وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی
از 🖋
احتشام الحق، مظاہری، کبیر نگری،
ہمارا ملک ہندوستان جو اسلامی دنیا کے ایک سرے پر واقع ہے، دینی ذوق و شوق اور خدا طلبی کا ایک بڑا مرکز رہا ھے یہاں ہر دور میں مسلمان سلاطین کی سلطنت کے پہلو بہ پہلو دینی وروحانی حکومت کے آزاد مرکز قائم تھے جہاں سیکڑوں ہزاروں اشخاص اپنے زمانے کی تمام مادی ترغیبات سے آزاد اور حکومت و سیاست کے انقلابات سے بے نیاز ہو کر اپنا کام کرتے تھے، عالم اسلامی کے مرکزی شہروں میں تقریبا ہر جگہ ایسے اشخاص موجود تھے جن کی ذات بحرِ ظلمات میں روشنی کا مینار تھی لوگ پروانوں کی طرح اسی روشنی پر گرتے تھے دنیا کے دور دراز گوشوں سے طالبین خدا وہاں جمع ہوتے تھے وہ مسلمانوں کی ایک بڑی بین الاقوامی آبادی ہوتی تھی جہاں ایک وقت میں مشرق و مغرب، شمال، جنوب، کے مسلمان پائے جاتے تھے اور اسلام کی وسیع دنیا وہاں سمٹی ہوئی نظر آتی تھی ، لیکن، آج کے اس پرفتن دور میں ہمارے دل کی انگیٹھیاں اس قدر سرد ہو چکی ہیں کہ اس میں کسی طرح گرمی پیدا کرنا ہمارے لئے انتہائی دشوار ہو چکا ھے، اس زمانے میں ہر قوم میں ایک بڑا طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ھے جس کی دنیاوی مشغولیت و انہماک یا دنیا کی محبت و حرص نے ان کی زندگی میں دین کے لئے کوئی خانہ خالی ہی نھیں چھوڑا ، اج ہم نے خود ہی دین کے تمام شعبے کو اپنی زندگی سے نکال بار پھینک دیا ھے
آج انسان بے قیمت کیوں ہو گیا ، کیا آج علماء ہمارے پاس موجود نھیں،، شیخ سعدی سادرویش منصور ساجانثاراور عاشق رسول، بہلول جیسا ولی، رابعہ بصری سی قلندر، حسن بصری سا فقیر، سب کے نقش قدم پہ چلنا ہم بھول گئے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیﷺ کی سنت کی پیروی کون کرے گا؟ وہ پیارا نبی کہ جو اپنی امت کی بخشش پہ اتنا رویا کرتا تھا کہ ریش مبارک بھیگ جاتی تھی تو بتایئے کیسے ہماری پریشانیاں دور ہونگی،کیسے ہماری بخشش ہوگی ؟ ہم تو چاہتوں کی رگیں بھی کریدنے لگیں ہیں ہوس کی سرخی ہمارے چہروں کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے کوئی مسیحا کوئی چارہ گر کوئی غمگسار نظر نہیں آتا۔ آسماں کا رنگ سرخ وسیاہ ہو رہا ہے اور زمین قبرستان بنتی جا رہی ہے
یہی وجہ کہ آج کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا بھر سے جو تصاویر اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں وہ بڑی اندوہ ناک ہیں ۔بڑے بڑے فرعونوں کی آنکھوں میں بے بسی اور آنسو انسان کو اسکی اوقات یاد دلا رہے ہیں ۔اور کورونا کی آڑ میں تڑپتے جسم شام و عراق ، افغانستان و برما ، الجزائر و فلسطین اور کشمیر میں ایک طویل عرصے سے مسلمانوں کے کٹے پھٹے اور تڑپتے جسموں کی یاد دلا رہے ہیں ۔
مسلمانوں، زرا، سوچو،، ہم وہی ہیں نا ۔ ۔ ۔ ؟
جن کو کسی کی تکلیف سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ۔ ۔
ہم وہی ہیں نا ۔ ۔ ۔ ؟
