( بیاد مفتی سعید احمد پالنپوری)
تحریر: مولانامحمد آصف صاحب قاسمی اعظمی
______________
19 مئی 2020 25 رمضان المبارک 1441بروز منگل* صبح آٹھ بجے بیدار ہوا اور موبائل جیسے ہی کھول کر دیکھا تو واٹشاپ پر کلمہ ترجیع ( *انا للہ وانا الیہ را جعون* ) کی کثرت نظر آئی دھڑکتے دل کے ساتھ جب تفصیل پڑھا تو قلب پارہ پارہ آنکھیں اشک بار ہوگئیں کچھ دیر سکتے کا عالم طاری رہا پھر حب طبیعت کو کچھ سنبھالا ملا تو ماضی کے دریچے کھلتے گئے جبکہ تعلیمی سلسلہ مکمل کرکے دارالعلوم سے آئے
تقریباً دو دہائیاں گزرچکی ہیں لیکن جب ماضی کا دفتر کھلا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کل کی بات ہے کہ ہم لوگ بعد نماز مغرب نودرے میں کھڑے صدر دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے اپنے محبوب ترین استاذ محدث عصر فقیہ نبیل علوم عقلیہ و نقلیہ کے جامع علوم ولی الہی اور علوم قاسمی کے شارح و ترجمان استاذی الجلیل حضرت مفتی *سعید احمد صاحب پالنپوری* کی آمد کے سراپا مشتاق انتظار کی گھڑیاں شمار کر رہے ہیں اور وقت مقررہ پر حضرت تشریف لاتے اور دارالحدیث میں قدم رنجہ فرماتے اورزبان ذکرالہی سےمعمورہوتی اور حدیث کا درس شروع ہوجاتا
*حضرت کا انداز درس اور تفہیم کا ملکہ*
علم حدیث کی انتہائی اہم ترین کتاب ترمذی شریف کا درس تقریباً تین دہائیوں تک آپ سے متعلق رہا غبی سے غبی طالب علم بھی اسکا اقرار کرنے پرمجبور ہے کہ ہم نے ترمذی شریف مکمل سمجھ کر پڑھا ہے حضرت شیخ الحدیث مفتی نصیر احمد خاں صاحب کے شدید ضعف کے بعد مسلسل بخاری شریف آپ سے متعلق ہوئی تو آپ نے بدرجہ اتم اسکا بھی حق ادا کیا حضرت جیسے ہی دارالحدیث کے قریب ہوتے پورے دارالحدیث میں سناٹے کا سماں چھا جاتا اور کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی حضرت درسگاہ میں موجود طلبہ پر ایک نگاہ ڈال کر مسند پر جلوہ افروز ہوجاتے اور زبان پر کلمہ *لا الہ الا اللہ* کا ورد ہوتا عبارت خوانی پر مامور طالب علم عبارت پڑھتا اور سبق شروع ہوجاتا اسکے بعد حضرت اتنی انہماک سے کلام فرماتے اور ایسا دلنشیں انداز اختیار کرتے اور گفتگو اتنی مرتب اور حشو وزوائد سے ایسی پاک ہوتی جیسے دل گواہی دیتا کہ اتنے معانی کے لئے اتنے ہی الفاظ کی وضع ہویئ
ہے اس میں ایک نقطہ کی کمی زیادتی محال ہے مسالک اربعہ بڑی تفصیل سے سمجھاتے اور ائمہ کے دلائل پوری قوت سے بیان فرماتے سند ومتن پر محدثانہ رنگ میں ڈوب کر کلام فرماتے اپنے مسلک کے ترجیحی پہلوؤں کو ایسا مدلل و مبرہن فرماتے کہ بسا اوقات طلبہ آپسی گفتگو میں بطور مزاح کہنے لگتے کہ اگر اس مسلک کی مرکزی شخصیت بھی ہوتی تو اسے بھی اپنے دلائل پر نظر ثانی کرنا پڑتا لیکن بحمد اللہ حضرت کی زبان و دل پر ادنی تخفیف کا بھی شائبہ نہ ہوتا بلکہ بسا اوقات احناف کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے جس مسلک کے رد میں گفتگو فرماتے انکے کچھ خصائص کا ذکر کردیتے تاکہ کوئی کج فہم کسی غلط بات پر اپنی عقل نہ دوڑانے لگے ( *بحمد اللہ یہی صورتحال تمام مسالک حقہ میں پائی جاتی ہے)*
