محمد غالب فلاحی
______________
تاریخی پس منظر :
1925 میں سر زمین ہند میں ایک ایسی تنظیم یعنی آر ایس ایس کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد ہندوستان کو (جو مختلف مذاہب اور قوموں کا ملک ہے) ہندو راشٹر بنانا اور ایک قوم کو فوقیت دینا اور اقلیتوں کو یا تو ہندو سماج میں ضم کرنا یا ہندوستان سے باہر نکالنا ہے اس تنظیم کے سربراہوں نے آزادی ہند کے لیے زرا سی بھی کوشش نہیں کی بلکہ انگریزوں کے تلوے چاٹے اور ان سے معافی تک مانگی.
1947 میں ہندوستان آزاد ہوا اور دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا اس کے بعد سے ہندوستان میں کانگریس کی سرکار رہی. کانگریس کے زمانے حکومت میں آر ایس ایس پر پابندیاں تک عائد ہوئیں لیکن آر ایس ایس کی بڑھتی مقبولیت کی وجہ سے سیاسی مفاد کی خاطر اس پر سے پابندیاں ہٹا لی گئی اور آر ایس ایس پر زور انداز میں اپنا کام کرتی رہی مزید آزادی کے بعد سے کانگریس آر ایس ایس کے مطابق ہی چلتی رہی.
1980 میں آر ایس ایس نے اپنی ایک سیاسی پارٹی بنائی جسے ہم بی جے پی کے نام سے جانتے ہیں اس پارٹی نے شروع ہی سے ہندتو اور ہندوؤں کے لیے ہی آوازیں بلند کرتی رہی اور اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ زہر افشانی کرتی رہی بالآخر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور اس میں بی جے پی پیش پیش رہی اور ہندوستانی سیاست کا رخ تبدیل ہو گیا ہندوؤں کے اندر مسلمانوں کے تئیں نفرت بڑھنے لگی (کیونکہ آر ایس ایس نے زمینی سطح پر پر زور کام کیا) کمیونل رائٹس میں تیزی سے اضافہ ہوا بالآخر بی جے پی اقتدار میں آ گئی اس کے زمانے میں گجرات کا سانحہ پیش آیا دوبارہ کانگریس سرکار میں آئی اس نے دوسرے طریقے اپنائے اور مسلم طبقہ کے نوجوانوں کو مختلف من گھڑت تنظیموں کے نام پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور کانگریس نے مسلم دشمنی کا ہمیشہ کی طرح سے ثبوت پیش کیا. ہندوستانی عوام کا ذہن کلی طور پر تبدیل ہو چکا تھا بالآخر 2014 میں ایک بار پھر بی جے پی حکومت میں آئی اور پانچ سالوں تک مختلف طریقوں سے عوام کے ذہن کو جانچتی رہی (خاص کر مسلم طبقہ کے افراد کے ذہن کو) موب لنچنگ، وندے ماترم، سوریہ نمشکار، یوگا، گائے کا تقدس اور تین طلاق کے ذریعے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت جیسے بے شمار ایشوز کے ذریعے مسلم دشمنی کا ثبوت پیش کیا 2019 کے الیکشن میں اکثریت سے حکومت بنائی اور الیکشن نے ہندوستانی عوام کی ذہنیت کو واضح تو کیا اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بے بسی بھی واضح ہو گئی اور بی جے پی نے اپنا ہندتو کا رنگ دکھانا شروع کر دیا اور بی جے پی مینوفیسٹو میں کئے گئے اپنے وعدے کو پورا کرنے لگی سب سے پہلے تین طلاق بل کو پاس کرایا گیا حالانکہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کی اکثریت نہیں تھی پھر دفعہ 370 (کشمیر کو خاص حقوق دیئے گئے تھے) کو ہٹایا گیا اور اب بابری مسجد کا فیصلہ آیا آگے مزید کئی بل پاس کرانے کی تیاریاں ہو چکی ہیں جیسے CAB، NRC، یکساں سول کوڈ وغیرہ.
ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا پہلا بڑا قدم :
دوبارہ سرکار میں آنے کے بعد بی جے پی اپنے اصلی رنگ میں نظر آنے لگی اور اپنے کئے ہوئے وعدے کے مطابق دفعہ 370A کو ختم کر دیا اور کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا. تقریباً 120 دن سے زائد ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک کشمیر کی حالت کا کسی کو علم نہیں ساری دنیا کے نام نہاد حکمراں خاموش ہیں یہاں تک کہ مسلم حکمران بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کچھ دنوں تک انصاف پسندوں نے احتجاج کیا لیکن وہ بھی خاموش ہو گئے. اہم بات یہ کہ دنیا بھر میں کشمیر کو لیکر ہندوستانی فیصلہ کی مخالفت کی گئی لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کیونکہ یہ حکومت کے نشہ میں چور ہیں انھیں دنیا کی پرواہ نہیں، ان کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں بس یہ اپنے مشن کے لیے آخری حد تک جا سکتے ہیں اور یہی بل /فیصلہ ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا ہندوستان کی وضاحت کرتا ہے.
ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا دوسرا بڑا قدم :
9 اکتوبر صبح کو بابری مسجد کا فیصلہ آیا لیکن اس سے پہلے حکومت اور سنگھ پریوار کے لوگوں نے ملک میں حالات کو ہموار کرنے شروع کردیئے تھے مسلم قائدین سے ملاقاتیں اور امن بنائے رکھنے کی اپیل نے واضح کر دیا تھا کہ یہ فیصلہ ایک طرفہ مسجد کے مخالف ہو گا لیکن مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستان کی نام نہاد سیکولر عدلیہ پر پورا بھروسہ تھا لیکن عدلیہ نے اس بھروسے کو بھی توڑ دیا اس فیصلے میں کئی خامیاں رہی.
فیصلہ آنے سے قبل میری کئی مسلم تنظیم کے ذمہ داروں سے اس مسئلہ پر بات بھی ہوئی میں نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ایک طرفہ اور بابری مسجد کے مخالف ہو گا کیونکہ کہ یہ آر ایس ایس اور ہندتو وادیوں کا اہم ایجنڈا تھا. ہندوؤں کا کوئی مرکز نہیں ہے جیسا کہ دنیا کے سارے بڑے مذاہب کے مراکز ہیں سنگھ پریوار کو ہندو راشٹر قائم کرنا ہے اس کے لیے ایک مرکز کی ضرورت ہے انھوں نے اپنا مرکز بابری مسجد کو بنایا اس کی تیاری انھوں نے کئی دہائیوں پہلے سے کی اور اپنے ایجنڈے میں کامیاب رہے اور یہ فیصلہ ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا دوسرا بڑا قدم ہے. اسے مسلم عوام کو اور دوسرے کمیونٹی کے لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے.
ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا تیسرا بڑا قدم :
مسلم قائدین کو ہائی جیک کرنا ان کے بڑے کاموں میں سے ایک اہم کام ہے کیونکہ مسلم کمیونٹی کو کنٹرول میں رکھنا ہے تو ان کے قائدین کو کنٹرول کرنا ہو گا. آر ایس ایس کے ہیڈ موہن بھاگوت نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ یہ ملک مسلمانوں کے بغیر ہندو راشٹر نہیں بن سکتا یعنی جب تک مسلمانوں کو ہندو سماج میں ضم نہیں کر دیتے یا دوسرے درجے کا شہری نہیں بنا دیتے تب تک ان کا خواب پورا نہیں ہو سکتا اسی لئے انھوں نے نام نہاد مسلم قائدین کو نشانہ بنایا اور اس میں کامیاب رہے.
ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا چوتھا بڑا قدم :
سنگھ پریوار کو سب سے زیادہ خطرہ مسلم کمیونٹی سے ہے اس لیے انھوں نے موب لنچنگ کے ذریعے مسلم کمیونٹی کو خوف زدہ کیا، مسلم طبقہ میں پھوٹ ڈالی، مسلم عورتوں کو تین طلاق کے نام پر ورغلانے کی کوشش کی، مسلم قائدین کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلم کمیونٹی کا ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے اس کے لیے نام نہاد علماء اور قائدین کا بھر پور استعمال کیا گیا . اور مزید مسلم کمیونٹی کو الجھانے کے لیے Citizenship Amendment Bill کو پاس کرانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں دراصل اس کے ذریعے NRC کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے.
نوٹ: 2025 میں آر ایس ایس کے پورے سو سال ہونے جا رہے ہیں اس سے قبل انھیں ہندو راشٹر کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے اور یہ اپنے مشن پر تیزی سے گامزن ہیں.
مسلم عوام کو ان کے خطرناک مقاصد کو سمجھنا ہو گا اور ہنگامی طور پر لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے چنگل سے نکلنا ہو گا اور نام نہاد مسلم قائدین کو بھی پہچاننا ہو گا اور ان کے بہکاوے میں آئے بغیر اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا اور اس بڑی جنگ کے لیے کمر بستہ ہونا پڑے گا قربانیاں دینی ہوں گی اور اپنے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک ساتھ مل کر سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور اسلام اور اس کی تعلیمات پر خود عمل کرتے ہوئے لوگوں تک اس کی تعلیمات کو واضح اور دو ٹوک انداز میں پیش کرنا ہو گا.
