شاہین باغ کا ہٹنا بے بسوں کی طاقتور علامت کا ڈھہ جانا ہوگا!
اتواریہ: شکیل رشید
خبر افسوسناک ہے!
شاہین باغ تحریک دو حصوں میں بٹتی نظر آرہی ہے۔
ایک گروپ چاہتا ہے کہ شاہین باغ کی تحریک جاری رہے اور دوسرا گروپ اس تحریک کو ختم کرنے پر زور دے رہا ہے۔ یہ خبر افسوسناک اس لیے ہے کہ دہلی کے شاہین باغ سے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی ہے وہ آج اس ملک کے مسلمانوں، دلتوں ، پچھڑوں اور بے بسوں کی جدوجہد کی علامت بن گئی ہے۔ اور علامت بھی ایسی کہ ملک بھر میں جگہ جگہ شاہین باغ بن گئے ہیں جہاں خواتین کی بہت بڑی تعداد وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی اقلیت مخالف یا اقلیت دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ ان احتجاجات کی اہمیت سمجھ لیں، ایک ایسے وقت میں جب یوپی میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی پولس، لاٹھیوں او ربندوق کی گولیوں کے زور پر سی اے اے مخالف تحریک کو پنکچر کرنے کی کوشش کی تھی اور بڑے بڑے مسلمان قائدین تک دم دبا کر بیٹھ گئے تھے تب خواتین سامنے آئیں او رہر طرح کی دھمکیوں اور شرارتوں کے درمیان احتجاج کی لو تیز کی۔ یہ سمجھ لیں کہ اگر اس ملک میں دہلی کا شاہین باغ نہ بنتا اور اس کی دیکھا دیکھی ملک بھر میں دوسرے شاہین باغ وجود میں نہ آتے تو نہ ہی راجستھان، کیرالہ اور مغربی بنگال کی اسمبلیوں میں شہریت مخالف ترمیمی قانون کے خلاف قراردادیں منظور ہوتیں او رنہ ہی ملک کی غیر بھاجپائی ریاستیں اپنی اپنی ریاستوں میں این آر سی اور این پی آر نہ نافذ کرنے کا اعلان کرتیں۔ یہ شاہین باغ کا احتجاج ہی ہے کہ آج عدالت یوگی سرکار سے یہ دریافت کررہی ہے کہ بھلا اس نے احتجاجی مظاہرین کی املاک اور جائیدادیں کیوں قرق کی ہیں۔ اور یہ شاہین باغ ہی کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں، دلتوں اور دیگر اقوام کی بہت بڑی اکثریت آکر کھڑی ہوگئی ہے اور سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت میں وہاں بیٹھی خواتین کی آواز میں اپنی آواز ملا رہی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ شاہین باغ آج مودی اور شاہ کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ ساری دنیا میں سی اے اے کی غیر آئینی حیثیت اگر اجاگر ہوئی ہے تو اس لیے کہ ملک بھر کے شاہین باغوں نے غیر ممالک کی توجہ اپنی جانب کھینچی ہے۔ بیرونی ممالک اتنی بڑی تعداد میں احتجاج کرنے والی خواتین کو دیکھ کر سی اے اے کے نقصانات پر سوچنے کےلیے آمادہ ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ سے لے کر یوروپی یونین تک میں سی اے اے کی مخالفت ممکن ہوسکی ہے۔ اور یہ شاہین باغ ہی ہے جس نے امیت شاہ کی زبان سے یہ جملے ادا کروائے ہیں کہ دہلی الیکشن میں بی جے پی کو ووٹ شاہین باغ ہٹوانے کےلیے دیاجائے۔ یعنی امیت شاہ شاہین باغ کی طاقت کا احساس کرنے پر لاچار ہوئے ہیں۔ شاہین باغ چونکہ اس ملک کے بے بسوں کی جدوجہد کی طاقتور علامت بن گیا ہے اس لیے اس کا ہٹنا اس علامت کا ڈھہ جانا ہوگا۔ پر کیا کیاجائے کہ مسلمان قوم ہمیشہ دوسروں کے اشارے پر چلنے کو تیار رہتی ہے ، وہ یہ سوچتی تک نہیں کہ اس میں نقصان ہی نقصان ہے۔ اللہ کےلیے اب مسلمان ہوش میں آئیں او راپنے اچھے برے کو سمجھیں۔ شاہین باغ ہمیشہ نہیں رہے گا ایک دن ہٹے گا لیکن ابھی وہ موقعہ نہیں آیا ہے۔
اتواریہ: شکیل رشید
خبر افسوسناک ہے!
