اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت..... از قلم -:اجوداللہ پھولپوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 26 December 2019

بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت..... از قلم -:اجوداللہ پھولپوری

بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت.....

از قلم -:اجوداللہ پھولپوری

۱۲/۹ جمہوریت کی تاریخ کا ایک ایسا دن جسے نہ تو ھندوستان قبول کرسکتا ہے اور نہ ہی یہاں کی سنسکرتی قسم ہا قسم کے پھولوں کا مجموعہ پیارا ھندوستان سبھی کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ابتداء سے چلتا آیا پر شاید اب آگے مزید چل پانا اسکے بس سے باھر ھوتا جارہا ہے اس چمن کی ڈالی ڈالی بوموں کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے ۱۲/۹ کو لوک سبھا کی وہ رات جو شاید جمہوریت کی سب سے سیاہ رات کہلائے اسلئے کہ اسی رات ایک ایسا بل ایوان سے پاس کیا گیا جو جمہوریت کی روح کو تار تار کرگیا 80 کے مقابلہ 311 سے(CAB) کیب لوک سبھا میں پاس کردیا گیا جو سراسر مسلم دشمنی اور آرٹیکل 14 (انڈیا کی سرزمین میں ریاست کسی بھی فرد کو قانون کی نظر میں مساوات یا مساوی حقوق کے تحفظ سے محروم نہیں کرے گی ) اور آرٹیکل 15/1 (ریاست کسی شہری کے ساتھ مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی بھی بنیاد پر کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کرے گی ) کے خلاف تھا اور وزیر داخلہ کی طرف سے اسے پیش کرتے وقت ایسی دلیلوں سے مدلل کرنے کی کوشش کی گئ جسکی کمزوریا ایک ادنی سے ادنی عقل کا حامل بھی اجاگر کردے اس بل کو پیش کرتے ہوئے ملک کے وزیر داخلہ کا مسلم دشمن چہرہ بلکل واضح تھا پر ایک گونہ تسلی تھی کہ یہ بل راجیہ سبھا میں اوندھے منھ گرجائیگا اور وہ سیاہی جو ملک کے چہرہ پہ ملی گئی ہے وہ دھل جائیگی اور جمہوریت دشمنوں کا چہرہ اور بھی سیاہ ہوجائے گا لیکن یا اسفاہ ! حکومت کی بساط کو اپوزیشن توڑ نہ سکی اور جمہوریت کی روح جسم سے نکل کر فضاء میں معلق ہوگئی اب یہ روح اپنے جسم میں واپس آ پاتی ہے یا نہیں اسکا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے اسلئے کہ وہی ایک آخری امید ہے بابری مسجد فیصلہ اور ریویو پٹیشن (review petition ) کے خارج ہوجانے کے بعد بھی اقلیت کی اکثریت پُر امید ہے کہ انصاف کا مندر اپنے ماننے والوں کی امیدوں کو قوت دیگا!

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا​
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم​

ـ CAB یعنی Citizenship Amendment Bill اس بل کے پاس ہوجانے کے بعد پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہجرت کرکے آنے والے تمام غیر مسلم افراد کو ہندوستان کی شہریت حاصل ہوگی جبکہ مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائیگی
بل کو سیدھے سیدھے ھندو مسلم میں بانٹ دیا گیا جو ملک کے بنیادی اصولوں (Basic Stretcher ) کے سراسر خلاف ہے ترک دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ چونکہ اس سے پہلے کانگریس نے ملک کو مذھب کی بنیاد پہ بانٹا اگر وہ ایسا نہ کرتی تو آج یہ قانون بھی نہ بنانا پڑتا حالانکہ یہ بلکل غلط ترک ہے اسلئے کہ پاٹیشن 1947 میں ہوا جبکہ 26 جنوری 1950 کو باہمی رضامندی والا ہندوستانی قانون نافذ کیا گیا جسکی پاسداری ہر ھندوستانی کی ذمہ داری ہے پر افسوس!
دوسرا ترک نہرو لیاقت سمجھوتہ جو کہ پاکستان اور بنگلہ دیش (اس وقت ایک تھے) سے 1950 میں ہوا تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی اقلیتوں کی حفاظت کرینگے اس کا خیال پڑوسی ملکوں نے نہیں کیا یہ بھی ترک سمجھ سے پرے ہے کہ کسی کی غلطی کی سزاء کسی اور کو کیسی دی جاسکتی ہے اگر اس معاملہ کا نپٹارا کرنا ہی ہے تو پڑوسی ملک کے کان پکڑیں
جب سوال ہوا کہ انہیں تین ملکوں کے غیر مسلموں کو ہی کیوں اس بل کا فائدہ ملے سری لنکا یا اور دیگر ملکوں کے غیر مسلموں کو کیوں نہیں ؟ تو وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ چونکہ انہیں دیشوں میں اقلیتوں کو ٹارگیٹ کیا جاتا ہے اسلئے یہی اسکے حقدار ہیں پھر اسکو سمجھانے کیلئے کچھ ڈاٹا پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1947 میں پاکستان کے اقلیتوں کی آبادی 23% تھی جو کہ 2011 میں گھٹ کر 3.7% ہوگئی اور بنگلہ دیش کی اقلیتی آبادی1947 میں 22% جو 2011 میں گھٹ کر. 7.8% ھوگئی بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی آبادی ۲۳% سے گھٹ کر ۸% تک آنا درست ہے لیکن پاکستان میں اقلیتوں کے تعلق سے گمراہ کیا جارہا ہے اسلئے کہ 47 کے بعد سے اب تک دو سے تین فیصد کی ہی کمی ہوئی ہے بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی کمی کی ایک بڑی وجہ سینتالیس کے بعد بھی کئی سالوں تک دونوں طرف کے لوگ ہجرت کرتے رہے خصوصا سرحدی علاقوں کی آبادی تیزی سے ایک دوسرے کی طرف منتقل ہوئی ! اس کے بعد بھی مانا کہ ہر ملک اپنی اقلیتوں پہ ظلم کرتا ہے پر ہم دو ہمارے دو کی تھیوری (Theory) تو آپ نے سمجھائی جبکہ مسلمان اس کے برعکس رازق اور رزّاق اللہ کو سمجھتا ہے ظلم تک تو بات ٹھیک پر یہ الزام کہ پڑوسی ملکوں نے ہندؤں کی نسل کشی کی سمجھ سے باہر ہے اسلئے کہ اگر نسل کشی ہوئی ہوتی تو دنیا جانتی گجرات فسادات کی طرح اسکا بھی چرچا ہوا ہوتا ہنگامہ ہوتا سوالات اٹھتے (یہ الگ بات کہ اتنا بڑا جرم بے مجرم کے ہی ہوجائے ) پر کبھی بھی کسی بھی اخبار یا ٹی وی نے ایسا کچھ نہ تو دکھایا اور نہ ہی چھاپا اس کے بر عکس ان ملکوں میں مسلمان مسلک کے نام پہ خوب کٹے پاکستان آئے دن بموں کی آواز سے لرزتا رہا مرنے والے بھی مسلمان ہوتے تھے اور مارنے والے بھی، بنگلہ دیش بھی مسلکی منافرت کا شکار ہوا ہزاروں لوگ قتل ہوئے افغانستان میں بہادر امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہٹلر نے ایک بار انسانیت کو شرمندہ کیا پر یہاں تو ہٹلروں کی پوری فوج قوم مسلم کو مشق ستم بناتی رہی اور نام نہاد انسانیت ایک بار بھی نہ سسکی برما میں مسلمانوں کا جینا حرام کردیا گیا پر مجال کسی کی آواز بھی نکلی ہو کم سے کم برمیز کو بھی اس بل میں جگہ مل گئی ہوتی تو کچھ تسلی کا سامان ہوتا پر نہیں موجودہ سرکار کو تو ہندو مسلم کھیلنا ہے انکی آنکھیں تو خون دیکھنا چاہتی ہیں انکی منشاء یہی ہیکہ ہندو مسلم فساد ہو دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں پر ایسا ہرگز نہیں ہونے والا بل کی مخالفت میں جتنا مسلم آگے ہے اس سے کہیں زیادہ برادران وطن آگے ہیں اور ہوں بھی کیوں نہ جمہوریت کی زندگی کا سوال ہے ہندوستان کی روح کو گھائل ہونے سے بچانے کی بات ہے حقیقت یہ ہیکہ سرکار ہندؤں کی بھی وفادار نہیں اسے تو صرف اپنی ناکامی چھپانے کیلئے مسلمانوں کی کردار کشی کرنی ہے دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل کرنا ہے تاکہ اس سے مہنگائی بے روزگاری کے تعلق سے جواب نہ دینے پڑیں عصمت دری کے بڑھتے واقعات پہ صفائی نہ دینی پڑے!
اسی ابتدائیہ میں وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ اکیاون کے بعد ہندوستان میں اقلیتوں کی آبادی بڑھی ہے پہلے جو آبادی 9.8% تھی وہ اب بڑھ کر 14.23% ھوگئی ہےجبکہ ہندؤں کی آبادی اکیاون میں چوراسی فیصد تھی اور دوہزار گیارہ میں گھٹ کر انیاسی فیصد رہ گئی ایک بڑا سوال یہ ہیکہ ہندوستان میں ہندؤں کی آبادی کس نے گھٹائی؟ کیا یہاں بھی انکو مارا اور بھگایا گیا؟ جو وجہ آبادی گھٹنے کی یہاں ہے (ہم دو ہمارے دو) وہی وجہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی ہے اور اگر عدد کے اعتبار سے جائزہ لیں تو تینوں ملکوں میں ہندؤں کی آبادی گھٹنے کا تناسب ایک ہی ہے بلکہ ہندوستان میں زیادہ ہی ہے اسلئے کہ ہندوستان کے سواسو کروڑ کے پانچ فیصد (چھ کروڑ) اور پاکستان کے بیس کروڑ کے بیس فیصد (چارکروڑ) اور بنگلہ دیش کے سولہ کروڑ کے چودہ فیصد (دوکروڑ چوبیس لاکھ)کو عدد کے پیمانہ میں گنا جائے تو ہندوستان میں ہندؤں کی آبادی زیادہ گھٹی ہے جبکہ پاکستان کے تعلق سے اگر بی بی سی کی رپورٹ کو دیکھا جائے تو نا کے برابر ہے
خیر آپ لاکھ کہ لیں یا لکھ لیں موجودہ حکومت کی بے حسی ختم ہونے والی نہیں.....
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت

آج ضرورت ہیکہ حکومت کے اس ملک دشمن قانون کو پرزور جمہوری انداز سے ریجکٹ کیا جائے انکی ملک دشمن پالیسی کو لوگوں کے سامنے اجاگر کیا جائے اور بل کے مسلمانوں سے زیادہ ملک دشمن ہونے کو واضح کیا جائے اسکو روکنے کیلئے ہر جائز اور ضروری طریقہ کو اپنایا جائے اور بے خوف و خطر ایسی بل کی مخالفت کا اعلان کیاجائے جو خاص لوگوں کو فائدہ دینے اور ملک کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہونچانے والا ہے

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

اس موقعہ پر ہر جمہوریت پسند سیاسی پارٹی کو خواہ وہ صوبائی ہو یا ملکی اور ہر تنظیم کو خواہ وہ مسلکی ہو یا ملی اس بل کے خلاف ایک جٹتا اور باہمی تال میل کے ساتھ سراپا احتجاج بن نے کی ضرورت ہے قابل مبارکباد ہیں ملک کے سیکولر پسند برادران وطن اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دھلی و علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء و طالبات جنہوں نے پرزور جمہوری انداز سے اس بل کی مخالفت کی اور اپنے خون جگر سے اس بل کے مخالف احتجاج کو قوت دی اور اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں ملک میں جل رہی نفرت کی آگ کو اپنے دم صالح سے بجھانے کی کوشش کی اور قابل مذمت ہے وہ ادارہ جس نے جمہوری احتجاج پہ لاٹھیاں برسائیں لائق نفرت ہیں وہ اشخاص جنہوں نے آنسو گیس کے گولے داغے قابل سزاء ہیں وہ پولس والے جنہوں نے بچوں کے سینوں پر گولیاں داغیں اور انہیں شہید کیا اللہ تعالی اس بل کی مخالفت میں شہید ہونے والوں کو اپنی شایان شان جزاء و بدلہ عطاء فرمائے زخم خوردوں کو صحت و سلامتی عطاء فرمائے ناظرین کو میدان عمل میں آنے کا حوصلہ اور ہمت و قوت نصیب فرمائے !
اے موج حوادث انکو بھی دوچار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
ایک بار پھر یادہانی کرادوں! اگر ملک کو بچانا ہے یہاں کے جمہوری اقدار کو زندہ رکھنا یے ہندو مسلم ایکتا اور اکھنڈتا کو باقی رکھنا ہے تو ہندو مسلم سبکو ایک ساتھ ملکر حکومت کا ناطقہ بند کرنا ہوگا فاسشٹ سرکار کو جمہوریت کا سبق پڑھانا ہوگا ہمارے قائدین اور سیاسی پارٹیوں کے ذمہ داروں کو آگے بڑھ کے نمائندگی کرنی ہوگی مسلمانوں کو رجوع الی اللہ کو لازم بنانا ہوگا توبہ و استغفار کی کثرت کرنی ہوگی اپنے اعمال کو شریعت و سنت پہ ڈھالنا ہوگا اسے اپنی زندگی کے ایک ایک گوشہ میں جگہ دینی ہوگی اگر حکومت اور عمال کو بدلنا ہے تو اعمال کو بدلنا ہوگا اسلئے کہ اعمالکم عمالکم کے رو سے عمال تبھی بدلینگے جب ہمارے اعمال بدلینگے اللہ تعالی ہم سبکو اپنے اعمال کی فکر کرنے والا بنائے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت عطاء فرمائے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے سیکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے ہمارے قوم کے فرزندوں کو صدیق اکبررض کی صداقت عمر فاروق رض کی عدالت عثمان غنی رض کی حیا حضرت علی رض کی جرأت و ہمت اور خالد بن ولید رض کی بے خوفی عطاء فرمائے نیز ہمیں اپنے ماضی سے قوت حاصل کرکے مستقبل کو روشن کرنے والا بنائے ..آمین