مسائل فقہیہ کے بیان کے لئے اتنا سہل انداز اختیار فرماتے جیسے ترمذی شریف پڑھنے والے طالب علم کے سامنے تعلیم الاسلام کے مسائل بیان کئے جارہے ہوں بسا اوقات طلبہ کے گھروں سے آئے ہوئے انکے رشتہ دار جو غیر عالم ہوتے اور معمولی پرائمری کی تعلیم حاصل کئے ہوتے حضرت کے سبق میں برائے برکت بیٹھ جاتے وہ بھی اکثرمضامین سمجھ کر نصیبہ وروں میں اپنے کو شمار کرنے لگتے حضرت سبق کے بعد جب کتاب بند کرتے تو ایسا لگتا کہ ہر طالب علم بزبان حال کہ رہا ہو
*مجھے پینے دے پینے دے کہ تیرے جام لعلیں میں*
*ابھی کچھ اور ہے کچھ اور ہے کچھ اور ہے ساقی*
الحاصل جو کتاب بھی اپکے زیر درس رہتی ایسالگتاجیسےاپ اسے مشکل تر کتاب کا لذیذ مشروب بناکر طلبہ کے قلب و جگر میں بآسانی اتار دیتے ہیں بلکہ اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ افہام و تفہیم کے بادشاہ وقت تھے حقیقت یہ ہے کہ حضرت کی جدائی سے علم وتحقیق کا ایک باب مغلق ہوگیا اور آج کی کیفیت کچھ اس طرح ہے
*اٹھا شور محفل ناز سے ہوئیں آب دیدہ مسرتیں*
*لیا نام کس نے سعید کہ چراغ اشک کے جل گئے*
*حضرت کے بعض خصائص*
( 1)حضرت مفتی صاحب اپنے اوقات کی اس قدر حفاظت فرماتے کہ ایک لمحہ کا ضیاع ناممکن تھا بلکہ ہر آن کا کام مقرر تھا
(2)مطالعہ میں انہماک اس قدر ہوتا کہ اس دوران کسی بھی طرف التفات برداشت نہ فرماتے
(3) صحت کے زمانے میں ایک بجے سے قبل بستر استراحت پر نہ جاتے اس معمول میں کوئی بڑے سے بڑا طوفان تخلف نہ پیدا کرسکتا تھا
(4)کوئی بھی کلام تکلم سے پہلے انتہائی درجہ مرتب فرمالیتے کہ اگر انکی تقریر منضبط کردی جائے تو بغیر حذف و اضافہ کے کتابی شکل اختیار کر جاتی
(5)دنیا سے بے رغبتی حد درجہ تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ ایام تدریس میں لی ہوئی تنخواہوں کے ایک ایک پیسے کو واپس کردیا
*حضرت کا تصنیفی ذوق*
مبداء فیاض سے تصنیف کا بہت عمدہ ذوق دیا گیاتھا زبان انتہائی شستہ ترتیب کی حد درجہ رعایت حشووزوائد سے ایسا اجتناب جیسے الفاظ و معانی کو وزن کرکے ایک دوسرے کے بالمقابل رکھا گیا ہو جس میں ادنی کمی زیادتی کی مجال نہ تھی اعلی درجہ کی علمی تصانیف کی وجہ سے *سابق صدر جمہوریہ* کی طرف سے ایوارڈ سے نوازے گئے لیکن شہرت سے تنفر کی وجہ سے کم ہی لوگوں کو اسکا سراغ لگ سکا آپ کی تصانیف مختلف موضوعات پر ہیں درسی کتب کی شروحات ہیں بعض درسی مباحث کی مبادیات ہیں تصانیف میں *رحمۃ اللہ الواسعۃ* جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ولی اللہی علوم کے معانی کا بحرذخارہے جس پر تبصرہ *مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی*علیہ الرحمہ نے کچھ اس انداز سے کیا تھا کہ حضرت شاہ صاحب کے علوم پر لوگوں کا درک اسلیےآسان نہیں تھا کہ شاہ صاحب نے علم کے عرش پر بیٹھ کر کلام کیا تھا اس لئے فرش پر بیٹھے لوگوں کی رسائی وہاں ناممکن تھی اور حضرت مفتی سعید صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نےعرش کئ باتوں کو فرش پر لاکر سمجھادیا ہےاس لئے میری ناقص معلومات میں موجودہ دور میں ان علوم پر ایسی دست رس دنیاکے کسی بھی فرد کو حاصل نہیں ہے