شاہین باغ تحریک دو حصوں میں بٹتی نظر آرہی ہے۔
ایک گروپ چاہتا ہے کہ شاہین باغ کی تحریک جاری رہے اور دوسرا گروپ اس تحریک کو ختم کرنے پر زور دے رہا ہے۔ یہ خبر افسوسناک اس لیے ہے کہ دہلی کے شاہین باغ سے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی ہے وہ آج اس ملک کے مسلمانوں، دلتوں ، پچھڑوں اور بے بسوں کی جدوجہد کی علامت بن گئی ہے۔ اور علامت بھی ایسی کہ ملک بھر میں جگہ جگہ شاہین باغ بن گئے ہیں جہاں خواتین کی بہت بڑی تعداد وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی اقلیت مخالف یا اقلیت دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ ان احتجاجات کی اہمیت سمجھ لیں، ایک ایسے وقت میں جب یوپی میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی پولس، لاٹھیوں او ربندوق کی گولیوں کے زور پر سی اے اے مخالف تحریک کو پنکچر کرنے کی کوشش کی تھی اور بڑے بڑے مسلمان قائدین تک دم دبا کر بیٹھ گئے تھے تب خواتین سامنے آئیں او رہر طرح کی دھمکیوں اور شرارتوں کے درمیان احتجاج کی لو تیز کی۔ یہ سمجھ لیں کہ اگر اس ملک میں دہلی کا شاہین باغ نہ بنتا اور اس کی دیکھا دیکھی ملک بھر میں دوسرے شاہین باغ وجود میں نہ آتے تو نہ ہی راجستھان، کیرالہ اور مغربی بنگال کی اسمبلیوں میں شہریت مخالف ترمیمی قانون کے خلاف قراردادیں منظور ہوتیں او رنہ ہی ملک کی غیر بھاجپائی ریاستیں اپنی اپنی ریاستوں میں این آر سی اور این پی آر نہ نافذ کرنے کا اعلان کرتیں۔ یہ شاہین باغ کا احتجاج ہی ہے کہ آج عدالت یوگی سرکار سے یہ دریافت کررہی ہے کہ بھلا اس نے احتجاجی مظاہرین کی املاک اور جائیدادیں کیوں قرق کی ہیں۔ اور یہ شاہین باغ ہی کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں، دلتوں اور دیگر اقوام کی بہت بڑی اکثریت آکر کھڑی ہوگئی ہے اور سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت میں وہاں بیٹھی خواتین کی آواز میں اپنی آواز ملا رہی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ شاہین باغ آج مودی اور شاہ کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ ساری دنیا میں سی اے اے کی غیر آئینی حیثیت اگر اجاگر ہوئی ہے تو اس لیے کہ ملک بھر کے شاہین باغوں نے غیر ممالک کی توجہ اپنی جانب کھینچی ہے۔ بیرونی ممالک اتنی بڑی تعداد میں احتجاج کرنے والی خواتین کو دیکھ کر سی اے اے کے نقصانات پر سوچنے کےلیے آمادہ ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ سے لے کر یوروپی یونین تک میں سی اے اے کی مخالفت ممکن ہوسکی ہے۔ اور یہ شاہین باغ ہی ہے جس نے امیت شاہ کی زبان سے یہ جملے ادا کروائے ہیں کہ دہلی الیکشن میں بی جے پی کو ووٹ شاہین باغ ہٹوانے کےلیے دیاجائے۔ یعنی امیت شاہ شاہین باغ کی طاقت کا احساس کرنے پر لاچار ہوئے ہیں۔ شاہین باغ چونکہ اس ملک کے بے بسوں کی جدوجہد کی طاقتور علامت بن گیا ہے اس لیے اس کا ہٹنا اس علامت کا ڈھہ جانا ہوگا۔ پر کیا کیاجائے کہ مسلمان قوم ہمیشہ دوسروں کے اشارے پر چلنے کو تیار رہتی ہے ، وہ یہ سوچتی تک نہیں کہ اس میں نقصان ہی نقصان ہے۔ اللہ کےلیے اب مسلمان ہوش میں آئیں او راپنے اچھے برے کو سمجھیں۔ شاہین باغ ہمیشہ نہیں رہے گا ایک دن ہٹے گا لیکن ابھی وہ موقعہ نہیں آیا ہے۔