میں الجھ کر منزل کھوٹی نہ کر بیٹھیں کیونکہ عقل مند طالب علم صرف انہی سوالوں کی تیاری کرتے ہیں جو امتحانات میں پوچھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت، تقدیر اور مرنے کے بعد زندگی پر پختہ ایمان کے بعد بحیثیت مسلمان ہم پر دو طرح کے فرائض عائد ہوتے ہیں کیونکہ انسانی زندگی بے مقصد نہیں ہوسکتی یہی مسلمانی کے تقاضے ہیں۔
1۔ ذاتی اصلاح
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو کتابوں اور رسولوں کے ذریعے زندگی گزارنے کا طریق کار بھی بتادیا لہذا ۔ذاتی ترقی۔ کے لئے نماز، روزہ، زکوۃ اور حج جیسے ارکان کی ادائیگی بنیادی اہمیت کی حامل ٹھہری۔ جس طرح مشینیں بنانے والے انہیں چلانے کے لئےہدایات کے ساتھ کتابچے بھی فراہم کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی کے لئے قرآن مجید کو نازل کیا۔ قرآن مجید سے احکامات خداوندی معلوم کرکے ان پر عمل پیر اہوتے ہوئے ہمیں تین محاذوں پر مقابلہ کرنا ہے :
نفس
شیطان
معاشرتی رسم و رواج
ان محاذوں پر قابو پاکر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ قوت ارادی سے کام لے کر نفس کی مخالفت کو موافقت میں بدل کر ہر عبادت میں چاہت کا رنگ بھرنا زندگی کا پہلا مرحلہ ہے۔ جب جملہ فرائض اور واجبات برضا و رغبت ادا ہونے لگیں اور زندگی کی ایک ایک ادا میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی جھلک نظر آنے لگے تو سمجھ لیں کہ آپ منزل کے قریب پہنچ گئے۔
2۔ معاشرتی اصلاح
اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایمان کا اعلیٰ درجہ حاصل کرنے کے لئے صرف ذاتی طور پر نیک بن جانا ہی کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ حسب استطاعت معاشرتی اصلاح کی بھرپور کوشش بھی کی جائے۔ جملہ جدید ذرائع استعمال کر کے دوسروں کو سچائی کا راستہ دکھانا ایک لازمی فریضہ ہے ورنہ اللہ کی بارگاہ میں باز پرس ہوگی۔ اگرچہ ایک آیت یا ایک بات ہی معلوم ہو اسے ہی آگے منتقل کیا جائے۔ برائی کے خلاف جہاد بھی اسی لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ معاشرے سے برائی کی قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور اس طرح نیکی کے لئے ایک سازگار ماحول میسر آسکے۔
اللہ تعالیٰ کو ہمارے اموال اور اعمال کی حاجت نہیں، ان کی ادائیگی ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ اسلام میں عبادت ’’پوجا پاٹ‘‘ نہیں بلکہ ایک مستقل نظام طرز حیات ہے جس کی تفصیلات قرآن و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوتی ہیں۔ قرآن اور صاحب قرآن کے ساتھ قلبی اور حبی تعلق کامیابی کی چابی ہے پھر مشکل سے مشکل کام بھی آسان لگے گا۔ حصول علم کا مقصد خدا کی پہچان ہے۔ خدا خوفی کے بغیر معاشرہ کسی جنگل کا منظر پیش کرتا ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے اور عدل و انصاف کا خون ہوجاتا ہے۔ ہماری سرگرمیوں کا ایک رخ اللہ کی جانب اور دوسرا اس کے بندوں کی طرف ہوتا ہے لہذا ہمیں حقوق کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد
اللہ کے ساتھ خوف و امید، تقویٰ و طہارت، توکل و استقامت، شکر و دعا، توبہ و استغفار، عجزو انکسار، تسلیم و اطاعت، تسبیح و ثناء، ذکر و فکر اور انفاق و استعانت کا معاملہ رکھا جائے اور شرک سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ اس کے ساتھ عبادت اور محبت میں غلو کیا جائے۔
جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے اس کے کئی رخ ہیں۔ والدین، اولاد، دوست احباب، رشتہ دار، پڑوسی، عام لوگ، بیمار، غریب لوگ، اہل کتاب، غیر مسلم حتی کے دشمنوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات پیدا کئے جائیں۔ کسی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ نفس کو قابو کرتے ہوئے اس کے حقوق بھی پامال نہ کئے جائیں۔
اس کے علاوہ کچھ آداب و اخلاق کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہاں چند گوشوں کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے۔
1۔ آداب
زندگی کے ہر معاملہ اور تعلقات میں آداب کو ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ کسی معاملے کو اس کے آداب سے ہٹ کر بجا لانے سے وہ کام ہو تو جاتا ہے۔ مگر اس کی اصل روح مجروح ہوتی ہے۔ لہذا اسلام نے ہمیں بول چال، تلاوت، صحبت، مجلس، شکار، ذبح، ازدواجی تعلقات، جسمانی اعضاء، اسلام، ملاقات، خط و کتابت، حاکم و محکوم، مکہ و مدینہ، مسجد، قسم، دعا، غسل، وضو، تعلیم بیت الخلاء، تجہیز و تکفین، عبادت، نکاح و طلاق، سفر، لباس، چھینک، جمائی، ہنسنا، رونا، کھانا پینا، نیند، بازار، والدین، اساتذہ اور دیگر معاملات کے بارے میں جو آداب سکھائے گئے ہیں ان کا لحاظ کیا جائے کیونکہ بے ادب مراد کو نہیں پاسکتا۔
2۔ اچھے اخلاق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں رب کائنات نے ارشاد فرمایا :
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم. ’’بے شک آپ اخلاق کے بلند مقام پر فائز ہیں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق.
’’بے شک مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے ہی مبعوث فرمایا گیا ہے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق خلقِ عظیم ہے۔ پس اسی تناظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کو بھی اسی اخلاقِ حسنہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہئے۔ لہذا ہمیں صداقت و امانت، توکل و استغناء، صبرو قناعت، جود و سخا، رحم و کرم، ایثار، ایفائے عہد، باہمی محبت، زبان و شرم گاہ کی حفاظت، کلام، منام اور طعام میں کمی، عجز و انکسار، ملنساری، عفو و درگزر، رواداری، شکر گزاری، استقامت، تسلیم و رضا، غصہ پر قابو، حوصلہ مندی، شرم و حیا، بردباری، صلح جوئی، امن پسندی، خندہ پیشانی، دوستانہ رویہ، خود احتسابی، تزکیہ و تصفیہ، ریاضت و مجاہدہ، حسن ظن، چشم پوشی، خدا خوفی اور وسعت نظری سے کام لیتے ہوئے ان اخلاق کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنانا چاہئے۔
3۔ برے اخلاق
اسلام کی تعلیمات میں جہاں اپنے ماننے والوں کو اخلاقِ حسنہ کی طرف راغب و مال کیا گیا وہاں برے اخلاق سے بچنے کے لئے بھی راہنمائی عطا فرمائی گئی۔ لہذا اخلاقِ حسنہ کی پیروی کے ساتھ ساتھ رذائلِ اخلاق جھوٹ، خیانت، بہتان بازی، اسراف، بخل، حسد، لالچ، دنیا اور منصب کی محبت، ریاکاری، شہرت اور بڑائی کی خواہش، فخر و تکبر، منافقت، غیبت، چغل خوری، عیب چینی، ظلم، قطع تعلق، قتل، گالی گلوچ، تمسخر، طنز، برے القابات، سخت دلی، بدمزاجی، کینہ، تعصب، خود پسندی، بدنیتی، سستی، لاپرواہی، مایوسی، خود غرضی، نفسانیت، بدگمانی، تجسس، دھڑے بندی، نفرت، احساس کمتری اور احساس برتری، سرگوشی، حیلے بہانے، کم چوری، دھوکہ دہی، شکایت بازی، لعن طعن، فتنہ و فساد، لاف زنی، فحش گوئی، خوشامد، ناجائز ستائش، شہوت، غصہ، کفران نعمت، بدنگاہی، لغویات، عجلت اور غیر مفید کھیل تماشوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے۔ چھوٹی موٹی غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں البتہ بڑے بڑے گناہوں سے مکمل اجتناب اور چھوٹے گناہوں پر اصرار سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔
4۔ کبیرہ گناہ
گناہ، صغیرہ ہو یا کبیرہ ہر دو صورت میں رب کائنات کے احکامات کی خلاف ورزی ہی ہے۔ البتہ صغیرہ گناہ انسان کی دیگر نیکیوں کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں مگر کبیرہ گناہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و قربت سے مزید دوری کا باعث بنتے ہوئے انسان کو ذلت و گمراہی کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ شرک، کفر، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، تہمت زنا، جادو، شراب نوشی، سود، بددیانتی، زنا، لواطت، قتل، چوری، ماں باپ کی نافرمانی، جہاد سے فرار، گناہ پر اصرار، رحمت الہٰی سے مایوسی، خوف الہٰی سے بے نیازی، حرام خوری، غضب اور فتنہ فساد کبیرہ گناہ ہی ہیں لیکن دور حاضر میں انہیں اتنے خوبصورت اور دلکش نام دے دئے گئے ہیں کہ احساس گناہ تک باقی نہیں رہا۔ ہر گناہ کو سند جواز عطا کی جارہی ہے لہذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ نفس کو گناہوں، نافرمانیوں اور اخلاقی آلودگیوں سے بچا کر رکھنا ہی تصفیہ اور تزکیہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَO الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَO وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَO إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَO فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَO وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَO أُوْلَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَO الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَO (المومنون : 1 تا 11)
’’بیشک ایمان والے مراد پا گئےo جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیںo اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیںo اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیںo اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیںo سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیںo پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیںo اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیںo اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیںo یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیںo یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی کی لذتوں کی کثرت ہوگی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گےo‘‘۔
درج بالا آیات سے ہمیں گناہوں، نافرمانیوں اور برے اخلاق سے بچنے کی طرف دعوت دی گئی ہے اور نیک اعمال کی طرف راغب کیا گیا ہے۔
اسی طرح حدیث جبرائیل سے دین کے تین بڑے شعبوں ایمان، اسلام اور احسان سے بھی عقائد، عبادت اور کیفیات کا پتہ چلتا ہے انہی کو پیش نظر رکھ کر خشوع و خضوع کا پیکر بننا ہے۔
خود احتسابی
روحانی ترقی کے لئے تھوڑا سا وقت نکال کر روزانہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیجئے۔ ۔ ۔ قول و فعل کا تضاد پریشانی اور بے اطمینانی کو جنم دیتا ہے، حقیقی سکون اللہ کو ہر وقت یاد رکھنے اور اس کے ساتھ تعلق محبت کو استوار کرنے میں ہے۔ سونے سے قبل بستر پر من میں جھانک کر اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ آج عقائد میں کہاں کہاں بگاڑ پیدا ہوا۔ ۔ ۔ اوقات کی تقسیم اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا کتنا لحاظ کیا اور کس قدر وقت ضائع ہو گیا۔ ۔ ۔ خلوص نیت کی کتنی کمی رہی عبادت میں کتنی سستی ہوگئی۔ ۔ ۔ لوگوں کے حقوق اور اپنے ذمہ فرائض کے حوالے سے کتنی کوتاہی ہوئی۔ ۔ ۔ مقصود حیات کے حوالے سے کتنا انحراف ہوا۔ ۔ ۔ آج کا دن کل سے بہتر تھا کہ نہیں۔ ۔ ۔ آنے والے دن کو بہتر بنانے کے لئے کیا سوچ بچار کیا۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
حرف آخر
دینِ اسلام کی تعلیمات اور ان کی حقیقی روح کا ایک خاکہ آپ کے سامنے موجود ہے اس میں حسن نیت اور حسن عمل کے موتی آپ نے پرونے ہیں۔ اسلامی تعلیمات پر کاربند رہنا، حقوق العباد کی ادائیگی پر کمر بستہ ہو جانا اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اجتناب کے بعد ہی صحیح معنوں میں احیائے اسلام و تجدیدِ دین کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا مسلمان بنا کر اپنی رضا سے فیضیاب فرمائے۔