اسی طرح *حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی* کے علوم سےپرکتابیں جواردو زبان میں لکھی گئی ہیں بہت سی کتابیں ایسی ہیں کہ جو ایک بحر ذخار کی حیثیت رکھتی ہیں جنکے تعلق تک پہنچنا ہمارے دور کے متبحر کہے جانے والے لوگوں کے لئے ناممکن نہ ہو تو مشکل ترین ضرور ہے لیکن استاد محترم حضرت مفتی سعید صاحب نے ایسی تسہیل کردی کہ ہم جیسے ظلوم و جہول سےمرکب بھی بآسانی استفادہ کرسکتے ہیں مثلا*مسئلہ قرأت خلف الامام* پر رقم کی ہوئی حضرت نانوتوی کی کتاب *توثیق الکلام فی مسئلہ قرأت خلف الامام* کئ تسہیل *کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟* کے نام سے کی جو قابل دید ہے
فن حدیث کے علاوہ مختلف فنون میں بطور خاص فن تفسیر میں *ہدایت القرآن* نامی تفسیر کی تکمیل آپ کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ صدیوں یاد کیا جاتا رہیگا باری تعالٰی انکے منافع کو عام وتام فرمائے
*تدریسی پابندی کا سبق آموز واقعہ*
دیوبند کی طالب علمی کے زمانے میں کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضری کی سعادت ہوجاتی تھی ایسے ہی ایک بار چند احباب کی معیت میں عصر کے بعد حاضری ہوئی کچھ دیر کے بعد دارالعلوم کے ایک استاذ ایک مہمان کو لے کر حاضر ہوئے مہان مکرم شہر بنگلور سے آئے تھے اور سفر کا مقصد اپنے شہر کے ایک بڑے پروگرام میں لے جانے کے لئے حضرت کو آمادہ کرنا تھا دونوں حضرات کی خواہشات کو قبول کرت ہوئے اور بطور خاص دارالعلوم کے استاد کی رعایت میں تاریخ مقرر کی گئی کچھ دیر بعد آپ کے گھر سے ایک بچہ نحو میر کا سبق سنانے آیا تو اسکو سبق اچھا یاد نہیں تھا جس کی وجہ سے آپ سخت ناراض ہوگئے اور بچہ کو زجر و توبیخ کرکے واپس کردیا اور مہمان مکرم اور دارالعلوم کے موقر استاذ سے کھلے لفظوں معذرت کر لیےاورفرمانےلگےکہ جب اتنی محنت پر گھر کے بچوں کی تعلیم کا یہ حال ہے اگر میں جلسہ بازی کرنے لگا تو ناس پٹ جائیگا
*حرف آخر*
احقر نے اپنے قلبی تاثرات کا اظہار ان بکھرے ہوئے حروف میں کردیا ہے باقی حضرت کے کمالات اتنے ہیں کہ اگر تفصیلی کلام کیا جائے تو ضخیم جلد تیار ہوجائے اور مجھے امید ہےکہ باتوفیق حضرات حضرت کی مکمل سوانح ضرور تیار کرینگے باری تعالٰی توفیق عطا فرمائے اور اس راہ کی مشکلات دور فرمائے *آمین*
بس اتنا یاد رہے کہ ایک باصلاحیت کام کا فرد بننے کے لئے حضرت کی زندگی ہم سب کےلیےنمونہ ہے باری
تعالٰی نقش قدم کا راہی بنائے
*کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزرگئے*
*جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں*
تحریر: مولانامحمد آصف صاحب قاسمی اعظمی
______________
19 مئی 2020 25 رمضان المبارک 1441بروز منگل* صبح آٹھ بجے بیدار ہوا اور موبائل جیسے ہی کھول کر دیکھا تو واٹشاپ پر کلمہ ترجیع ( *انا للہ وانا الیہ را جعون* ) کی کثرت نظر آئی دھڑکتے دل کے ساتھ جب تفصیل پڑھا تو قلب پارہ پارہ آنکھیں اشک بار ہوگئیں کچھ دیر سکتے کا عالم طاری رہا پھر حب طبیعت کو کچھ سنبھالا ملا تو ماضی کے دریچے کھلتے گئے جبکہ تعلیمی سلسلہ مکمل کرکے دارالعلوم سے آئے
تقریباً دو دہائیاں گزرچکی ہیں لیکن جب ماضی کا دفتر کھلا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کل کی بات ہے کہ ہم لوگ بعد نماز مغرب نودرے میں کھڑے صدر دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے اپنے محبوب ترین استاذ محدث عصر فقیہ نبیل علوم عقلیہ و نقلیہ کے جامع علوم ولی الہی اور علوم قاسمی کے شارح و ترجمان استاذی الجلیل حضرت مفتی *سعید احمد صاحب پالنپوری* کی آمد کے سراپا مشتاق انتظار کی گھڑیاں شمار کر رہے ہیں اور وقت مقررہ پر حضرت تشریف لاتے اور دارالحدیث میں قدم رنجہ فرماتے اورزبان ذکرالہی سےمعمورہوتی اور حدیث کا درس شروع ہوجاتا
*حضرت کا انداز درس اور تفہیم کا ملکہ*
علم حدیث کی انتہائی اہم ترین کتاب ترمذی شریف کا درس تقریباً تین دہائیوں تک آپ سے متعلق رہا غبی سے غبی طالب علم بھی اسکا اقرار کرنے پرمجبور ہے کہ ہم نے ترمذی شریف مکمل سمجھ کر پڑھا ہے حضرت شیخ الحدیث مفتی نصیر احمد خاں صاحب کے شدید ضعف کے بعد مسلسل بخاری شریف آپ سے متعلق ہوئی تو آپ نے بدرجہ اتم اسکا بھی حق ادا کیا حضرت جیسے ہی دارالحدیث کے قریب ہوتے پورے دارالحدیث میں سناٹے کا سماں چھا جاتا اور کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی حضرت درسگاہ میں موجود طلبہ پر ایک نگاہ ڈال کر مسند پر جلوہ افروز ہوجاتے اور زبان پر کلمہ *لا الہ الا اللہ* کا ورد ہوتا عبارت خوانی پر مامور طالب علم عبارت پڑھتا اور سبق شروع ہوجاتا اسکے بعد حضرت اتنی انہماک سے کلام فرماتے اور ایسا دلنشیں انداز اختیار کرتے اور گفتگو اتنی مرتب اور حشو وزوائد سے ایسی پاک ہوتی جیسے دل گواہی دیتا کہ اتنے معانی کے لئے اتنے ہی الفاظ کی وضع ہویئ
ہے اس میں ایک نقطہ کی کمی زیادتی محال ہے مسالک اربعہ بڑی تفصیل سے سمجھاتے اور ائمہ کے دلائل پوری قوت سے بیان فرماتے سند ومتن پر محدثانہ رنگ میں ڈوب کر کلام فرماتے اپنے مسلک کے ترجیحی پہلوؤں کو ایسا مدلل و مبرہن فرماتے کہ بسا اوقات طلبہ آپسی گفتگو میں بطور مزاح کہنے لگتے کہ اگر اس مسلک کی مرکزی شخصیت بھی ہوتی تو اسے بھی اپنے دلائل پر نظر ثانی کرنا پڑتا لیکن بحمد اللہ حضرت کی زبان و دل پر ادنی تخفیف کا بھی شائبہ نہ ہوتا بلکہ بسا اوقات احناف کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے جس مسلک کے رد میں گفتگو فرماتے انکے کچھ خصائص کا ذکر کردیتے تاکہ کوئی کج فہم کسی غلط بات پر اپنی عقل نہ دوڑانے لگے ( *بحمد اللہ یہی صورتحال تمام مسالک حقہ میں پائی جاتی ہے)*
