مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے
دارالعلوم دیوبند سمیت مساجد کے متولیا ن نے حکومت کے فیصلہ پر ظاہر کی ناراضگی
دیوبند۔۸؍ جون(ایس۔ چودھری) ان لاک 2 ؍ تحت بازار و دیگر عوامی مقامات کھلنے کے بعد پیر کے روز سے باضابطہ طورپر تقریباً ڈھائی ماہ بعد مذہبی مقامات بھی کھول دیئے گئے۔ حالانکہ آج مندروں کے دروازے تو کھلے لیکن انتظامیہ کی طرف سے صرف پانچ افراد کو مسجدوں میں ایک ساتھ نماز ادا کرنے شرط سے ناراض منتظمین اور متولیا ن سمیت دارالعلوم دیوبند نے بھی مساجد کو کھولنے سے انکار کردیا اورحکومت سے اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا۔دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہاکہ حکومت ہند کے ذریعہ لاک ڈائون کی طویل مدت گذارنے کے بعد مساجد کو جن شرائط اور قیود کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی گئی ہے یہ ناقابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ بے اطمینانی کا باعث بھی ہے۔ دارالعلوم دیوبند اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے، توجہ طلب امریہ ہے کہ ’’لاک ڈائون 1-‘‘ میں ٹرانسپورٹیشن ، بڑے مال، تمام تجارتی ادارے اور بازار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں سوشل ڈسٹینسنگ کی ہدایت تو موجود ہیں لیکن تعداد کوئی متعین نہیں کی گئی اس کے برخلاف عبادت گاہوں میں پانچ نمازیوں کی تعداد کی قید لگادی گئی ہے۔ ہم حکومت ہند سے مطالبہ کہ اس بات کا خیال کرتے ہوئے کہ مسلمانوں نے لاک ڈائون کے دوران محکمہ صحت کی تمام ہدایات پر سختی کے ساتھ عمل کیا ہے، اپنے حالیہ فیصلے پر نظر ثانی کرے اور تمام مساجد میں بلاتعین تعداد سوشل ڈسٹینسنگ کے شرائط کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔انتظامیہ کی گائیڈ لائن کے مطابق پیر کی صبح مندروں کے دروازے تو کھل گئے ، لیکن مساجد کے دروازے نہیں کھلے،جہاں مند ر انتظامیہ نے مذہبی مقامات کھولنے کا خیر مقدم کیاہے وہیں مساجد کے متولیان و منتظمین یہ کہہ کر حکومت و انتظامیہ کے فیصلہ کی مخالفت کی ہے کہ لاک ڈاؤن میں بھی پانچ افراد سوشل ڈسیٹیسنگ کے ساتھ نماز ادا کررہے تھے، اب اس میں نیا کیاہے۔ انہوں نے حکومت و انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ مساجد کھولنے کے حوالے سے لئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور مساجد میں سوشل ڈسیٹسنگ کے ساتھ زیادہ افراد کو نماز باجماعت کی اجازت دی جائے۔ مساجد کے منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ 75 دنوں سے حکومت کے فیصلے پر عمل کررہے ہیں،لیکن اب جب انتظامیہ نے بازار کھول دیئے ہیں جہاں بے شمارلوگ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں تو ایسی صورت میں مساجد میں تعداد کی شرط لگانا غلط ہے۔ شہر کی مرکزی جامع مسجد کے متولی حافظ انور نے بتایا کہ انتظامیہ کے ذریعہ مذہبی مقامات کھولنے کے اطلاع پر انہوں نے مسجد میں سوشل ڈسیٹیسنگ اور دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز پڑھنے کا انتظام کیا تھا، وضوکا حوض خالی کردیاگیااور لوگوں سے وضوگھر سے کرکے آنے کو کہاگیاتھا،اپنا مصلیٰ ساتھ لانے اور صفائی ستھرائی رکھنے کی اپیل کی تھی، لیکن انتظامیہ کے ذریعہ صرف پانچ افراد کو مسجد میں نماز پڑھنے کی شرط کے ساتھ مسجد کھولنے کو کہاہے لیکن اگر زیادہ لوگ نماز پڑھنے آگئے تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہوگا۔ اسلئے حکومت و انتظامیہ کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ سماجوادی پارٹی کے ضلع نائب صدر سکندر علی گوڑ نے ڈی ایم کو بھیجے مکتوب میں پانچ افراد سے زائد لوگوں کو مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مساجد کمیٹیاں جب انتظامیہ کامکمل تعاون کررہی ہیں اور حکومت و انتظامیہ کی ہر گائڈ لائن پر مکمل طورپر عمل کررہے ہیں تو پھر نمازی افراد کی تعداد میں اضافہ کیاجائے ۔انہوںنے حکومت و انتظامیہ سے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرنے کی اپیل کی ہے۔ عالمی روحانی تحریک کے سربراہ مولانا حسن الہاشمی نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ آج لاک ڈائون ختم ہوگیا ہے اور بازار وغیرہ کھل گئے ہیں لیکن عوام وخواص کی نئی آزمائش کا وقت شروع ہوا ہے۔ مولانا نے کہا کہ سرکار کی طرف سے پابندی ہٹ گئی ہے لیکن ہمیں اپنی اور دوسروں کی زندگی کو بچانا ہے اور ہر طرح کی بے احتیاطی سے بچنا ہے ۔ مولانا نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ مسجدوں پر اب بھی پابندیاں ہیں جب کہ مسجدوں کو بھی پوری طرح کھول دینا چاہئے۔ انتظامیہ مسجدوں سے بھی پابندی ہٹادیں ۔
دارالعلوم دیوبند سمیت مساجد کے متولیا ن نے حکومت کے فیصلہ پر ظاہر کی ناراضگی
دیوبند۔۸؍ جون(ایس۔ چودھری) ان لاک 2 ؍ تحت بازار و دیگر عوامی مقامات کھلنے کے بعد پیر کے روز سے باضابطہ طورپر تقریباً ڈھائی ماہ بعد مذہبی مقامات بھی کھول دیئے گئے۔ حالانکہ آج مندروں کے دروازے تو کھلے لیکن انتظامیہ کی طرف سے صرف پانچ افراد کو مسجدوں میں ایک ساتھ نماز ادا کرنے شرط سے ناراض منتظمین اور متولیا ن سمیت دارالعلوم دیوبند نے بھی مساجد کو کھولنے سے انکار کردیا اورحکومت سے اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا۔دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہاکہ حکومت ہند کے ذریعہ لاک ڈائون کی طویل مدت گذارنے کے بعد مساجد کو جن شرائط اور قیود کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی گئی ہے یہ ناقابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ بے اطمینانی کا باعث بھی ہے۔ دارالعلوم دیوبند اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے، توجہ طلب امریہ ہے کہ ’’لاک ڈائون 1-‘‘ میں ٹرانسپورٹیشن ، بڑے مال، تمام تجارتی ادارے اور بازار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں سوشل ڈسٹینسنگ کی ہدایت تو موجود ہیں لیکن تعداد کوئی متعین نہیں کی گئی اس کے برخلاف عبادت گاہوں میں پانچ نمازیوں کی تعداد کی قید لگادی گئی ہے۔ ہم حکومت ہند سے مطالبہ کہ اس بات کا خیال کرتے ہوئے کہ مسلمانوں نے لاک ڈائون کے دوران محکمہ صحت کی تمام ہدایات پر سختی کے ساتھ عمل کیا ہے، اپنے حالیہ فیصلے پر نظر ثانی کرے اور تمام مساجد میں بلاتعین تعداد سوشل ڈسٹینسنگ کے شرائط کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔انتظامیہ کی گائیڈ لائن کے مطابق پیر کی صبح مندروں کے دروازے تو کھل گئے ، لیکن مساجد کے دروازے نہیں کھلے،جہاں مند ر انتظامیہ نے مذہبی مقامات کھولنے کا خیر مقدم کیاہے وہیں مساجد کے متولیان و منتظمین یہ کہہ کر حکومت و انتظامیہ کے فیصلہ کی مخالفت کی ہے کہ لاک ڈاؤن میں بھی پانچ افراد سوشل ڈسیٹیسنگ کے ساتھ نماز ادا کررہے تھے، اب اس میں نیا کیاہے۔ انہوں نے حکومت و انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ مساجد کھولنے کے حوالے سے لئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور مساجد میں سوشل ڈسیٹسنگ کے ساتھ زیادہ افراد کو نماز باجماعت کی اجازت دی جائے۔ مساجد کے منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ 75 دنوں سے حکومت کے فیصلے پر عمل کررہے ہیں،لیکن اب جب انتظامیہ نے بازار کھول دیئے ہیں جہاں بے شمارلوگ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں تو ایسی صورت میں مساجد میں تعداد کی شرط لگانا غلط ہے۔ شہر کی مرکزی جامع مسجد کے متولی حافظ انور نے بتایا کہ انتظامیہ کے ذریعہ مذہبی مقامات کھولنے کے اطلاع پر انہوں نے مسجد میں سوشل ڈسیٹیسنگ اور دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز پڑھنے کا انتظام کیا تھا، وضوکا حوض خالی کردیاگیااور لوگوں سے وضوگھر سے کرکے آنے کو کہاگیاتھا،اپنا مصلیٰ ساتھ لانے اور صفائی ستھرائی رکھنے کی اپیل کی تھی، لیکن انتظامیہ کے ذریعہ صرف پانچ افراد کو مسجد میں نماز پڑھنے کی شرط کے ساتھ مسجد کھولنے کو کہاہے لیکن اگر زیادہ لوگ نماز پڑھنے آگئے تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہوگا۔ اسلئے حکومت و انتظامیہ کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ سماجوادی پارٹی کے ضلع نائب صدر سکندر علی گوڑ نے ڈی ایم کو بھیجے مکتوب میں پانچ افراد سے زائد لوگوں کو مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مساجد کمیٹیاں جب انتظامیہ کامکمل تعاون کررہی ہیں اور حکومت و انتظامیہ کی ہر گائڈ لائن پر مکمل طورپر عمل کررہے ہیں تو پھر نمازی افراد کی تعداد میں اضافہ کیاجائے ۔انہوںنے حکومت و انتظامیہ سے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرنے کی اپیل کی ہے۔ عالمی روحانی تحریک کے سربراہ مولانا حسن الہاشمی نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ آج لاک ڈائون ختم ہوگیا ہے اور بازار وغیرہ کھل گئے ہیں لیکن عوام وخواص کی نئی آزمائش کا وقت شروع ہوا ہے۔ مولانا نے کہا کہ سرکار کی طرف سے پابندی ہٹ گئی ہے لیکن ہمیں اپنی اور دوسروں کی زندگی کو بچانا ہے اور ہر طرح کی بے احتیاطی سے بچنا ہے ۔ مولانا نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ مسجدوں پر اب بھی پابندیاں ہیں جب کہ مسجدوں کو بھی پوری طرح کھول دینا چاہئے۔ انتظامیہ مسجدوں سے بھی پابندی ہٹادیں ۔