اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *فضلاء بذات خود مدارس دینییہ کے تعاون کی فکر کریں* از : رفیع اللہ قاسمی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 26 November 2019

*فضلاء بذات خود مدارس دینییہ کے تعاون کی فکر کریں* از : رفیع اللہ قاسمی

*فضلاء بذات خود مدارس دینییہ کے تعاون کی فکر کریں*
از : رفیع اللہ قاسمی

اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ دنیا میں زندگی گزارنے کے جو اسباب اور نعمتیں تھیں انھیں اس کے سپرد کیا۔ انسان ان تمام وسائل و اسباب کا امین بنایا گیا۔ مال انسانی زندگی کے گزر بسر کا ایک اہم ذریعہ اور سبب ہے۔ ان اموال پر سب کا برابر کا حق ہے۔ مال پرقبضہ اور ملکیت کے بعد مالک کو کچھ مزید اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں۔ لیکن ملکیت حاصل ہونے کی صورت میں بھی اسراف و فضول خرچی اور بخل و کنجوسی سے اسی لیےمنع کیا گیا ہے کیونکہ ان تمام اموال سے جملہ انسانوں کے حقوق متعلق ہوتے ہیں اور امول میں ان رذائل کے در آنے کے بعد دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔

مال و دولت کے بڑھانے کا ایک محسوس ذریعہ مال و دولت میں محنت اور ان سے تجارت ہے۔ دولت کو بڑھانے کادوسرا غیر محسوس ذریعہ اموال سے متعلقہ حقوق کی تکمیل ہے۔ انفاق اور خیرات و صدقات مال و متاع کو بڑھانے کا ایک یقینی ذریعہ ہیں۔ دنیا کے مالداروں پر نظر اٹھا کر دیکھیں تو بے شمار لوگ اس میدان میں بہت پیش پیش نظر آتے ہیں۔ خود مسلم قوم الحمد للہ انفاق کے باب میں بہت آگے ہے۔ بھارت میں بیشتر رفاہی اور فلاحی کام یہاں کے مسلمانوں کے جذبہ انفاق کا واضح ثبوت ہیں۔

مدارس اسلامیہ ہمارے دینی قلعے ہیں۔ ان کی حفاظت، دیکھ بھال، ان تعلیم گاہوں میں تعلیم و تربیت میں مصروف طلبہ، خدام اور علماء کرام کی کفالت اور ان کی ضروریات کی تکمیل سب مسلمانوں کا ایک اہم فریضہ ہے۔ اس کار خیر میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ خاص طور سے فضلاء کرام نے جن دینی اداروں سے علوم دینیہ حاصل کیا ہے ان اداروں کا ترجیحی طور پرخیال رکھا جانا ان سب پر اخلاقا فرض ہے۔

انفاق کو اپنے زندگی کا ماہانہ معمول بنانا افادہ سے خالی نہیں۔ حضور صلی اللہ نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو نصیحت کرتے ہوئے فرما یا تھا کہ اسماء! گن گن کر خرچ نہ کرو ورنہ اللہ بھی گن گن کر دےگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین دن بھر حمالی و مزدوری کرتے اور شام میں کسی ضرورت مند کی ضرورت کو دیکھ کر اسے صدقہ کر دیتے اور خود بھوکے سو جاتے۔ حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ فرما تے تھے کہ میں نے اپنی پوری زندگی دو طرح کے افراد کو تلاش کیا مگر وہ مل نہ سکے: ایک وہ ظالم جسے اس دنیا میں اس کے ظلم کا بدلہ نہ ملا ہو اور دوسرے وہ سخی جو خرچ کرتا رہا ہو اور بعد میں مفلس بن گیا ہو۔

آج کے اس ٹیکنیکل دور میں  بہت ساری سہولتوں کے دستیاب ہونے کی وجہ سے ماضی کا وہ دور نہیں رہ گیا جب کہیں کسی ادارے کو پیسہ دینے کے لیے گھنٹوں لمبی لائنوں میں کھڑا رہنا پڑتا تھا۔ اب الحمد للہ گھر بیٹھے بیٹھے جہاں چاہا جتنا چاہا موبائل بینکنگ یا نیٹ بینکنگ کے ذریعہ سیکنڈوں میں غریبوں، مسکینوں اوراداروں کا تعاون بآسانی کر دیا۔ موجودہ دور میں ان سہولیات کے ذریعہ ہم اس مشہور قول " اس طرح خرچ کرو کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے" کا عملی مظاہرہ بار بار کر سکتے ہیں۔ دینی اداروں کے فضلاء کرام اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم متعین کریں اور  ماہانہ پابندی کے ساتھ ان اداروں کے کھاتوں میں جمع کر دیا کریں تو قطرہ قطرہ دریا باشد کا مصداق بھی ہوگا اور اللہ تعالی ان مخلصین کے مال و متاع میں مزید برکت بھی دےگا۔