اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ساغر ساغر زہر گھلا ہے قطرہ قطرہ قاتل ہے شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 7 January 2020

ساغر ساغر زہر گھلا ہے قطرہ قطرہ قاتل ہے شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی


ساغر ساغر زہر گھلا ہے قطرہ قطرہ قاتل ہے

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

       ملک کے محافظ جب قاتلوں کا شیوہ اختیار کر لیں،حکمران وقت جب شرپسندوں کی رہبری کا شرمناک کردار اپنا لے، رہنمائےکارواں جب رہزنوں کے ہمراہ ہوجائے تو لوٹ مار اور قتل وغارت گری، انارکی وبدامنی، فساد اور خوں ریزی،ملک وقوم کا مقدر بن جایا کرتی ہیں،اس کی زندہ مثال آج کا وہ سانحہ ہے جو ملک کی باوقار دانشگاہ جواہر لال یونیورسٹی دہلی میں پیش آیا ہے'، یہ یونیورسٹی سیکولر تعلیم گاہ ہے مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس کا نصب العین تعلیم ہے اور اس حوالے سے یہ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے' باوجود اس کے فرقہ پرستوں کا نشانہ محض اس وجہ سے بنی کہ یہاں کے طلباء نے کمیونل اور نازی ازم کے خلاف آواز بلند کی اور نسلی تعصب اور فرقہ پرستی پر مبنی سیاہ قانون کو احتجاجی مظاہرے کی صورت میں مسترد کیا ہے'، انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے اٹھنے والی اس آواز کو ملک کی دیگر نیشنل یونیورسٹیاں خصوصاً جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بھی طاقت کے زور پر دبا نے کی اور خاموش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور علی الاعلان فورس کے ذریعے بدترین قسم کے حملے کئے گئے آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا، گولیاں برسائی گئیں، جسمانی تشدد کیا گیا،
 جس کی تفصیلی رپورٹیں اور ظلم وجبر کی تصویریں پوری دنیا میں ملک کے مقتدر اعلیٰ کی رسوائی کا سبب بنیں، آج وہی خونیں کھیل ملک کے قلب دہلی میں 
 کرائے کے قاتلوں اور شرپسندوں کے ذریعے پولیس کی نگرانی میں کھیلا گیا ہے'، بی جے پی کی ذیلی تنظیم اکھل بھارتیہ ودیار تھی اے بی وی پی اسٹوڈنٹس تنظیم نے لوہے کے راڈ سریا لاٹھی اور دیگر ہتھیاروں سے لیس ہوکر یونیورسٹی کے کیمپس میں گھس گئی اور اہلکاروں کی رہنمائی میں پندرہ بیس بیس کی ٹولیوں میں ہاسٹلوں میں اچانک داخل ہوکر حملہ کرنا شروع کردیا، ان درندوں نے نہتے طلبہ کو مارا اساتذہ پر حملے کئے عمر دراز عورتوں کو نشانہ بنایا اور معصوم بچیوں پر بھی وار کئے ان حملوں میں بیسیوں افراد زخم زخم ہوئے کسی کا سر پھٹا کسی کا جسم لہو لہو ہوگیا کسی کا ہاتھ ٹوٹا کسی کے پاؤں خون آلود ہوئے ،انسانیت کے ساتھ یہ درندگی اور وحشیانہ بربریت پولیس کی نگاہوں کے سامنے ہوتی رہی،اندر ہاسٹل سے امداد کے لیے ہیڈ کوارٹر پر مسلسل فریاد ہوتی رہی مگر دارالحکومت میں جہاں ایک پرندہ بھی پر مارتا ہے تو انہیں خبر ہوجاتی ہے اسی مقام پر اتنے بڑے اجتماعی حملے کے باوجود بھی پولیس دوگھنٹے بعد آئی، 
 ذہن کس طرح باور کرے کہ اس شرپسندی کے لئے،حیوانیت کے اس کھیل کے لئے پہلے سے سیٹنگ نہیں تھی ،کیونکر تسلیم کیا جائے کہ اس غنڈہ گردی میں پولیس کے عملے کی حمایت حاصل نہیں تھی،
   اور درست بات یہ ہے کہ قوم وملک کے نام نہاد محافظوں کی یہ جماعت مکمل طور سے اس سازش میں شریک تھی جامعہ ملیہ اور علی گڑھ میں یہ علی الاعلان تھے یہاں پشت پر یہ تھے فرنٹ پر دوسرے چہرے تھے، 
سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اور ملک میں امن وامان کے فرائض پر مامور اور اسی کے نام پر اپنی  معاشی حالت کو مضبوط کرنے والے وردی پوش جب تعصب میں اندھے ہو کر انتہا پسند ہوجائیں، فرقہ وارانہ کرداروں کی صورت میں امن وسلامتی کے دشمن ہوجائیں تو ایسی صورت میں آئین وقانون محض کاغذی اوراق میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں زمینی اعتبار سے ان کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی ہے۔
ملک انارکی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے، خونریزی اور بربریت عام ہوجاتی ہے، نسل پرستی کے شعلوں میں وطن جل اٹھتا ہے ،انسانیت اخوت،جمہوریت ،اور  رواداری ۔نفرت وتعصب کے مقتلوں پر قربان ہوجاتی ہیں، 