جب کشمیر میں کرفیو لگا ہوا تھا اور وہاں لوگ ظلم سے تڑپ رہے تھے تو ہم طرح، طرح کی خوشیاں منا رہے تھے اور بازاروں میں گھوم رہے تھے ۔جب عراق و شام میں بھوک سے بچے مر رہے تھے تو ہمارے دسترخوان طرح طرح کے کھانوں سے سجے ہوتے تھے ۔،،،ہمیں کہا گیا تم ایک جسم کی مانند ہو ہم نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا ۔
ہمیں کہا گیا مظلوموں کی مدد کرنا ،
ہم نے کہا ۔ ۔ ۔ ہمیں کیا ۔ ۔ ۔ ہمیں انجوائے کرنے دو ۔ ۔ ۔ کبھی زلزلوں سے ہمیں ہلایا گیا ، کبھی سیلابوں سے ہمیں بہایا گیا ، ہم ٹس سے مس نہ ہوئے ، ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نعوذ باللہ پاؤں تلے روندنا اپنی شان سمجھنا شروع کر دیا ۔ ۔ ہم گناہوں پر اصرار کرنے لگے ۔ ۔
ہمیں کہا گہا میوزک حرام ہے ۔ ۔ ہم نے کہا نیا دور ہے نئی بات کرو اب ۔ ۔
نیا زمانہ ، نئے تقاضے کی رٹ لگائے ہم اپنے دین سے بھاگتے چلے گئے ۔ ۔
ہماری عورتوں کو کہا گیا گھروں میں بیٹھی رہو ، ہماری عورتوں نے کہا ہم آزاد ہیں جو مرضی کرتے پھریں ۔ ۔ اسلام کی روک ٹوک ہمیں عیب لگنے لگی ۔
ہماری عورت نے پردہ کے حکم خداوندی کو معیوب سمجھ کر ترک کردیا ۔
ہمیں بتایا گیا کہ بے حیائی اللہ کے عذاب کو دعوت دیتی ہے ۔ ۔
ہم نے کہا ۔ ۔ کونسا عذاب ؟
ہم تو امت محمدیہ میں سے ہیں ،
گویا ہم نے سمجھا ہم بخشے بخشائے سیدھا جنتی ہوگئے ۔،،،،، آج کورونا بتا رہا ہے کہ میں امر خداوندی ہوں ۔ ۔ ۔ میں ایک چھوٹا سا ذرہ تمہیں ںے بس کردوں گا ، پھر تم اپنی مرضی کر کے دکھا دینا ۔ آج بڑے بڑے فرعون آسمان کی جانب دیکھ رہے ہیں .واہ میرے شان والے رب ۔ ۔ ۔میری جان تیری عظمت پر قربان ۔ ۔ ❤
تو نے ایک مچھر سے کام لیا تو کبھی ابابیل سے ۔ ۔
اور اب تو ایک ذرہ سے فرعونوں اور نافرمانوں کو بے بس کر رہا ہے ۔ مسلمانوں،، اب تو غوث اعظم کا در بھی بند ہوگیا اب کون سنے گا فریاد ، داتا "کا در بند ہوگیا مشکل کشا " کا در بند ہوگیا
اب کیسے دور ہونگی مشکلیں ؟ غریب نواز " کا در بند ہوگیا اب کون نوازے گا غریبوں کو ؟دستگیر " کا در بند ہوگیا اب کون تھامے گا مصیبت میں
لیکن، مومنوں،،،، غم نہ کرو یہ سب صفات میرے رب جلیل کی ہیں جو ہم نے مردہ مخلوق میں تقسیم کر کے اپنے لئے عذاب مول لے لیا ہے ۔اگر ساری مردہ ہستیوں کے در بند ہو بھی گئے تو کوئی بات نہیں ، ان ساری ہستیوں پر ایک ایسی ہستی زندہ اور جاوید ہستی ہے جس کا در کبھی بند نہیں ہوسکتا ، اور وہ ہستی زمین و آسمان اور اس کے درمیان جو کچھ بھی ہے ان سب کا رب ہے ۔ اور کتنی خوش قسمتی اور کتنے اعزاز کی بات ہے ہمارے لئے کہ ہمارا رب ہم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ۔۔۔
ادعونی استجب لکم
(مجھے پکاروں میں تمہاری فریاد سننے والا ہوں )
ماں اولاد کے دل کی خواہش جان لیتی ہیں
ہاں وہ نادانی میں نقصان کی چیز مانگے تو بس وہ نہیں دیتی ورنہ اولاد کی خواہش پوری کرنے کے لئے ماں کو کسی سفارش کی ضرورت نہیں ۔
پھر آپ خود ہی سوچیں وہ رب کائنات جو ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندے سےمحبت کرنے والا ہے وہ بھلا اپنے بندوں کی پکار کیوں نہ سنے گا ۔
