شہید حنظلہ کے قاتلوں کو سخت سزا دی جائے، گھر کے کسی ایک فرد کو سرکاری ملازمت کا مطالبہ
نوجوانوں کے وفد کی شہید امیر حنظلہ کے والد سہیل احمد سے ملاقات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پٹنہ (شیث احمد)01 جنوری 2020
شہید امیر حنظلہ معصوم اور بے قصور تھا۔ اس کی شرافت کی گواہی محلے کے سبھی ہندو مسلمان دے سکتے ہیں۔ وہ ہر وقت دوسری کی خدمت کے لیے پیش پیش رہتا تھا۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ 21 دسمبر کے بہار بند کو وہ گھر سے باہر نکل گیا اور پھر واپس نہیں آ سکا۔ حنظلہ کے انتظار میں ہم نے نو روز جس بے قراری سے گزارے ہیں اسے آپ کے سامنے بیان نہیں کر سکتا۔ 30 دسمبر کی رات کو پولیس نے ہمیں تھانے بلایا اور جب حنظلہ کی لاش ہمارے حوالے کی تو کلیجہ منھ کو آگیا۔ اللہ ایسی آزمائش سے کسی کو نہ گزارے۔ حنظلہ کی لاش کا پتہ چلنے کے بعد لوگوں میں زبردست اشتعال اور غم و غصہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس عالم میں بھی میرا ہوش و حواس کام کررہا تھا۔ میں نے خود ہی لوگوں سے صبر و ضبط سے کام لینے کی اپیل کی اور کسی بھی قسم کی انتقامی کاروائی سے بچتے رہنے کی گزارش کرتا رہا۔ یہ باتیں پھلواری شریف میں شرپسندوں کے ظلم کا شکار ہوئے شہید حنظلہ کے والد سہیل احمد نے نوجوانوں کے ایک وفد سے کہیں۔ وفد میں ماڈرن ویلفیئر اکیڈمی کے ڈائرکٹر محمد مکرم حسین ندوی، کامران غنی صبا، آصف حیات، سلمان غنی، خرم ملک، تابش نقی،سیماب اختر، صفوان غنی، انصار بلخی، مبشر حیات خان، شہریار یحییٰ ، رمان غنی اور پٹنہ یونیوسٹی کے کچھ طلبہ شامل تھے۔ سہیل احمد ،امیر حنظلہ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کئی بار آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ہے لیکن ایسے دردناک حادثات دوبارا نہ ہوں اس کے لیے ضروری ہے کہ قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ سہیل احمد نے بتایا کہ وہ بے روز گار ہیں۔ حنظلہ نے میٹرک کے امتحان کے بعد معاشی مسئلے کی وجہ سے پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی اور وہ بیگ کا کام کرنے لگا تھا۔ گھر کے اخراجات کسی طرح چل رہے تھے۔ حنظلہ کی شہادت کے بعد امید کا ایک ٹمٹماتا ہوا دیا بھی بجھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ حنظلہ کے حادثے نے انہیں توڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ خود کو اس قابل نہیں پا رہے ہیں کہ گھر سے باہر نکل کر کچھ کر سکیں۔ سہیل احمد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے گھر کے کسی فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے اور انہیں مکمل انصاف بھی ملے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے پولیس انتظامیہ کے کردار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کے ساتھ بھرپور ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ اب تک آپ کے پاس سیاسی اور ملی تنظیموں کے کتنے نمائندگان تعزیت کے لیے آئے سہیل اختر نے بتایا کہ سیاسی رہنمائوں میں صرف ادئے نارائن چودھری اور ملی رہنمائوں میں امارت شرعیہ سے چند افراد اور جماعت اسلامی سے کچھ لوگ تعزیت کے لیے آئے تھے۔ حکمراں پارٹی یا حزب مخالف کا کوئی سیاسی رہنما حتی کہ کوئی مسلم سیاسی رہنما بھی اب تک ان کو دلاسہ دینے نہیں آیا ہے۔ سہیل احمد نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شہادت سے غم زدہ ضرور ہوں لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میرے بیٹے کی شہادت رائگاں نہیں جائے گی۔ بہار اور ہندوستان کا ہر امن پسند شہری بلا تفریق مذہب و ملت میرے ساتھ کھڑا ہے۔ غم و اندوہ کی اس گھڑی میں جو لوگ بھی ہمارے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں ہم ان کے شکرگزار اور ان کے لیے دعا گو ہیں۔
نوجوانوں کے وفد کی شہید امیر حنظلہ کے والد سہیل احمد سے ملاقات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پٹنہ (شیث احمد)01 جنوری 2020
شہید امیر حنظلہ معصوم اور بے قصور تھا۔ اس کی شرافت کی گواہی محلے کے سبھی ہندو مسلمان دے سکتے ہیں۔ وہ ہر وقت دوسری کی خدمت کے لیے پیش پیش رہتا تھا۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ 21 دسمبر کے بہار بند کو وہ گھر سے باہر نکل گیا اور پھر واپس نہیں آ سکا۔ حنظلہ کے انتظار میں ہم نے نو روز جس بے قراری سے گزارے ہیں اسے آپ کے سامنے بیان نہیں کر سکتا۔ 30 دسمبر کی رات کو پولیس نے ہمیں تھانے بلایا اور جب حنظلہ کی لاش ہمارے حوالے کی تو کلیجہ منھ کو آگیا۔ اللہ ایسی آزمائش سے کسی کو نہ گزارے۔ حنظلہ کی لاش کا پتہ چلنے کے بعد لوگوں میں زبردست اشتعال اور غم و غصہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس عالم میں بھی میرا ہوش و حواس کام کررہا تھا۔ میں نے خود ہی لوگوں سے صبر و ضبط سے کام لینے کی اپیل کی اور کسی بھی قسم کی انتقامی کاروائی سے بچتے رہنے کی گزارش کرتا رہا۔ یہ باتیں پھلواری شریف میں شرپسندوں کے ظلم کا شکار ہوئے شہید حنظلہ کے والد سہیل احمد نے نوجوانوں کے ایک وفد سے کہیں۔ وفد میں ماڈرن ویلفیئر اکیڈمی کے ڈائرکٹر محمد مکرم حسین ندوی، کامران غنی صبا، آصف حیات، سلمان غنی، خرم ملک، تابش نقی،سیماب اختر، صفوان غنی، انصار بلخی، مبشر حیات خان، شہریار یحییٰ ، رمان غنی اور پٹنہ یونیوسٹی کے کچھ طلبہ شامل تھے۔ سہیل احمد ،امیر حنظلہ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کئی بار آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ہے لیکن ایسے دردناک حادثات دوبارا نہ ہوں اس کے لیے ضروری ہے کہ قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ سہیل احمد نے بتایا کہ وہ بے روز گار ہیں۔ حنظلہ نے میٹرک کے امتحان کے بعد معاشی مسئلے کی وجہ سے پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی اور وہ بیگ کا کام کرنے لگا تھا۔ گھر کے اخراجات کسی طرح چل رہے تھے۔ حنظلہ کی شہادت کے بعد امید کا ایک ٹمٹماتا ہوا دیا بھی بجھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ حنظلہ کے حادثے نے انہیں توڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ خود کو اس قابل نہیں پا رہے ہیں کہ گھر سے باہر نکل کر کچھ کر سکیں۔ سہیل احمد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے گھر کے کسی فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے اور انہیں مکمل انصاف بھی ملے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے پولیس انتظامیہ کے کردار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کے ساتھ بھرپور ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ اب تک آپ کے پاس سیاسی اور ملی تنظیموں کے کتنے نمائندگان تعزیت کے لیے آئے سہیل اختر نے بتایا کہ سیاسی رہنمائوں میں صرف ادئے نارائن چودھری اور ملی رہنمائوں میں امارت شرعیہ سے چند افراد اور جماعت اسلامی سے کچھ لوگ تعزیت کے لیے آئے تھے۔ حکمراں پارٹی یا حزب مخالف کا کوئی سیاسی رہنما حتی کہ کوئی مسلم سیاسی رہنما بھی اب تک ان کو دلاسہ دینے نہیں آیا ہے۔ سہیل احمد نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شہادت سے غم زدہ ضرور ہوں لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میرے بیٹے کی شہادت رائگاں نہیں جائے گی۔ بہار اور ہندوستان کا ہر امن پسند شہری بلا تفریق مذہب و ملت میرے ساتھ کھڑا ہے۔ غم و اندوہ کی اس گھڑی میں جو لوگ بھی ہمارے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں ہم ان کے شکرگزار اور ان کے لیے دعا گو ہیں۔