______________
تاریخی پس منظر :
1925 میں سر زمین ہند میں ایک ایسی تنظیم یعنی آر ایس ایس کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد ہندوستان کو (جو مختلف مذاہب اور قوموں کا ملک ہے) ہندو راشٹر بنانا اور ایک قوم کو فوقیت دینا اور اقلیتوں کو یا تو ہندو سماج میں ضم کرنا یا ہندوستان سے باہر نکالنا ہے اس تنظیم کے سربراہوں نے آزادی ہند کے لیے زرا سی بھی کوشش نہیں کی بلکہ انگریزوں کے تلوے چاٹے اور ان سے معافی تک مانگی.
1947 میں ہندوستان آزاد ہوا اور دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا اس کے بعد سے ہندوستان میں کانگریس کی سرکار رہی. کانگریس کے زمانے حکومت میں آر ایس ایس پر پابندیاں تک عائد ہوئیں لیکن آر ایس ایس کی بڑھتی مقبولیت کی وجہ سے سیاسی مفاد کی خاطر اس پر سے پابندیاں ہٹا لی گئی اور آر ایس ایس پر زور انداز میں اپنا کام کرتی رہی مزید آزادی کے بعد سے کانگریس آر ایس ایس کے مطابق ہی چلتی رہی.
1980 میں آر ایس ایس نے اپنی ایک سیاسی پارٹی بنائی جسے ہم بی جے پی کے نام سے جانتے ہیں اس پارٹی نے شروع ہی سے ہندتو اور ہندوؤں کے لیے ہی آوازیں بلند کرتی رہی اور اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ زہر افشانی کرتی رہی بالآخر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور اس میں بی جے پی پیش پیش رہی اور ہندوستانی سیاست کا رخ تبدیل ہو گیا ہندوؤں کے اندر مسلمانوں کے تئیں نفرت بڑھنے لگی (کیونکہ آر ایس ایس نے زمینی سطح پر پر زور کام کیا) کمیونل رائٹس میں تیزی سے اضافہ ہوا بالآخر بی جے پی اقتدار میں آ گئی اس کے زمانے میں گجرات کا سانحہ پیش آیا دوبارہ کانگریس سرکار میں آئی اس نے دوسرے طریقے اپنائے اور مسلم طبقہ کے نوجوانوں کو مختلف من گھڑت تنظیموں کے نام پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور کانگریس نے مسلم دشمنی کا ہمیشہ کی طرح سے ثبوت پیش کیا. ہندوستانی عوام کا ذہن کلی طور پر تبدیل ہو چکا تھا بالآخر 2014 میں ایک بار پھر بی جے پی حکومت میں آئی اور پانچ سالوں تک مختلف طریقوں سے عوام کے ذہن کو جانچتی رہی (خاص کر مسلم طبقہ کے افراد کے ذہن کو) موب لنچنگ، وندے ماترم، سوریہ نمشکار، یوگا، گائے کا تقدس اور تین طلاق کے ذریعے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت جیسے بے شمار ایشوز کے ذریعے مسلم دشمنی کا ثبوت پیش کیا 2019 کے الیکشن میں اکثریت سے حکومت بنائی اور الیکشن نے ہندوستانی عوام کی ذہنیت کو واضح تو کیا اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بے بسی بھی واضح ہو گئی اور بی جے پی نے اپنا ہندتو کا رنگ دکھانا شروع کر دیا اور بی جے پی مینوفیسٹو میں کئے گئے اپنے وعدے کو پورا کرنے لگی سب سے پہلے تین طلاق بل کو پاس کرایا گیا حالانکہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کی اکثریت نہیں تھی پھر دفعہ 370 (کشمیر کو خاص حقوق دیئے گئے تھے) کو ہٹایا گیا اور اب بابری مسجد کا فیصلہ آیا آگے مزید کئی بل پاس کرانے کی تیاریاں ہو چکی ہیں جیسے CAB، NRC، یکساں سول کوڈ وغیرہ.
ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا پہلا بڑا قدم :
دوبارہ سرکار میں آنے کے بعد بی جے پی اپنے اصلی رنگ میں نظر آنے لگی اور اپنے کئے ہوئے وعدے کے مطابق دفعہ 370A کو ختم کر دیا اور کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا. تقریباً 120 دن سے زائد ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک کشمیر کی حالت کا کسی کو علم نہیں ساری دنیا کے نام نہاد حکمراں خاموش ہیں یہاں تک کہ مسلم حکمران بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کچھ دنوں تک انصاف پسندوں نے احتجاج کیا لیکن وہ بھی خاموش ہو گئے. اہم بات یہ کہ دنیا بھر میں کشمیر کو لیکر ہندوستانی فیصلہ کی مخالفت کی گئی لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کیونکہ یہ حکومت کے نشہ میں چور ہیں انھیں دنیا کی پرواہ نہیں، ان کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں بس یہ اپنے مشن کے لیے آخری حد تک جا سکتے ہیں اور یہی بل /فیصلہ ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا ہندوستان کی وضاحت کرتا ہے.
ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا دوسرا بڑا قدم :
9 اکتوبر صبح کو بابری مسجد کا فیصلہ آیا لیکن اس سے پہلے حکومت اور سنگھ پریوار کے لوگوں نے ملک میں حالات کو ہموار کرنے شروع کردیئے تھے مسلم قائدین سے ملاقاتیں اور امن بنائے رکھنے کی اپیل نے واضح کر دیا تھا کہ یہ فیصلہ ایک طرفہ مسجد کے مخالف ہو گا لیکن مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستان کی نام نہاد سیکولر عدلیہ پر پورا بھروسہ تھا لیکن عدلیہ نے اس بھروسے کو بھی توڑ دیا اس فیصلے میں کئی خامیاں رہی.
فیصلہ آنے سے قبل میری کئی مسلم تنظیم کے ذمہ داروں سے اس مسئلہ پر بات بھی ہوئی میں نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ایک طرفہ اور بابری مسجد کے مخالف ہو گا کیونکہ کہ یہ آر ایس ایس اور ہندتو وادیوں کا اہم ایجنڈا تھا. ہندوؤں کا کوئی مرکز نہیں ہے جیسا کہ دنیا کے سارے بڑے مذاہب کے مراکز ہیں سنگھ پریوار کو ہندو راشٹر قائم کرنا ہے اس کے لیے ایک مرکز کی ضرورت ہے انھوں نے اپنا مرکز بابری مسجد کو بنایا اس کی تیاری انھوں نے کئی دہائیوں پہلے سے کی اور اپنے ایجنڈے میں کامیاب رہے اور یہ فیصلہ ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا دوسرا بڑا قدم ہے. اسے مسلم عوام کو اور دوسرے کمیونٹی کے لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے.
ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا تیسرا بڑا قدم :
مسلم قائدین کو ہائی جیک کرنا ان کے بڑے کاموں میں سے ایک اہم کام ہے کیونکہ مسلم کمیونٹی کو کنٹرول میں رکھنا ہے تو ان کے قائدین کو کنٹرول کرنا ہو گا. آر ایس ایس کے ہیڈ موہن بھاگوت نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ یہ ملک مسلمانوں کے بغیر ہندو راشٹر نہیں بن سکتا یعنی جب تک مسلمانوں کو ہندو سماج میں ضم نہیں کر دیتے یا دوسرے درجے کا شہری نہیں بنا دیتے تب تک ان کا خواب پورا نہیں ہو سکتا اسی لئے انھوں نے نام نہاد مسلم قائدین کو نشانہ بنایا اور اس میں کامیاب رہے.
ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا چوتھا بڑا قدم :
سنگھ پریوار کو سب سے زیادہ خطرہ مسلم کمیونٹی سے ہے اس لیے انھوں نے موب لنچنگ کے ذریعے مسلم کمیونٹی کو خوف زدہ کیا، مسلم طبقہ میں پھوٹ ڈالی، مسلم عورتوں کو تین طلاق کے نام پر ورغلانے کی کوشش کی، مسلم قائدین کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلم کمیونٹی کا ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے اس کے لیے نام نہاد علماء اور قائدین کا بھر پور استعمال کیا گیا . اور مزید مسلم کمیونٹی کو الجھانے کے لیے Citizenship Amendment Bill کو پاس کرانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں دراصل اس کے ذریعے NRC کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے.
نوٹ: 2025 میں آر ایس ایس کے پورے سو سال ہونے جا رہے ہیں اس سے قبل انھیں ہندو راشٹر کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے اور یہ اپنے مشن پر تیزی سے گامزن ہیں.
مسلم عوام کو ان کے خطرناک مقاصد کو سمجھنا ہو گا اور ہنگامی طور پر لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے چنگل سے نکلنا ہو گا اور نام نہاد مسلم قائدین کو بھی پہچاننا ہو گا اور ان کے بہکاوے میں آئے بغیر اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا اور اس بڑی جنگ کے لیے کمر بستہ ہونا پڑے گا قربانیاں دینی ہوں گی اور اپنے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک ساتھ مل کر سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور اسلام اور اس کی تعلیمات پر خود عمل کرتے ہوئے لوگوں تک اس کی تعلیمات کو واضح اور دو ٹوک انداز میں پیش کرنا ہو گا.