اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ورق ورق ہے لہو لہو 🖊 ظفر امام

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 1 January 2020

ورق ورق ہے لہو لہو 🖊 ظفر امام


-----------------------------------------------------------
    سال ۲۰١۹ء کا آفتاب ٹھٹھرتی دسمبر کی اختتام پذیری کے ساتھ کہر آلود فضا میں روپوش ہوچکا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ۲۰۲۰ء کا سورج افقِ مشرق سے پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی روپہلی اور سنہری کرنوں کے جال بچھاتا ہوا باغِ ہستی پر نمودار ہو چکا ہے ، ہم اس نئے سال کی آمد کا نئے ولولے ، نئے جوش ، نئے جنون اور نئی امنگوں کے ساتھ پرتپاک استقبال کرتے ہیں ، اور اسے ایک کرب بھری طویل رات کے بعد صبحِ امید کے طلوع ہونے کا پیغامبرخیال کرتے ہیں ، خدا کرے کہ ہماری یہ توقعات درست ثابت ہوں؛
         یوں تو میرے کاروانِ حیات نے اب تک ۲٥/ منزلوں کو طے کرڈالا ہے ، لیکن! ان منازل میں سب سے کٹھن ، طویل ، جاں گسل ، کربناک ، اور صبر آزما منزل یہی ۲۰١۹ء ثابت ہوئی ، جس کا ایک ایک دن جہاں کتابِ زندگی پر درد کے نئے نئے عنوان درج کیا ہے تو وہیں اس کی ایک ایک طویل رات حیاتِ مستعار کے ایک ایک ورق کو کرب و محن سے لہو لہو کردیا ہے ، جہاں اگر ایک طرف غیروں کی دشمنیوں نے لوحِ دل پر سنگ باری کرکے اس کو چھلنی چھلنی کیا ہے تو وہیں دوسری طرف اپنوں کی ہرجائیوں نے مایوسیوں کی ردا اوڑھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے؛
      سال ۲۰١۹ء کے پورے سال دشمنانِ اسلام نے اسلامیانِ ہند کے مذہبی تقدس کو پامال کرنے اور ان کی ملی و دینی شناخت کو خاکستر کرڈالنے کے لئے پوری ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیا ، اور ہندوستان میں مذہبِ اسلام اور اس کے پیروکاروں کو نابود کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ، پہلے مذہبِ اسلام کے مذہبی دستور ‘‘ طلاقِ ثلاثہ ‘‘ پر بےجا دخل اندازی کرکے اس کو دفتیوں اور اوراق کی حد تک محدود کرنے کی ناپاک سازش رچی گئی ، اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے ، یہ سانحہ ایک ایسا روح فرسا اور درد انگیز سانحہ تھا کہ جس سے پوری ملتِ اسلامیہ لرز اٹھی تھی ، ابھی اس کا غم ہلکا بھی نہ ہوا تھا ، اور دل کی بےقراریوں کو قرار بھی نہ ملا تھا کہ برسوں کی یادگار اور مسلمانوں کے پرشکوہ عہدِ رفتہ کی آئینہ دار ‘‘ بابری مسجد ‘‘ کو ان ظالموں نے مسلمانوں سے چھین کر ظلم و ستم کی انتہا کردی ، بابری مسجد کا مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جانا کہ جس کی ایک ایک اینٹ مسلمانوں کی جلالتِ شان کی داستان سناتی ہے ، اور جس کے منبر و محراب سے مسلمانوں کے استحقاق کی ندائیں سنائی دیتی ہیں ، کوئی معمولی بات نہ تھی ، ایک ادنی درجہ کا مومن بھی اس کو سہار نہ سکا تھا ، پرسکون دل کے نہا خانوں میں غم و غصہ کی ملی جلی کیفیت نے طوفان بپا کردیا تھا اور بےساختہ ہرایک کی آنکھیں نم ہوگئیں تھیں، پھر ابھی اشکوں کی دھاریاں مسلمانوں کے چہرے کی سلوٹوں پر محوِ رقصاں ہی تھیں کہ اس بیچ ملک و قوم کے یہ نمک حرام اسلام دشمن عفریت ایک ایسے ناپاک منصوبے کو لیکر اٹھ کھڑا ہوا جس نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف پسند باعزت شہری کے دلوں میں بھی کہرام مچادیا ، مرد تو مرد ہماری پردہ نشیں ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو حجاب کی چلمن کو توڑ کر روڈوں اور سڑکوں پر اترنے کو مجبور کردیا اور یہ وہ ناپاک منصوبہ ہے جس کے تحت مسلمانوں کا عرصۂ حیات ہندوستان میں اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہوکر رہ جائےگا ، جسے ہم سی ، اے ، اے اور این ، آر ، سی کے نام سے جانتے ہیں ؛
          آج این ، آر ، سی اور سی ، اے ، اے کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے ، ملک و قوم کے بہادر شاہین بزدل کُرگس کے آشیانوں کو نوچنے کے لئے صف بستہ تیار کھڑے ہیں ، ہر جگہ سے بس ایک ہی نعرہ گونجتا سنائی دیتا ہے ‘‘ انقلاب ، انقلاب صرف انقلاب ‘‘ ہر ایک کی زبان " ہے جان سے پیاری آزادی ، ہم لیکے رہینگے آزادی " جیسے ولولہ انگیز زموموں اور مدھر و دلنواز ترانوں سے لبریز ہیں ،  ہماری وہ مائیں جن کی عمروں کا تقاضہ یہ ہیکہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھی رہیں ، آج اپنے دلوں میں انقلاب کی امید افزا شمع جلائے سردی کی یخ بستہ راتوں میں سڑکوں اور روڈوں کے کناروں پر اپنی نیندیں قربان کرنے میں لگی ہیں ، ہماری وہ دوشیزہ بہنیں جن کے نرم و نازک ہاتھ پھولوں کی سیج سے کھیلنے لئے بنے ہیں آج وہ پوری دیدہ دلیری اور جرأت و بہادری کے ساتھ پرچمِ ہند کو اپنے ہاتھوں سے تھامے انقلاب کے محاذ سنبھالی ہوئی ہیں، ہمارے وہ نوجوان بھائی جن کی زندگیاں عمر کے اس پڑاؤ پر کھڑی ہیں جہاں سے ان کے مستقبل کی کامیابی و کامرانی کی راہیں وا ہوئیں ان کے انتظار میں کھڑی ہیں ، آج وہ سب کچھ تیاگ کر آزادی کی کمان کو پوری قوت و طاقت کے ساتھ تھامے ہوئے ہیں ، اور ہمارے وہ نونہال جن کی عمریں گڑیوں سے بازی لڑانے کی ہیں ، آزادی کے پرچم کو جبینوں سے لگائے بڑوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں ، اور ان سب کا واحد مقصد فقط یہ ہیکہ ملک سے ناانصافی اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو ، وحشت و بربریت کا یکسر قلع قمع ہو ، بددیانتی اور خیانت کی تاریک گھٹاؤں کی جگہ امانت و دیانت کے مینارۂ نور نصب ہوں ، عدل و انصاف کے چشمے وطنِ عزیز کے ہر گوشے میں پھوٹ نکلیں ،  مساوات و رواداری کی میزان قائم ہو اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک ایسی عظیم اور نمونۂ عمل مثال قائم ہو جو سرزمینِ ہند سے اٹھ کر اطرافِ عالم میں پھیل جائے!