ملک اس وقت  تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے'، اس کی سالمیت پوری طرح سے مجروح ہو چکی ہے'، معیشت مسلسل رو بہ زوال ہے، انسانیت شرمسار ہے'، فضائیں لہو رنگ اور ماحول اضطراب کا شکار ہے
ہر طرف بے یقینی اور بے چینی کی کیفیت ہے'،مگر حکومت ہے'کہ اسے ذرہ برابر اس کی پروا نہیں ہے،کہ اس کے ایک فرقہ وارانہ اور متعصبانہ قانون کی وجہ سے ملک کن حالات سے دوچار ہے ،عوام کس قدر پریشان حال ہے، عوام کے مسائل سے اسے قطعا کوئی سروکار نہیں ہے،اسے اپنی انا کا پاس ہے'،اپنی طاقت کا زعم ہے' اقتدار کا نشہ ہے،

حقیقت یہ ہے کہ جس حکومت میں اس کے ذیلی حکمراں کے اخلاقی اقدار کی پستی کا یہ عالم ہو،  اس کی ذہنی پسماندگی کی یہ کیفیت ہو اور اس کے تعصب و نسل پرستی کا یہ حال ہوکہ وہ اقلیتوں سے انتقام لے کر دل کی پیاس بجھارہی ہو، جس کی نگرانی اور جس کے حکم پر پولیس اہلکاروں کی درندہ صفت جماعت مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوکر بے رحمی سے حملے کررہی ہو، عورتوں پر تشدد کررہی ہو، جس کے حکم پر مدسوں کے ذمہ داروں کو صرف اس لیے زندانوں میں دھکیل دیا گیا ہو کہ انھوں نے انسانیت کے تحفظ میں ہونے والے مظاہروں کی صرف حمایت کی تھی شرکت کا جرم نہیں کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ان کے اداروں کے معصوم نابالغ اور یتیم بچوں کو یتیم خانوں سے اٹھا کر نذر زنداں کردیا گیا ہو اور ان سے ہوس مٹاکر انگریزی سفاکیت اور حیوانیت کی انتہائی گھناؤنی مثال قائم کردی گئی ہو،اس حکومت میں انصاف کی،عدالت کی، انسانیت کی اور جمہوریت کی کیا امید کی جاسکتی ہے

ورنہ ایک نیشنل یونیورسٹی میں انتہاپسند شرپسندوں کی یہ جرات نہ ہوتی کہ کیمپس میں گھس کر
وحشت وبربریت کا رقص کرتے،اور ظلم وسفاکیت کا ننگا ناچ قائم کرتے، یہ ملک کے غدار ہیں امن کے دشمن ہیں، حقیقت میں یہی آتنگ واد اور دہشت گرد ہیں جنھوں نے جمہوریت اور سیکولرازم کی حفاظت کرنے والوں پر ظلم وجبر اور درندگی کا مظاہرہ کرکے خود کو شیطان اور سیکولرازم اور انسانیت کا دشمن ثابت کیا ہے
روزنامہ لازوال جموں 
 تاہم جارحیت وسفاکیت کے اس  ظالمانہ عہد میں بھی اس حقیقت کو بھولنا نہیں چاہئے کہ حق اور باطل اور روشنی وتاریکی کی کشمکش سے کوئی دور خالی نہیں رہا ہے، ظلم جب حد سے بڑھتا ہے'تو ایک موسی بھی پیدا ہوتا ہے'، جبر جب اتنہا کو پہنچتا ہے تو جبر کی اسی تاریکیوں سے سحر کی روشنی پھوٹتی ہے'، کارواں کے راستے میں سنگلاخ وادیاں بھی آتی ہیں' ہموار اور مسطح سبزہ زاروں کے علاقے بھی استقبال کرتے ہیں'مگر منزلوں کی رسائی کا راز یہ ہے کہ وہ سبزہ زاروں میں غافل نہیں ہوتا اور سنگلاخ راستے اس کے پاؤں کو آبلہ پا کرتے ضرور ہیں' مگر اس کی ہمت وحوصلوں اور اس کی استقامت پر اثر انداز نہیں ہوپاتے ہیں، انقلاب کا راستہ عزم واستقلال کا راستہ ہے آبلہ پائی کی شاہراہ ہے'، اس میں اجسام لہو رنگ ہوتے ہیں'، احساسات زخمی ہوتے ہیں'، ارمانوں کی کائنات لٹتی ہے'،آرزؤں کی دنیا اجڑتی ہے'، خواب ہائے رنگین زیر وزبر ہوتے ہیں'،  فلک رساشعلوں، اجتماعی حملوں،قصر اقتدار کی سیڑھیوں، جبین حکومت کی جنبشوں اور دار ورسن کی صورت میں موت ساتھ ساتھ چلتی ہے'، ان خونچکاں مراحل کے بعد پھر انقلاب کا سورج طلوع ہوتا ہے ،
یہاں بھی دہشت گردی عروج پر ہے'، انسانیت ہراساں ہے' جمہوریت بے روح ہے'،تانا شاہی  اور آمریت بے لگام اور نسل پرستی کا جنونی کردار انتہا پر ہے' ،اور یہ مسلم ہے' ہر انتہا عبرت خیز گمنامی کا مقدمہ اور ہر عروج ،زوال کی علامت ہے'،شرط یہ ہے کہ ملت اس ظلم کے خلاف متحد ہو ،اور اس راہ میں اٹھنے والی آوازوں کو اپنی حمایتوں سے مضبوط کرے، مصلحت کی چادروں کو اتار کر سرفروشانہ کردار ادا کرے، حکومتی پروپیگنڈوں کے دام میں آکر بے شمار پروانہ آزادی کے کاز کو متاثر نہ کرے، منصوبہ بند لائحہ عمل مرتب کرے، مسلک ومشرب سے اوپر اٹھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو، اس کی آواز ایک ہو،اس کا قدم ایک ہو،اوراس کا نعرہ ایک ہو، آزادی وانقلاب۔جمہوریت ومساوات۔۔۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی