بابری مسجد کا ملبہ کس کا ہے اور کسے مل سکتا ہے؟
ستائیس برس قبل چھ دسبمر سن 1992ء کو ہندو شدت پسندوں نے مغل بادشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تقریبا ساڑھے چار سو برس قدیم تاریخی بابری مسجد کو دن دہاڑے منہدم کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس مسجد کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عدالتی جد و جہد کی تاہم گزشتہ ماہ نو تاریخ کو سپریم کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی بتا کر بھی اراضی کی ملکیت اُسی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھا۔
مسلم فریق نے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جسے سماعت کے بغیر ہی عدالت نے مسترد کر دیا۔ اب رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کا ملبہ یا مسجد کی باقیات پر کس کا حق ہے اور اسے کس کے حوالے کیا جائے؟
بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے اس معاملے پر 25 دسمبر کو ایک اجلاس طلب کیا تھا، جس میں فیصلہ کیا گيا کہ اس پر مسلمانوں کو اپنا دعوی پیش کرنا چاہیے۔ کمیٹی کے رکن اور مسجد کے وکیل ظفر یاب جیلانی کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کے ملبے کو ادھر ادھر نہیں پھینکا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس سلسلے میں ہماری ایک میٹنگ ہوئی تھی اور علماء سے مشورہ کیا گيا۔ مسجد کی باقیات کو ادھر ادھر نہیں رکھا جا سکتا۔ اس سے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچےگی۔ چونکہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں کی، اس لیے ہم اس کے لیے ایک عرضی داخل کریں گے۔ بابری مسجد کا ملبہ عزت و احترام کے ساتھ حاصل کیا جائےگا۔‘‘
مسلم پرسنل بورڈ کے سرکردہ رکن اور ترجمان قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ مسجد کے ملبے پر مسلمانوں کا حق ہے اور یہ طے کرنے کے بعد کہ مناسب جگہ ہائی کورٹ میں یا پھر سپریم کورٹ، درخواست دائر کی جائے گی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نےکہا، ’’چونکہ عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام قابل سزا جرم تھا لہذا زمین نہیں ملی تو ملبہ تو ہم کو ملنا چاہیے۔ ملبہ ہمارا ہے اور ہم اسے حاصل کریں گے۔‘‘
ہندو فریق کی جانب سے مسجد کے ملبے کے تعلق سے اب تک کوئی مخالف بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم مسجد کی جگہ سے متصل ہی ایک اکھاڑے کے مہنت ترلوکی ناتھ پانڈے نے اس معاملے میں مسلمانوں کی حمایت کی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں ان سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ملبہ مسلمانوں کا ہے، اس لیے وہ اس کے حق دار ہیں اور اسے انہیں دینے سے بھائی چارے میں اضافہ ہو گا۔آل انڈيا ملی کونسل کے جنرل سیکریٹری، جو اس مقدمے کے ایک اہم فریق تھے، کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بابری مسجد کی عمارت مسلمانوں کی تھی، اس حیثیت سے اس کے ملبے پر انہی کا حق ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اسے ملبہ نہیں بلکہ مسجد کی باقیات کہنا بہتر ہو گا۔ اس پر مسلمانوں کا حق ہے اور ہم اسے حاصل کریں گے۔ اس کا کیا کریں گے یہ تو بعد کی بات ہے۔‘‘