*C-A-Aپس منظر اور مضر اثرات*
*ریان داؤد سیہی پور*
*متعلم جامعہ شیخ الہند*
(CAA)سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ(Citizenship.Amendment.Act)
یعنی شہریت ترمیمی قانون ملک کی دونوں ایوانوں یعنی ایوان زیریں اور ایوانِ بالا سے بڑی ہی برق رفتاری بلکہ انتہائی تدبیر اختیاری کے ذریعہ پاس کرایا گیا وہ کالا قانون ہے جو ہندوستان کے آئینی اقتدار اور اسکی سیکو لرزم کی تباہی کے لئے نفخ اولی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے نظم و نسق قانونی مراکز اور ان کی بالا دستی کو کھلا ہوا چیلنج کرتا ہے حکومت کا سہارا لیکر اقتدار کی چھتر چھایہ میں دیمک کی طرح کام کر رہے کچھ بلکہ بیشتر ذھنیت کی عکاسی بھی ہے اسلئے یہ صرف ایک قانون ہی نہیں بلکہ ہر ہندوستان کی ذات پر براہِ راست نفرت کی ایک سخت چوٹ تھی تو ہندوستانی مزاج بھلا اسکو کیسے گوارا کرتا اسلئے بلا تفریق مذھب و ملب خطہ و علاقہ رنگ نسل لب و لہجہ ہندوستانی خون دم بستہ ٹھنڈک میں نہتے سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر اتر آئے اور ان کا کہنا ہیکہ مذھب کی بنیاد پرناتو تین مخصوص ممالک پاکستان ،افغانستان ،اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم پناہ گزیں کوشہریت دی جائے ناہی اس ملک کے کسی باشندے کی شہریت چھینی جائے اسی وجہ سی عوام کے بہت بڑے طبقے کے لئے قابلِ قبول نہیں ہے اس کا ثبوت پورے ملک میں ہونے والا وہ احتجاج ہے جو کسی ایک ریاست فرقے سیاسی جماعت یونیورسٹی ،مدرسے اور مکتبِ فکر کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی(J M I) اور علی گڑھ مسلم(A M U) یونیورسٹی سے اٹھنی والی حب وطن کی چنگاری اب پورے ملک میں فرقہ پرست ذھنیت کے خلاف شعلہ جوالہ بن چکی ہے جس سے اقتدار کی کرسی میں کافی تپش کو محسوس کیا جاسکتا ہے انتخابی ریلیوں سے بھی اور اس۔کے نتائج سے بھی یہ عاقبت نا اندیشی تھی جو بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور پاس کرنے والے کا سبب بنی لیکن یہ بڑی امید افزا بات کہ عوام شہریت قانون میں ترمیم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے ملک کی شاید ہی کوئ ریاست ایسی ہو جہاں سے آواز نہ اٹھی ہو ابتدا میں کوئ گڑ بڑ نہ تھی مگر رفتہ رفتہ اسکی وسعت میں اضافہ ہونے لگامگر اس واقعات سے طلبہ اور عوام کو سبق لینا چایئے کہ وہ نہ تو خود تشدد برپا کریں نہ ہی کسی اور کو اسکا موقع دیں کیوں کہ تشدد مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ کسی نئے مسائل کا منبع ہے
ایک طرف وزارت داخلہ پارلیمنٹ میں شھریت ترمیمی قانون کے بعد ملک گیر پیمانے پر این آرسی NRCکو نافذ کرنے کی علانیہ بات کی ہے تو دوسری طرف حکومت چاہتی ہے کہ اس قانون کے خلاف ملک میں احتجاج نہ ہولیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے طلبہ پولیس شہری سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں طلبہ اس ملک کے روشن مستقبل ہیں اور انہیں اپنی بات پر امن طور پر کہنے کا حق حاصل ہے ان مظاہروں کا واحد مقصد ملک میں فرقہ وارانہ بنیاد پر شہریت ترمیمی قانون اور این آر سیNRCکے نفاذ کے خلاف آواز بلند کرنا ہے پر امن مظاہرے کے ذریعے جس طاقت اور مقصد کے ساتھ اپنی آواز مؤثر انداز میں ایوانِ اقتدار تک پہونچایا جا سکتا ہے وہ پر تشدد مظاہروں کے ذریعے ممکن نہیں اس لئے اب بھی وقت ہےکہ مرکزی حکومت حالات کی نزاکت کو سمجھے ،شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے تئیں شہریوں میں پائے جا رہے خدشات پر براہ راست بات کرے،انہیں بھروسہ میں لے تو عین ممکن ہے کہ ملک کی سڑکیں اور پارکیں میدان جنگ میں تبدیل ہونے اور ھر سو خون خرابہ سے بچ جائے، اور ساتھ ہی ساتھ ایک تاریخی موقع ہے ہم وطنوں کے لئے کہ اپنی طرز سیاست کو بدل دیں اور اب ان لوگوں کو اپنی رہنمائی نہ کرنے دیں جنہوں نے قوم کے جذبات کا بے جا فائدہ اٹھا کر فقط مفادات کے لئے کام کیا ایسا موقع پھر نہیں ائے گا آج ھمارے ہندو بھائ ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں پچھلے کچھ فیصلوں کیوجہ سے عدالت پر عوام کا بھروسہ ڈگمگایا ضرور ھے لیکن امید ہیکہ عدالت آئین بخشی ہوئ ہندوستان کی سیکولر شکل پر کوئ داغ نہ لگنے دے گی
*ریان داؤد سیہی پور*
*متعلم جامعہ شیخ الہند*
(CAA)سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ(Citizenship.Amendment.Act)
یعنی شہریت ترمیمی قانون ملک کی دونوں ایوانوں یعنی ایوان زیریں اور ایوانِ بالا سے بڑی ہی برق رفتاری بلکہ انتہائی تدبیر اختیاری کے ذریعہ پاس کرایا گیا وہ کالا قانون ہے جو ہندوستان کے آئینی اقتدار اور اسکی سیکو لرزم کی تباہی کے لئے نفخ اولی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے نظم و نسق قانونی مراکز اور ان کی بالا دستی کو کھلا ہوا چیلنج کرتا ہے حکومت کا سہارا لیکر اقتدار کی چھتر چھایہ میں دیمک کی طرح کام کر رہے کچھ بلکہ بیشتر ذھنیت کی عکاسی بھی ہے اسلئے یہ صرف ایک قانون ہی نہیں بلکہ ہر ہندوستان کی ذات پر براہِ راست نفرت کی ایک سخت چوٹ تھی تو ہندوستانی مزاج بھلا اسکو کیسے گوارا کرتا اسلئے بلا تفریق مذھب و ملب خطہ و علاقہ رنگ نسل لب و لہجہ ہندوستانی خون دم بستہ ٹھنڈک میں نہتے سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر اتر آئے اور ان کا کہنا ہیکہ مذھب کی بنیاد پرناتو تین مخصوص ممالک پاکستان ،افغانستان ،اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم پناہ گزیں کوشہریت دی جائے ناہی اس ملک کے کسی باشندے کی شہریت چھینی جائے اسی وجہ سی عوام کے بہت بڑے طبقے کے لئے قابلِ قبول نہیں ہے اس کا ثبوت پورے ملک میں ہونے والا وہ احتجاج ہے جو کسی ایک ریاست فرقے سیاسی جماعت یونیورسٹی ،مدرسے اور مکتبِ فکر کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی(J M I) اور علی گڑھ مسلم(A M U) یونیورسٹی سے اٹھنی والی حب وطن کی چنگاری اب پورے ملک میں فرقہ پرست ذھنیت کے خلاف شعلہ جوالہ بن چکی ہے جس سے اقتدار کی کرسی میں کافی تپش کو محسوس کیا جاسکتا ہے انتخابی ریلیوں سے بھی اور اس۔کے نتائج سے بھی یہ عاقبت نا اندیشی تھی جو بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور پاس کرنے والے کا سبب بنی لیکن یہ بڑی امید افزا بات کہ عوام شہریت قانون میں ترمیم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے ملک کی شاید ہی کوئ ریاست ایسی ہو جہاں سے آواز نہ اٹھی ہو ابتدا میں کوئ گڑ بڑ نہ تھی مگر رفتہ رفتہ اسکی وسعت میں اضافہ ہونے لگامگر اس واقعات سے طلبہ اور عوام کو سبق لینا چایئے کہ وہ نہ تو خود تشدد برپا کریں نہ ہی کسی اور کو اسکا موقع دیں کیوں کہ تشدد مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ کسی نئے مسائل کا منبع ہے
ایک طرف وزارت داخلہ پارلیمنٹ میں شھریت ترمیمی قانون کے بعد ملک گیر پیمانے پر این آرسی NRCکو نافذ کرنے کی علانیہ بات کی ہے تو دوسری طرف حکومت چاہتی ہے کہ اس قانون کے خلاف ملک میں احتجاج نہ ہولیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے طلبہ پولیس شہری سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں طلبہ اس ملک کے روشن مستقبل ہیں اور انہیں اپنی بات پر امن طور پر کہنے کا حق حاصل ہے ان مظاہروں کا واحد مقصد ملک میں فرقہ وارانہ بنیاد پر شہریت ترمیمی قانون اور این آر سیNRCکے نفاذ کے خلاف آواز بلند کرنا ہے پر امن مظاہرے کے ذریعے جس طاقت اور مقصد کے ساتھ اپنی آواز مؤثر انداز میں ایوانِ اقتدار تک پہونچایا جا سکتا ہے وہ پر تشدد مظاہروں کے ذریعے ممکن نہیں اس لئے اب بھی وقت ہےکہ مرکزی حکومت حالات کی نزاکت کو سمجھے ،شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے تئیں شہریوں میں پائے جا رہے خدشات پر براہ راست بات کرے،انہیں بھروسہ میں لے تو عین ممکن ہے کہ ملک کی سڑکیں اور پارکیں میدان جنگ میں تبدیل ہونے اور ھر سو خون خرابہ سے بچ جائے، اور ساتھ ہی ساتھ ایک تاریخی موقع ہے ہم وطنوں کے لئے کہ اپنی طرز سیاست کو بدل دیں اور اب ان لوگوں کو اپنی رہنمائی نہ کرنے دیں جنہوں نے قوم کے جذبات کا بے جا فائدہ اٹھا کر فقط مفادات کے لئے کام کیا ایسا موقع پھر نہیں ائے گا آج ھمارے ہندو بھائ ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں پچھلے کچھ فیصلوں کیوجہ سے عدالت پر عوام کا بھروسہ ڈگمگایا ضرور ھے لیکن امید ہیکہ عدالت آئین بخشی ہوئ ہندوستان کی سیکولر شکل پر کوئ داغ نہ لگنے دے گی