مسائل فقہیہ کے بیان کے لئے اتنا سہل انداز اختیار فرماتے جیسے ترمذی شریف پڑھنے والے طالب علم کے سامنے تعلیم الاسلام کے مسائل بیان کئے جارہے ہوں بسا اوقات طلبہ کے گھروں سے آئے ہوئے انکے رشتہ دار جو غیر عالم ہوتے اور معمولی پرائمری کی تعلیم حاصل کئے ہوتے حضرت کے سبق میں برائے برکت بیٹھ جاتے وہ بھی اکثرمضامین سمجھ کر نصیبہ وروں میں اپنے کو شمار کرنے لگتے حضرت سبق کے بعد جب کتاب بند کرتے تو ایسا لگتا کہ ہر طالب علم بزبان حال کہ رہا ہو
*مجھے پینے دے پینے دے کہ تیرے جام لعلیں میں*
*ابھی کچھ اور ہے کچھ اور ہے کچھ اور ہے ساقی*
الحاصل جو کتاب بھی اپکے زیر درس رہتی ایسالگتاجیسےاپ اسے مشکل تر کتاب کا لذیذ مشروب بناکر طلبہ کے قلب و جگر میں بآسانی اتار دیتے ہیں بلکہ اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ افہام و تفہیم کے بادشاہ وقت تھے حقیقت یہ ہے کہ حضرت کی جدائی سے علم وتحقیق کا ایک باب مغلق ہوگیا اور آج کی کیفیت کچھ اس طرح ہے
*اٹھا شور محفل ناز سے ہوئیں آب دیدہ مسرتیں*
*لیا نام کس نے سعید کہ چراغ اشک کے جل گئے*
*حضرت کے بعض خصائص*
( 1)حضرت مفتی صاحب اپنے اوقات کی اس قدر حفاظت فرماتے کہ ایک لمحہ کا ضیاع ناممکن تھا بلکہ ہر آن کا کام مقرر تھا
(2)مطالعہ میں انہماک اس قدر ہوتا کہ اس دوران کسی بھی طرف التفات برداشت نہ فرماتے
(3) صحت کے زمانے میں ایک بجے سے قبل بستر استراحت پر نہ جاتے اس معمول میں کوئی بڑے سے بڑا طوفان تخلف نہ پیدا کرسکتا تھا
(4)کوئی بھی کلام تکلم سے پہلے انتہائی درجہ مرتب فرمالیتے کہ اگر انکی تقریر منضبط کردی جائے تو بغیر حذف و اضافہ کے کتابی شکل اختیار کر جاتی
(5)دنیا سے بے رغبتی حد درجہ تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ ایام تدریس میں لی ہوئی تنخواہوں کے ایک ایک پیسے کو واپس کردیا
*حضرت کا تصنیفی ذوق*
مبداء فیاض سے تصنیف کا بہت عمدہ ذوق دیا گیاتھا زبان انتہائی شستہ ترتیب کی حد درجہ رعایت حشووزوائد سے ایسا اجتناب جیسے الفاظ و معانی کو وزن کرکے ایک دوسرے کے بالمقابل رکھا گیا ہو جس میں ادنی کمی زیادتی کی مجال نہ تھی اعلی درجہ کی علمی تصانیف کی وجہ سے *سابق صدر جمہوریہ* کی طرف سے ایوارڈ سے نوازے گئے لیکن شہرت سے تنفر کی وجہ سے کم ہی لوگوں کو اسکا سراغ لگ سکا آپ کی تصانیف مختلف موضوعات پر ہیں درسی کتب کی شروحات ہیں بعض درسی مباحث کی مبادیات ہیں تصانیف میں *رحمۃ اللہ الواسعۃ* جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ولی اللہی علوم کے معانی کا بحرذخارہے جس پر تبصرہ *مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی*علیہ الرحمہ نے کچھ اس انداز سے کیا تھا کہ حضرت شاہ صاحب کے علوم پر لوگوں کا درک اسلیےآسان نہیں تھا کہ شاہ صاحب نے علم کے عرش پر بیٹھ کر کلام کیا تھا اس لئے فرش پر بیٹھے لوگوں کی رسائی وہاں ناممکن تھی اور حضرت مفتی سعید صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نےعرش کئ باتوں کو فرش پر لاکر سمجھادیا ہےاس لئے میری ناقص معلومات میں موجودہ دور میں ان علوم پر ایسی دست رس دنیاکے کسی بھی فرد کو حاصل نہیں ہے