مومنوں آنکھیں کھولو ، کس غفلت میں پڑے ھوئے ھو، کیا ہمارے جاگنے کا اسکے بعد بھی پھر کوئی موقع آئیگا ، اب بھی ہماری آنکھیں نھیں کھلینگی ، کہ آج جو ہمارے اوپر کرونا وائرس جیسے دیگر عذابات ھیں ، ہمارے سامنے ملک کا جو منظر نامہ ھے ، اسکا تجزیہ ہمارے لئے بہت ضروری ھے، ہم اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو کہتے ھیں ، ہم دنیا سے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کےلئے اٹھے تھے، لاعلمی کے اندھیروں کو دور کرنے کے دعوے دار ہم خود کتنی عظیم مجرمانہ لاعلمی کے شکار ہیں، ستم یہ کہ ہم نے خود قرآن کو چھوڑ دیا، قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ھےکہ میرے پاس تمام مسائل کا حل ھے ، مجھ سے فیصلہ کرو، ہم ہر جگہ پسپا ہورھے ھیں لیکن پھر بھی اپنی عقلوں کے فیصلے کرنے پر مجبور ھیں،
،کیا اھلِ ایمان کو اس انجام سے ڈرنے کی ضرورت نھیں ؟ آج حقیقت کو فراموش کرکے روایات باقی رہ جانے والی خرابی ہمارے اندر پیدا ھوگئی ھے ، حقیقت تو یہ تھی کہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرکے، نمازیں فرائض کے ساتھ صلوۃ التوبہ اور صلوۃ الحاجۃ ، کا اہتمام کریں، تاکہ ، ایمان و اسلام کا مستقبل ، محفوظ ھو اور ترقی پائے، اور ان ظالم حکمرانوں کے لئے بد دعا بھی کریں کہ اللہ انکے منصوبوں کو خاک بنا کر انھیں پر لوٹا دے، اللہ کا در ہروقت کھلا ھوا ھے یہ یقین اور ایمان کی کمزوری ہوتی ھے کہ اسے چھوڑ کر مخلوق کے بند دروازے پر کھڑے ھوکر ذلت اٹھائی جائے ، دو رکعت نماز کے ذریعہ اس کھلے در کی طرف رجوع کریں،
ارشاد ربانی ہے ۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے بندے جب آپ سے میرے متعلق سوال کریں ، تو بے شک میں قریب ہوں جب کوئی مجھ سے دعا مانگے ، تو میں اس مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ۔
سورت النحل میں ارشاد ہے ۔
کون ہے اس کے سوا جو مصیبت زدوں کی پکار سنتا ہے جب وہ اسے پکارتے ہیں ۔
یہ جو آپ لوگوں نے آسرے ڈھونڈ رکھے ہیں قرآن ان کی نفی کرتا ہے وہ جو ہماری شہہ رگ سے قریب ہے کیسے ہماری ضرورتوں سے بے خبر رہ سکتا ہے ہلاکت ہے بربادی ہے ان لوگوں کے لئے کہ جو اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کر کے شرک کرتے ہیں آج ان سے پوچھو کہ اب کیا ہوگا اب تو سوائے رب کے در کے سب در بند ہو گئے ۔
اللہ تعالی ہی مسبب الااسباب اور قاضی الحاجات ہے وہ انسان کی شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے ، اسے پکاروں وہ سنتا ہے انسان کا عاجزی کے ساتھ گڑگڑانا اس کے حضور اپنی ہر حاجت کے لئے دعا کرنا اس کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل ہے دعا ایک بڑی عبادت ہے تم باقاعدگی سے نماز پڑھو اور کثرت سے استغفار کرو ۔ان شاءاللہ اللہ واحد تمام پریشانیاں دور کر دے گا تم اس کی رحمت مغفرت طلب کرتے رہو
اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اس سے جو مانگوں دیتا ہے وہ رب کائنات جو ستر ماؤں سے زیادہ شفقت والا ہے وہ بھلا اپنے بندے کی پکار کیوں نہ سنے گا ،
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہو گی
از 🖋
احتشام الحق، مظاہری، کبیر نگری،
ہمارا ملک ہندوستان جو اسلامی دنیا کے ایک سرے پر واقع ہے، دینی ذوق و شوق اور خدا طلبی کا ایک بڑا مرکز رہا ھے یہاں ہر دور میں مسلمان سلاطین کی سلطنت کے پہلو بہ پہلو دینی وروحانی حکومت کے آزاد مرکز قائم تھے جہاں سیکڑوں ہزاروں اشخاص اپنے زمانے کی تمام مادی ترغیبات سے آزاد اور حکومت و سیاست کے انقلابات سے بے نیاز ہو کر اپنا کام کرتے تھے، عالم اسلامی کے مرکزی شہروں میں تقریبا ہر جگہ ایسے اشخاص موجود تھے جن کی ذات بحرِ ظلمات میں روشنی کا مینار تھی لوگ پروانوں کی طرح اسی روشنی پر گرتے تھے دنیا کے دور دراز گوشوں سے طالبین خدا وہاں جمع ہوتے تھے وہ مسلمانوں کی ایک بڑی بین الاقوامی آبادی ہوتی تھی جہاں ایک وقت میں مشرق و مغرب، شمال، جنوب، کے مسلمان پائے جاتے تھے اور اسلام کی وسیع دنیا وہاں سمٹی ہوئی نظر آتی تھی ، لیکن، آج کے اس پرفتن دور میں ہمارے دل کی انگیٹھیاں اس قدر سرد ہو چکی ہیں کہ اس میں کسی طرح گرمی پیدا کرنا ہمارے لئے انتہائی دشوار ہو چکا ھے، اس زمانے میں ہر قوم میں ایک بڑا طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ھے جس کی دنیاوی مشغولیت و انہماک یا دنیا کی محبت و حرص نے ان کی زندگی میں دین کے لئے کوئی خانہ خالی ہی نھیں چھوڑا ، اج ہم نے خود ہی دین کے تمام شعبے کو اپنی زندگی سے نکال بار پھینک دیا ھے
آج انسان بے قیمت کیوں ہو گیا ، کیا آج علماء ہمارے پاس موجود نھیں،، شیخ سعدی سادرویش منصور ساجانثاراور عاشق رسول، بہلول جیسا ولی، رابعہ بصری سی قلندر، حسن بصری سا فقیر، سب کے نقش قدم پہ چلنا ہم بھول گئے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیﷺ کی سنت کی پیروی کون کرے گا؟ وہ پیارا نبی کہ جو اپنی امت کی بخشش پہ اتنا رویا کرتا تھا کہ ریش مبارک بھیگ جاتی تھی تو بتایئے کیسے ہماری پریشانیاں دور ہونگی،کیسے ہماری بخشش ہوگی ؟ ہم تو چاہتوں کی رگیں بھی کریدنے لگیں ہیں ہوس کی سرخی ہمارے چہروں کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے کوئی مسیحا کوئی چارہ گر کوئی غمگسار نظر نہیں آتا۔ آسماں کا رنگ سرخ وسیاہ ہو رہا ہے اور زمین قبرستان بنتی جا رہی ہے
یہی وجہ کہ آج کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا بھر سے جو تصاویر اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں وہ بڑی اندوہ ناک ہیں ۔بڑے بڑے فرعونوں کی آنکھوں میں بے بسی اور آنسو انسان کو اسکی اوقات یاد دلا رہے ہیں ۔اور کورونا کی آڑ میں تڑپتے جسم شام و عراق ، افغانستان و برما ، الجزائر و فلسطین اور کشمیر میں ایک طویل عرصے سے مسلمانوں کے کٹے پھٹے اور تڑپتے جسموں کی یاد دلا رہے ہیں ۔
مسلمانوں، زرا، سوچو،، ہم وہی ہیں نا ۔ ۔ ۔ ؟
جن کو کسی کی تکلیف سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ۔ ۔
ہم وہی ہیں نا ۔ ۔ ۔ ؟
جب کشمیر میں کرفیو لگا ہوا تھا اور وہاں لوگ ظلم سے تڑپ رہے تھے تو ہم طرح، طرح کی خوشیاں منا رہے تھے اور بازاروں میں گھوم رہے تھے ۔جب عراق و شام میں بھوک سے بچے مر رہے تھے تو ہمارے دسترخوان طرح طرح کے کھانوں سے سجے ہوتے تھے ۔،،،ہمیں کہا گیا تم ایک جسم کی مانند ہو ہم نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا ۔
ہمیں کہا گیا مظلوموں کی مدد کرنا ،
ہم نے کہا ۔ ۔ ۔ ہمیں کیا ۔ ۔ ۔ ہمیں انجوائے کرنے دو ۔ ۔ ۔ کبھی زلزلوں سے ہمیں ہلایا گیا ، کبھی سیلابوں سے ہمیں بہایا گیا ، ہم ٹس سے مس نہ ہوئے ، ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نعوذ باللہ پاؤں تلے روندنا اپنی شان سمجھنا شروع کر دیا ۔ ۔ ہم گناہوں پر اصرار کرنے لگے ۔ ۔
ہمیں کہا گہا میوزک حرام ہے ۔ ۔ ہم نے کہا نیا دور ہے نئی بات کرو اب ۔ ۔
نیا زمانہ ، نئے تقاضے کی رٹ لگائے ہم اپنے دین سے بھاگتے چلے گئے ۔ ۔
ہماری عورتوں کو کہا گیا گھروں میں بیٹھی رہو ، ہماری عورتوں نے کہا ہم آزاد ہیں جو مرضی کرتے پھریں ۔ ۔ اسلام کی روک ٹوک ہمیں عیب لگنے لگی ۔
ہماری عورت نے پردہ کے حکم خداوندی کو معیوب سمجھ کر ترک کردیا ۔
ہمیں بتایا گیا کہ بے حیائی اللہ کے عذاب کو دعوت دیتی ہے ۔ ۔
ہم نے کہا ۔ ۔ کونسا عذاب ؟
ہم تو امت محمدیہ میں سے ہیں ،
گویا ہم نے سمجھا ہم بخشے بخشائے سیدھا جنتی ہوگئے ۔،،،،، آج کورونا بتا رہا ہے کہ میں امر خداوندی ہوں ۔ ۔ ۔ میں ایک چھوٹا سا ذرہ تمہیں ںے بس کردوں گا ، پھر تم اپنی مرضی کر کے دکھا دینا ۔ آج بڑے بڑے فرعون آسمان کی جانب دیکھ رہے ہیں .واہ میرے شان والے رب ۔ ۔ ۔میری جان تیری عظمت پر قربان ۔ ۔ ❤
تو نے ایک مچھر سے کام لیا تو کبھی ابابیل سے ۔ ۔
اور اب تو ایک ذرہ سے فرعونوں اور نافرمانوں کو بے بس کر رہا ہے ۔ مسلمانوں،، اب تو غوث اعظم کا در بھی بند ہوگیا اب کون سنے گا فریاد ، داتا "کا در بند ہوگیا مشکل کشا " کا در بند ہوگیا
اب کیسے دور ہونگی مشکلیں ؟ غریب نواز " کا در بند ہوگیا اب کون نوازے گا غریبوں کو ؟دستگیر " کا در بند ہوگیا اب کون تھامے گا مصیبت میں
لیکن، مومنوں،،،، غم نہ کرو یہ سب صفات میرے رب جلیل کی ہیں جو ہم نے مردہ مخلوق میں تقسیم کر کے اپنے لئے عذاب مول لے لیا ہے ۔اگر ساری مردہ ہستیوں کے در بند ہو بھی گئے تو کوئی بات نہیں ، ان ساری ہستیوں پر ایک ایسی ہستی زندہ اور جاوید ہستی ہے جس کا در کبھی بند نہیں ہوسکتا ، اور وہ ہستی زمین و آسمان اور اس کے درمیان جو کچھ بھی ہے ان سب کا رب ہے ۔ اور کتنی خوش قسمتی اور کتنے اعزاز کی بات ہے ہمارے لئے کہ ہمارا رب ہم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ۔۔۔
ادعونی استجب لکم
(مجھے پکاروں میں تمہاری فریاد سننے والا ہوں )
ماں اولاد کے دل کی خواہش جان لیتی ہیں
ہاں وہ نادانی میں نقصان کی چیز مانگے تو بس وہ نہیں دیتی ورنہ اولاد کی خواہش پوری کرنے کے لئے ماں کو کسی سفارش کی ضرورت نہیں ۔
پھر آپ خود ہی سوچیں وہ رب کائنات جو ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندے سےمحبت کرنے والا ہے وہ بھلا اپنے بندوں کی پکار کیوں نہ سنے گا ۔
مومنوں آنکھیں کھولو ، کس غفلت میں پڑے ھوئے ھو، کیا ہمارے جاگنے کا اسکے بعد بھی پھر کوئی موقع آئیگا ، اب بھی ہماری آنکھیں نھیں کھلینگی ، کہ آج جو ہمارے اوپر کرونا وائرس جیسے دیگر عذابات ھیں ، ہمارے سامنے ملک کا جو منظر نامہ ھے ، اسکا تجزیہ ہمارے لئے بہت ضروری ھے، ہم اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو کہتے ھیں ، ہم دنیا سے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کےلئے اٹھے تھے، لاعلمی کے اندھیروں کو دور کرنے کے دعوے دار ہم خود کتنی عظیم مجرمانہ لاعلمی کے شکار ہیں، ستم یہ کہ ہم نے خود قرآن کو چھوڑ دیا، قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ھےکہ میرے پاس تمام مسائل کا حل ھے ، مجھ سے فیصلہ کرو، ہم ہر جگہ پسپا ہورھے ھیں لیکن پھر بھی اپنی عقلوں کے فیصلے کرنے پر مجبور ھیں،
،کیا اھلِ ایمان کو اس انجام سے ڈرنے کی ضرورت نھیں ؟ آج حقیقت کو فراموش کرکے روایات باقی رہ جانے والی خرابی ہمارے اندر پیدا ھوگئی ھے ، حقیقت تو یہ تھی کہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرکے، نمازیں فرائض کے ساتھ صلوۃ التوبہ اور صلوۃ الحاجۃ ، کا اہتمام کریں، تاکہ ، ایمان و اسلام کا مستقبل ، محفوظ ھو اور ترقی پائے، اور ان ظالم حکمرانوں کے لئے بد دعا بھی کریں کہ اللہ انکے منصوبوں کو خاک بنا کر انھیں پر لوٹا دے، اللہ کا در ہروقت کھلا ھوا ھے یہ یقین اور ایمان کی کمزوری ہوتی ھے کہ اسے چھوڑ کر مخلوق کے بند دروازے پر کھڑے ھوکر ذلت اٹھائی جائے ، دو رکعت نماز کے ذریعہ اس کھلے در کی طرف رجوع کریں،
ارشاد ربانی ہے ۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے بندے جب آپ سے میرے متعلق سوال کریں ، تو بے شک میں قریب ہوں جب کوئی مجھ سے دعا مانگے ، تو میں اس مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ۔
سورت النحل میں ارشاد ہے ۔
کون ہے اس کے سوا جو مصیبت زدوں کی پکار سنتا ہے جب وہ اسے پکارتے ہیں ۔
یہ جو آپ لوگوں نے آسرے ڈھونڈ رکھے ہیں قرآن ان کی نفی کرتا ہے وہ جو ہماری شہہ رگ سے قریب ہے کیسے ہماری ضرورتوں سے بے خبر رہ سکتا ہے ہلاکت ہے بربادی ہے ان لوگوں کے لئے کہ جو اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کر کے شرک کرتے ہیں آج ان سے پوچھو کہ اب کیا ہوگا اب تو سوائے رب کے در کے سب در بند ہو گئے ۔
اللہ تعالی ہی مسبب الااسباب اور قاضی الحاجات ہے وہ انسان کی شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے ، اسے پکاروں وہ سنتا ہے انسان کا عاجزی کے ساتھ گڑگڑانا اس کے حضور اپنی ہر حاجت کے لئے دعا کرنا اس کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل ہے دعا ایک بڑی عبادت ہے تم باقاعدگی سے نماز پڑھو اور کثرت سے استغفار کرو ۔ان شاءاللہ اللہ واحد تمام پریشانیاں دور کر دے گا تم اس کی رحمت مغفرت طلب کرتے رہو
اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اس سے جو مانگوں دیتا ہے وہ رب کائنات جو ستر ماؤں سے زیادہ شفقت والا ہے وہ بھلا اپنے بندے کی پکار کیوں نہ سنے گا ،
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہو گی