اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اٹھ! کہ اب وقتِ قیام آیا 🖊 ظفر امام

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 2 April 2020

اٹھ! کہ اب وقتِ قیام آیا 🖊 ظفر امام

                    اٹھ! کہ اب وقتِ قیام آیا
                                       🖊 ظفر امام
----------------------------------------------------------
       تبلیغ ہماری روح ہے تبلیغ ہماری جان ، تبلیغ ہمارے دین کی پاسبان ہے تبلیغ ہمارے مذہب کی نگہبان ، تبلیغ ہماری ملت کی محافظ ہے ، تبلیغ مشکوٰۃِ نبی کی فیضان ، تبلیغ بیتاب دل کے چین کی سامان ہے تبلیغ بےقرار سینوں کے سکون کی وجدان ، تبلیغ ظلمت کدۂ عالم میں ظلمت و تاریکی کے گہرے سائے کو چھانٹنے والا ایک ایسا ضوفشاں چراغ ہے کہ جس کی ضیاء پاش کرنیں بزمِ کائنات کے ہر افق پر جلوہ ریز ہیں ، تبلیغ ایک ایسا شجرِ طوبی ہے جس کی گھنیری اور دراز شاخیں پورے عالمِ اسلام میں پھیلی ہوئی ہیں ، جن کے ظل ظلیل اور راحت بخش چھاؤں سے بیک وقت لاکھوں کروڑوں خلقِ خدا مستفید ہورہی ہیں ، تبلیغ ایک ایسی روح پرور اور فرحت بخش خوشبو ہے جو اپنی عطر فشانی و مشک باری خصوصیات سے ابنائے آدم کے مشامہائے جان کو ہر آن مہکائے رکھتی ہے ، تبلیغ ایک ایسی چھاؤنی اور ایک ایسا پڑاؤ ہے جس کے سایہ تلے آکر راہِ حق سے منحرف اور دینِ محمدی ﷺ کے گمشدہ مسافرین کے ہزاروں قافلوں کو اپنی سمتِ منزل کا پتہ چلتا ہے اور ایک جاودانی خوشی کے احساس کی کونپلیں ان کے اندر سر ابھارنی شروع کردیتی ہیں ، اور تبلیغ ایک ایسی مقناطیسی کشش اور جاذبِ روح عنصر ہے کہ جس کے دامن سے وابستگی کے بعد حیاتِ انسانی کی ایسی کایا پلٹ ہوتی ہے کہ انسان بس اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر اس کا روز و شب مرضئ مولی کے موافق گزرنے لگتا ہے؛
        لیکن! افسوس کہ آج یہی تبلیغ اپنی سینکڑوں خصوصیات اور ہزاروں امتیازات کے بعد بھی حاسدینِ اسلام کی ترچھی نگاہوں کی زَد میں ہے ، معاندینِ اسلام اپنے کفر و عناد کے زہر آلود تیروں سے اس پر چاند ماری کر رہے ہیں ، پرستارانِ اصنام کی آتش فشاں اور تعفن آمیز زبانیں اسے ہدفِ ملامت بنا رہی ہیں اور وقت کے عفریت غضبِ خداوندی اور قہرِ الہی کا سارا ٹھیکرا اسی تبلیغ کے سر پھوڑ رہے ہیں؛
       بھلا بتائیے کہ کیا یہ بیہودہ خیال اور بچکانہ حرکت نہیں ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا ایک ایسی اذیت ناک دور سے گزر رہی ہے کہ شاید اس سے پہلے کبھی نہ گزری ہوگی ، کائناتِ ارضی پر ایک عجیب نفسا نفسی کی کیفیت طاری ہوگئی ہے ، ڈر اور خوف کا ایک ایسا سماں بندھ گیا ہے کہ نظامِ کائنات ایک دم سے تھم سا گیا ہے ، بڑے سے بڑے سورماؤں اور سپر پاوروں کی ہوا اکھڑ گئی ہے ، آمد و رفت کے تمام ذرائع مسدود ہوگئے ہیں ، ہر شخص کی رحم طلب نگاہیں آسمان کی طرف مرکوز ہیں؛ اور التجا بھری نظروں سے ابرِ رحمت کے منتظر ہیں لیکن! یہ فرعونی خصلت اور قارونی صفت ابنائے شیطان نہ جانے کس غرور اور گھمنڈ کے نشے میں دھت ہیں کہ وہ اس قہرِ الہی اور غضبِ خداوندی کو یکسر بالائے طاق رکھ کر اسلام اور اہالیانِ اسلام  کے درپے آزار ہوگئے ہیں ، اور انہیں بدنام کرنے کی کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں؛
              در اصل یہ نیولے اسی تاک میں گھات لگائے بیٹھے تھے کہ کب ہمیں کوئی شوشہ ملتا ہے اور ہم اپنے اسلحۂ ظلم اور آلاتِ قہر سے لیس ہو کر پِل پڑیں ان کے نازک وجود پر ، اسی وجہ سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیائے تبلیغ کے سب سے بڑے مرکز ( نظام الدین دہلی ) میں لاک ڈاؤن ہوجانے کی وجہ سے سینکڑوں لوگ پھنسے ہوئے ہیں ، اس طرف کوئی توجہ نہ دی ، جبکہ رپورٹوں کی مانیں تو یہ بات جگ آشکار ہوجاتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد مرکز کے ذمہ داروں نے باضابطہ تحریری طور پر حکومت سے یہ مانگ بھی کی تھی کہ ہمارے لئے کوئی راستہ نکالا جائے ، لیکن حکومت نے اس طرف بالکل بھی کان نہ دھرا کیونکہ اسے تو مرکز کو اپنی شکار گاہ بنانا تھا ، اور قہرِ الہی کا سارا غصہ ان بےچارے مظلوم اور نہتے مسلمانوں پر اتارنا تھا ، سو انہوں نے وہی کیا جس کی فکر ان کی گردنوں پر ہر وقت سوار رہتی ہے ، اور جس کو انجام دینے سے شاید ان کے دلوں کو یک گونہ راحت ملتی ہے؛
        آج پورے ملک کی سڑکوں پر یہ دلال میڈیا اور حکومت کے کاسہ لیس جس جرأتِ رندانگی کا مظاہرہ کررہے ہیں ، اور مسلمانوں کے قیمتی ووٹوں سے اپنے اقتدار کی کرسی تعمیر کرنے والا احسان فراموش کیجریوال جس طرح کی بیہودہ بیان بازی کر رہا ہے ، یہ تاریخِ ہند میں سیاہ دور سے تعبیر کیا جائےگا ، جس کے مہیب اور خطرناک جراثیم یہیں تھمنے والے نہیں ہیں بلکہ مستقبل میں اس کے نتائج نہایت دور رس ثابت ہونے والے ہیں ، ان شاء اللہ کبھی یہ وقت قلا بازی کھائےگا اور پھر زمانہ دیکھےگا کہ یہ ٹکڑوں پر بکنے والے کاسہ لیس اور مسلمانوں کے ووٹوں پر اقتدار کی کرسی تعمیر کرنے والا احسان فراموش کس طرح اپنی موت آپ مرتے ہیں؛ 
          الغرض آج ملت ایک بار پھرمعرضِ خطر میں ہے ، مذہبِ اسلام کفر کے پنجوں میں آہیں بھر رہا ہے ، مرکز نظام الدین کے در و دیواروں سے اس کے معماروں کی جگر دوز سسکیاں آتی سنائی دے رہی ہیں اور یہ ناہنجار حکومت اپنی آنکھوں میں تبلیغ کی آڑ میں قلعۂ اسلام کو ہی زمیں دوز کرنے کے خواب سجا رہی ہے ، اس لئے اے دلداگانِ اسلام! اور اے فرزندانِ توحید! آج تمہارے اکابرین کے ہاتھوں سے آبیار شدہ یہ درخت لکڑہاروں کے نرغے میں چلا گیا ہے جو اپنے دھار دار ہتھیاروں سے اسے زمین بوس کردینا چاہتے ہیں ، آج ہمارے مرکز میں کفر کا قفل لگ چکا ہے ، ہمارے داعیانِ اسلام پر ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے ، ان سے نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن! بات ہے ملت کو بچانے کی ، بات ہے مذہب کو کفر کے پنجوں سے چھڑانے کی اور بات ہے دین کو معاندین کے نرغے سے چھٹکارا دلانے کی ، سو مسلکی تعصب اور ذاتی منافرت سے اوپر اٹھ جاؤ اور یک جٹ ہو کر اپنی بیانی ، زبانی اور قلمی قوت سے خرمنِ کفر میں زلزلہ بپا کرتے ہوئے اپنی میراث کی بازیابی کی ہر امکان کوشش کرو!
     اور یاد رکھو! کہ یہ تبلیغ کارِ نبوت کی پرتو ، ہمارے اسلاف کے خونِ جگر سے سینچی گئی ایک یادگار متروکہ اور اس تاریک زدہ ماحول میں چراغِ سحر کی حیثیت رکھتی ہے ، جس کے دم قدم سے یہ محفلِ جہاں روشن ہے ، اگر زمانے کے زہرناک پھنکار سے یہ چراغ سحر بھی دم توڑگیا تو پھر سمجھ لو کہ تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن جائےگی؛

                       ظفر امام ، کھجورباڑی
                           خادم التدریس 
                       دارالعلوم بہادرگنج
                      ۷/ شعبان ١۴۴١ھ