اسی طرح *حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی* کے علوم سےپرکتابیں جواردو زبان میں لکھی گئی ہیں بہت سی کتابیں ایسی ہیں کہ جو ایک بحر ذخار کی حیثیت رکھتی ہیں جنکے تعلق تک پہنچنا ہمارے دور کے متبحر کہے جانے والے لوگوں کے لئے ناممکن نہ ہو تو مشکل ترین ضرور ہے لیکن استاد محترم حضرت مفتی سعید صاحب نے ایسی تسہیل کردی کہ ہم جیسے ظلوم و جہول سےمرکب بھی بآسانی استفادہ کرسکتے ہیں مثلا*مسئلہ قرأت خلف الامام* پر رقم کی ہوئی حضرت نانوتوی کی کتاب *توثیق الکلام فی مسئلہ قرأت خلف الامام* کئ تسہیل *کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟* کے نام سے کی جو قابل دید ہے
فن حدیث کے علاوہ مختلف فنون میں بطور خاص فن تفسیر میں *ہدایت القرآن* نامی تفسیر کی تکمیل آپ کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ صدیوں یاد کیا جاتا رہیگا باری تعالٰی انکے منافع کو عام وتام فرمائے
*تدریسی پابندی کا سبق آموز واقعہ*
دیوبند کی طالب علمی کے زمانے میں کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضری کی سعادت ہوجاتی تھی ایسے ہی ایک بار چند احباب کی معیت میں عصر کے بعد حاضری ہوئی کچھ دیر کے بعد دارالعلوم کے ایک استاذ ایک مہمان کو لے کر حاضر ہوئے مہان مکرم شہر بنگلور سے آئے تھے اور سفر کا مقصد اپنے شہر کے ایک بڑے پروگرام میں لے جانے کے لئے حضرت کو آمادہ کرنا تھا دونوں حضرات کی خواہشات کو قبول کرت ہوئے اور بطور خاص دارالعلوم کے استاد کی رعایت میں تاریخ مقرر کی گئی کچھ دیر بعد آپ کے گھر سے ایک بچہ نحو میر کا سبق سنانے آیا تو اسکو سبق اچھا یاد نہیں تھا جس کی وجہ سے آپ سخت ناراض ہوگئے اور بچہ کو زجر و توبیخ کرکے واپس کردیا اور مہمان مکرم اور دارالعلوم کے موقر استاذ سے کھلے لفظوں معذرت کر لیےاورفرمانےلگےکہ جب اتنی محنت پر گھر کے بچوں کی تعلیم کا یہ حال ہے اگر میں جلسہ بازی کرنے لگا تو ناس پٹ جائیگا
*حرف آخر*
احقر نے اپنے قلبی تاثرات کا اظہار ان بکھرے ہوئے حروف میں کردیا ہے باقی حضرت کے کمالات اتنے ہیں کہ اگر تفصیلی کلام کیا جائے تو ضخیم جلد تیار ہوجائے اور مجھے امید ہےکہ باتوفیق حضرات حضرت کی مکمل سوانح ضرور تیار کرینگے باری تعالٰی توفیق عطا فرمائے اور اس راہ کی مشکلات دور فرمائے *آمین*
بس اتنا یاد رہے کہ ایک باصلاحیت کام کا فرد بننے کے لئے حضرت کی زندگی ہم سب کےلیےنمونہ ہے باری
تعالٰی نقش قدم کا راہی بنائے
*کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزرگئے*
*جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں*