نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند نے بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں گزشتہ 9/نومبر کو آئے فیصلہ کے خلاف آج سپریم کورٹ میں ریویوپٹیشن (ڈائری نمبر43241-2019) داخل کردی، ریویوپٹیشن آئین کی دفعہ 137کے تحت دی گئی مراعت کی روشنی میں داخل کی گئی ہے۔ بابری مسجد کا مقدمہ ہندوستان کی تاریخ کا طویل ترین مقدمہ ہے، جس نے انصاف کے لئے نہیں صرف فیصلہ کے لئے تقریباً ۰۷ سال کا وقت لیا ہے۔ آخرمعاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور طویل بحث کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ صادر کردیاتھا اور متنازع اراضی رام للا کو دینے اور مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین متبادل کے طور پر دینے کا حکم دیا تھا، اس فیصلے کے خلاف اس معاملے میں فریق اول جمعیۃ علماء ہند نے وکلاء خصوصاً سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول و دیگر سے صلاح و مشورہ کرنے اور ورکنگ کمیٹی کے فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر ریویو پٹیشن داخل کردی، جس میں عدالت سے 9نومبر کے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی گی ہے اور کہا گیا ہے کہ متذکرہ فیصلہ نے بابری مسجد کی شہادت کو غیر قانونی عمل مانتے ہوئے بھی رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے۔ لہٰذ عدالت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ ریویوپٹیشن میں کئی اہم نکات کی جانب عدالت کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے اور فیصلہ میں موجود تضادات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 142کے تحت مکمل انصاف تب ہوتاجب سپریم کورٹ کے ذریعہ مسلمانوں کو حق ملکیت دی جاتی اور سپریم کورٹ گورنمنٹ کو یہ ہدایت دیتی کے شہید کی گئی مسجد دوبارہ تعمیر کی جائے۔ ریویو پٹیشن داخل ہونے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر میں منعقد ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ریویو پٹیشن داخل کرنا سپریم کورٹ کی طرف سے دیا گیا ہمارا قانونی حق ہے اور وہیں یہ شرعی اور انسانی حق بھی ہے کہ آخری دم تک مسجد کی حصولیابی کے لئے جدو جہد کی جائے۔ کیوں کہ مسجد وقف علیٰ اللہ ہوتی ہے اور واقف کو بھی یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ اس کو واپس لے لے۔ اس لئے کسی فرد یا جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی متبادل پر مسجد سے دستبرادار ہوجائے۔ ساتھ ہی مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی نظر ثانی کی اپیل داخل کرنے کا مقصد ملک کی یکجہتی اور امن و امان میں خلل ڈالنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ قانون میں دی گئی مراعات کا حق استعمال کرتے ہوئے پانچ رکنی آئینی بنچ کے فیصلے کے خلاف اپیل داخل کی گئی ہے۔کیوں کہ ملک کے کروڑوں انصاف پسند عوام جس میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور ماہرین قانون بھی شامل ہیں، جو اس فیصلے کو سمجھ سے بالاتر سمجھ رہے ہیں۔ ریویو پٹیشن داخل کرنے کے بعد مولانا مدنی نے میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پانچ رکنی آئینی بینچ کی جانب سے فیصلہ آنے کے بعد جمعیۃ علماء نے عدالت عظمی سے رجوع کیا ہے، نیز یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کی جانب سے ریویو پٹیشن داخل نہیں کرنے کا ہماری جانب سے داخل کردہ ریویو پٹیشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ1961 میں جب سنی وقف بورڈنے پٹیشن داخل کیا تھا اس وقت عدالت سے کہا گیا تھا کہ اسے ری- پریزینٹیٹیو سوٹ کا دعوی سمجھا جائے جو تمام مسلمانوں کی جانب سے داخل کیا جارہا ہے، جسے عدالت نے منظور بھی کرلیا تھا۔ لہٰذ ا اب کوئی بھی مسلم ریویو پٹیشن داخل کرسکتا ہے، جب کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند فریق اول ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطۂ نظر پوری طرح تاریخی حقائق و شواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے یا کسی مندر کی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے،جیسا کہ خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا ہے۔اسی بنیاد پرجمعیۃ علماء ہند کا روز اول سے بابری مسجد حق ملکیت مقدمے میں یہ موقف رہا ہے کہ ثبوت و شواہد اور قانون کی بنیاد پر سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا اسے ہم تسلیم کریں گے۔خود سپریم کورٹ نے متعدد بار کہا تھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ صرف ملکیت کا ہے نہ کہ’آستھا‘ کا۔اسی لئے جمعیۃ علماء ہندنے ملک کے ممتاز وکلاء کی خدمات حاصل کیں،ثبوت وشواہد اکٹھا کئے اور پوری مضبوطی سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی ملکیت کادعویٰ پیش کیا اور ہم اسی بنیاد پرپر امید تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا، مگر جو فیصلہ آیا ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ ان تمام حقائق اور شواہد کو نظر انداز کرکے دیا گیا ہے جس میں ’آستھا‘ کی بو نظر آتی ہے، جو سمجھ سے بالا تر ہے۔مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ کے ابتدائی حصہ بتارہے ہیں کہ حق ملکیت مسلمانوں کا ہے انہوں نے آگے کہا کہ فیصلہ سے یہ سچائی بھی اجاگر ہوگئی کہ مسجد مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی یعنی ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے اس بات کی تصدیق ہوسکے کہ مسجد کسی مندرکی جگہ پر تعمیر ہوئی تھی مگر جو فیصلہ آیا ہے وہ اس سے میل نہیں کھاتا انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اسی بنیاد پر سپریم کورٹ گئے تھے کہ فیصلہ آستھا کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ کیوں کہ پانچ ججوں کی بینچ نے ایک طرف تو اپنے فیصلے میں کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنانے کا انکار کیا، بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے، پھر اسے توڑنے کو غلط ٹھہرا یا ہے اورجگہ انہیں لوگوں کودے دی جنہوں نے مسجد میں مورتی رکھی اور پھر مسجد کو شہید کردیاجس کی ہر گز امید نہ تھی۔اس سوال پر کہ کیا ریویوپٹیشن سے ملک کا ماحول خراب نہیں ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ بالکل نہیں اگر اس معاملہ کو لے کر پچھلے سترسال کے دوران ملک کاماحول خراب نہیں ہوا تو ریویوپٹیشن سے کیونکر خراب ہوسکتاہے؟ انہوں نے کہا کہ ملک کے امن واتحادکو ذہن میں رکھ کرہی ہم اس معاملہ کو لے کر کبھی سڑک پرنہیں اترے بلکہ انصاف کے لئے قانون کا راستہ اپنا یا اور یہ اختیار ہمیں ہی نہیں ملک کے ہر شہری کو ہمارے آئین نے دیا ہے۔