              لیکن! افسوس صد افسوس کہ عدل و انصاف کی آواز اٹھانے والوں اور وحشت و بربریت کی دیواروں کو مسمار کرکے مساوات و برابری کی بنیاد ڈالنے والے شاہین صفت عازموں  پر نام نہاد گدی نشینوں ، اقتدار کی کرسی پر براجمان فرماں رواؤں سنگین برداروں اور وردی پوشوں نے ظلم و بربریت اور قہر و غضب کی انتہا کردی ، ان پر آنسو گیس کے گولے چھوڑے ، لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ذریعے انہیں اپنے خون آشام ہاتھوں کا تختۂ مشق بنایا ، حتی کہ مجبور و مقہور اور نہتھے لوگوں کے خون کے دھاروں سے سزمینِ ہند لالہ زار ہوگئی ، ان درندہ صفت انسانوں نے معصوم اور بےگناہ لوگوں پر اپنی بندوق کے دہانوں کو بےپروائی کے ساتھ کھول دیا ، جس سے نہ جانے کتنے معصوموں کی جانیں چلی گئی؛
      آہ! کتنی درد بھری لمبی تھی وہ رات جب جامعہ ملیہ اور علیگڈھ کے کیمپس میں گھس کر بھگوا دھاری پولیس والوں نے مستقبل کے نونہالوں اور قوم و ملک کے جیالوں پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی ، ان کے خون کشید کر اپنی ہولی منائی تھی ، پردہ نشیں بہنوں کی کلائیاں مروڑی گئیں تھیں ، ان کو ڈرایا اور دھمکایا گیا تھا اور ان کے تنِ نازک کے ساتھ زد و کوب کی گئی تھی ، اور آہ! کتنے طویل اور خوفناک ہیں وہ ایام جن میں یوپی پولیس والوں نے یوپی کے باشندوں کے گھروں میں گھس کر ظلم و بربریت کی انتہا کردی ہے ، وہ پولیس والے جو ملک و قوم کی حفاظت اور پاسبانی کے لئے حلف برداری کرتے ہیں آج ان کا حال یہ ہیکہ وہ ان کی حفاظت تو کجا کرتے ان کی جانوں کے درپے پڑے ہوئے ہیں اور اب تک نہ جانے کتنی ماؤں کی آغوش کو ویران کردیا ، کتنے باپوں کے ارمانوں کو خاک میں ملادیا اور کتنی بہنوں کے خوابوں کو تشنۂ تعبیر کا عنوان دے دیا ، اور بڑی سرعت کے ساتھ تاہنوز یہ کام جاری ہے؛
        لیکن! یہ ظلم اب زیادہ دن چلنے والا نہیں ہے ، مظلوموں کی آہ برق رفتاری کے ساتھ عرشِ الہی کے پایوں کو جھنجھوڑ ڈالتی ہے ، تاریخ گواہ ہے کہ ظلم جب حد سے تجاوز کرتا ہے تو پھر قدرت اپنے ہاتھوں سے ظالموں کو قصۂ عبرت بنا ڈالتی ہے ، ظالموں کے دن گنے جاچکے ہیں ، اب پورا ملک بیدار ہوچکا ہے ، آزادی کے متوالے و ملنگ پروانہ وار شمعِ آزادی پر جست لگا کر دادِ شجاعت پیش کر رہے ہیں ، ان کے دماغ میں بس آزادی کے ترانے اور لبوں پر انقلاب کے نغمے مچل رہے ہیں ، اب نہ ان کو دار و رسن کا خوف ہے اور نہ ہی زنداں کی دیوار کا ڈر ، وہ تاریکیوں کی گھٹاؤں میں یقین و اذعان کی قندیلیں روشن کر کے اس امید کے ساتھ قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں کہ غم کی رات خواہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو ، وہ فقط رات ہی ہوتی ہے ، کبھی نہ کبھی ظلمتِ شب چھٹےگی اور پھر نور کا تڑکا ہوگا ، جہاں دور دور تک چمن میں ایسے اجالے اور روشنی کا دور دورہ ہوگا ، جن کی تابناکی میں اپنی منازل و اہداف کے متلاشی کو بآسانی منزلِ مقصود تک رسائی حاصل ہوگی ، اور پھر ان تھکے ہارے مسافرین کے کاروان کو زاغ و زغن کی دخل اندازی سے بے پروا ہو کر سکون و اطمینان کے ساتھ روز و شب کی جھلملاتی چھاؤں میں آزادی کی سانسیں لینا نصیب ہوگا ان شاء اللہ

                              ظفر امام ، کھجورباڑی
                             ٹیڑھاگاچھ ، کشن گنج