اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مذہب اسلام اور انسانیت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 8 June 2020

مذہب اسلام اور انسانیت!

ازقلم:- ابو حمزہ فلاحی
_______________
 سامنے ہے جو   لوگ  اسے  برا کہتے  ہیں
جسکو دیکھا ہی نہیں اسکو خدا کہتے ہیں

        عصر حاضر میں ایک ایسا بھیانک طوفان بپا ہوا ہے، جو بظاہر ایسا لگتا ہیکہ تھمنے والا نہیں ہے۔ شاید اس لیئے کہ نوع انسانی کا intellectual اور cream طبقہ بھی کافی سرعت و تیزی کے ساتھ اسکا حامی بنتا چلا جا رہا ہے۔ جسکاصرف ایک ہی نعرہ ہے کہ " انسانیت کی آزادی، مذہب سے بیزاری" حیات انسانی یعنی انسان کی زندگی اسوقت تک کامیابی کی منزل طے نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ خود یعنی نفس سے مذہب کو جھٹک نہ دے۔ ان کا کہنا یہ ہیکہ مذہب انسان کو متشدد اور متعصب بناتا ہے۔ لہذا انسانیت سے بڑا اس کرہ ارض پر کوئ مذہب نہیں۔
      اور یہ طبقہ ترقی کی راہوں سے گذرتے ہوئے ایک نئے مذہب کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسکا نظام آج دنیا کے اکثر ملکوں میں بلکہ آج جتنی  دنیا کی super power contries ہیں اسمیں نافذ ہے۔
       تاریخ میں پہلی مرتبہ ۱۹ اگست کو عالمی یوم انسانیت منایا گیا جسکی منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۰۰۸ کے ایک اہم اجلاس میں دی تھی۔ اس دن کو منانے کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ آج انسانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے جو دوسرے انسانوں کے لیئے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔
      لیکن کیا انسانیت کا درس دینے اور راگ الاپنے والے اس جدید مذہب میں انسانیت واقعتا زندہ ہیں، پوری نوع انسانی سسک رہی ہے، بلک رہی ہے،درد و کرب اور اسکی آہوں کا شکار ہے۔ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہا ہے، انسان ہی ظالم اور نسان ہی مظلوم، قاتل بھی وہی مقتول بھی وہی، گویا انسان نے اپنے ہی جیسے انسان کی زندگیوں میں زہر گھول رکھا ہے۔ آپ سول سوسائیٹی، سیکولر این جی اوز کو دیکھیں، انکو دیکھیں جنکا کوئ مذہب نہیں، جنکا مقصد فلاح انسانیت ہے۔ اور وہ اسی کے نام سے معروف بھی ہیں۔لیکن اسکے باوجود بھوک پیاس سے بلکتے انسان، ظلم سہتے بے بس مجبور انسان، کالے گورے میں اخلاقیت کا فرق،امیر و غریب کے مابین خلاء، طاقت والوں کا کمزورں پر ظلم گویا انسانیت کا ماتم کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ شاید اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہیکہ یہ طبقہ لوگوں کا استحصال اور استعمار و استبداد کی بنیاد پر جبرا جنم لیا ہے، اس کے پاس ایسا نظام ہے کہ law an order کو maintain رکھنے کے لیئے ہزاروں لاکھوں بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے۔۔
کسی نے کیا ہی خوبصورت جملہ کہا ہیکہ " انسان میں کب انسانیت نہیں ہوتی جب وہ خود کو دوسرے انسانوں سے اعلی خیال کرے۔
      دوسری طرف مذہب اسلام ہے جس کے اندر انسانی حرمت و شرافت کی کتنی پاسداری ہے وہ اس سے لگایا جا سکتا ہیکہ جب انسان اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، جو کسی نفع و نقصان کے لائق نہیں رہتا اسکے ساتھ بھی اسلام حسن سلوک کا سا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یعنی مردہ کا بھی احترام کرتا ہے، مرنے کے بعد اچھے سے غسل اس کے بعد صاف ستھرے کپڑے میں کفن کے ساتھ ساتھ اسکو خوشبو سے معطر کرنے اور اسکو کاندھوں پر اٹھا کر بہترین انداز میں اسکی اصل جگہ یعنی قبر تک پہونچانے اور اسکو دفن کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
     ایک بار کسی غیر مسلم کا جنازہ جا رہا تھا جسکو دیکھکر اللہ کے رسول ﷺ کھڑے ہو گئے۔ صحابہ کرام رض نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ جنازہ تو ایک یہودی کا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا موت ایک خوفناک چیز ہے۔ پس تم جنازہ دیکھکر کھڑے ہوجایا کرو۔ دوسری روایت میں ہیکہ آپ ﷺ نے فرمایا" آ لیست نفسا" انسان تو یہ بھی ہے۔ مشکواۃ۔
     زمانہ جاہلیت یعنی اسلام سے پہلے جنگ کے دوران دشمنوں کے ساتھ انتہائ نازیبہ رویہ اپنایا جاتا تھا، ان کے اعضاء کو جگہ جگہ سے کاٹ دیا جاتا۔ اور اسکا مثلہ کیا جاتا تھا، اور انکی کھوپڑیوں میں شراب پی جاتی تھی۔ خود سید الشہداء حضرت حمزۃ رض کے ساتھ بھی یہی سلوک " ہندہ " نے کیا۔ اسکے باوجود بھی آپﷺ نے انہیں معاف کر دیا، کیا آج انسانیت انسانیت کا رٹ لگا نے والے ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا " مردہ کی ہڈی کو توڑنا، زندہ انسان کی ہڈی توڑنے کے مانند ہے۔
      روز اول سے ہی باطل نت نئ تہمتیں اسلام اور اتباع اسلام پر لگا رہا ہے کہ اس نے زور زبردستی، جبرا لوگوں پر ظلم کر کے اپنی تہذیب و ثقافت کو دنیا پر مسلط کیا ہے" بہ الفاط دیگر کہ اسلام تلوار کے بل پر پھیلا" حالانکہ اسلامی تعلیمات و تواریخ کا گہرائ و گیرائ سے مطالعہ کرنیوالوں کے علم میں اچھی طرح یہ راسخ ہیکہ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اسلام عنصریت و عصبیت جیسی غیر اخلاقی قدوں سے منزہ ہے۔ اگر دنیا کو کامیابی مل سکتی ہے تو صرف اور صرف اسلام ہی کے ذریعے۔ جس کی بہت ساری مثالیں تاریخ و سیر کی کتابوں میں سنہرے الفاظ میں مذکور ہیں۔ اسلام ہی کی تعلیمات تھی جو رحمۃ للعلمین ﷺ نے دنیا کے سامنے ببانگ دہل جس وقت قبائلی جنگیں جاری تھیں جو "ایام العرب"  کے نام سے جانی جاتی ہیں، معمولی معمولی سی بات پر سالہا سال تک چلتی رہتی تھی، قبیلہ کے قبیلہ نابود ہو جاتے اور حد تو یہ تھی کہ لوگ اسپر فخر کرتے۔ جسمیں جنگ بعاث، جنگ بسوس ، جنگ داحس و غبراء وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ یعنی ان کے اندر قبائلی امتیاز انکی رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا، گویا خاندانی حمیت انکا دین اور قبائلی غیرت انکا مذہب تھا۔ ایسے نازک و ناگفتہ بہ حالات میں اللہ کے رسول ﷺ بغیر کسی خوف و خطر اور ہچکچاہٹ کے اعلان کرتے ہیں کہ " لوگوں خبردار ہو جاؤ، تمہارے رب ایک ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر کوئ فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقوی کے اعتبار سے"
     اور یہ صرف آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے چند کلمات نہیں تھے جیسا کہ آج کی نوع انسانی کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کرنیوالی یہ دنیا اور انسانیت کا درس دینے والے شاطر و مکار کرتے ہیں، اور عملی زندگی میں اس سے عاری ہوتے ہیں۔ اسکے برعکس اللہ کے رسول ﷺ نے خود کی عملی زندگی میں نافذ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا کہ اسلام سے بڑھکر انسانیت کہیں نہیں ہے۔
       وہی بلال حبشی رض جو کل تک عربوں کے غلام تھے، جنکا سماج میں کوئ مرتبہ نہیں تھا، جانور سے بدتر زندگی گذار رہے تھے، جو جدھر سے آئے فٹ بال کی طرح لات مارے اور چلا جائے، شاید اسکی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک تو آپ غلام تھے دوسرے آپ کا رنگ سیاہ تھا۔ لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا، ایمان کی حلاوت ان کے دلوں میں سرایت کر گئ، جب انہوں نے اپنے رب سے آشنائ اختیار کر لی تو اسلام نے انکو وہ مقام عطا کیا کہ جسکا سماج میں کوئ مقام و مرتبہ نہیں تھا، جانور سے بدتر زندگی گذار رہے تھے، ہر روز مرتے اور ہر روز جیتے۔ لیکن اسلام نے آپ کو اس مقام و مرتبہ پر فائز کیا کہ آپ رض عرب کی محترم شخصیت بن گئے۔ آپ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہیکہ بروز فتح مکہ جلیل القدر صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے بھی آپ ﷺ نے آپ رض کو خانہ کعبہ جیسے مقدس اور مبرک گھر کے اوپر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیتے ہیں، اور باطل کے قدموں سے زمین کھینچ لی جاتی ہے جسکو وہ دیکھتا ہی دیکھتا رہ جاتا ہیکہ کل تک ہمارے بیچ بلال کی یہ بھی حیثیت اور اوقات نہیں تھی کہ وہ حرم میں داخل ہو جائے، اور آج اسلام نے اسکو وہ مقام عطا کیا ہیکہ خانہ کعبہ کی چھت کے اوپر سے اذان دے رہا ہے۔    خلیفئہ ثانی حضرت عمر فاروق رض جیسے جلیل القدر صحابی جنکی شمولیت عشرہ مبشرہ میں ہے وہ بلال رض سے خود کے لیئے دعا و استغفار کراتے ہیں۔ اللہ اکبر۔  کیا دنیا کا کوئ نظام ایسی انسانیت کی مثال پیش کر سکتا ہے خواہ انسانیت کی رٹ لگانے والا وہ طبقہ ہی کیوں نہ ہو جو مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بات کرتا ہے، جسکے یہاں law an arder کو maintain رکھنے کے لیئے ہزاروں لاکھوں مظلوم بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اس کی برعکس دنیا میں جس نے سب سے پہلے انسانی جان کے احترام کا سبق دیا وہ قرآن مجید ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا واقعہ( ہابیل اور قابیل) کا ذکر کر کے بتایا کہ یہ انسانی تاریخ کا اولین سانحہ تھا اسوقت پہلی مرتبہ یہ ضرورت پیش آئ کی کہ انسانی جان کی قدرو قیمت کیا ہے ہر انسان جینے کا حق رکھتا ہے۔
      من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا و من احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا۔ ( مائدہ ۳۲)
     جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی (مظلوم) کی جان بچائ اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخش دی۔
         اسی طرح حالت جنگ میں ہونے کے باوجود اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ بوڑھے، بچے، عورت ، زخمی اور بیمار خواہ وہ دشمن قوم سے ہی کیوں نہ ہو ان پر کسی بھی قسم کی زیادتی اور دست درازی جائز نہیں ہے۔ پوری انسانیت کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔ اللہ کے رسول ﷺ اس معاملے میں بڑی واضح ہدایات پیش کی ہیں اور خلفاء راشدین کا یہ حال تھا کہ جب دشمنوں سے مقابلے کے لیئے لشکر روانہ کرتے تو بالکل صاف اور دوٹوک انداز میں ہدایات پیش کرتے۔
      حضرت ابو بکر رض جب رومیوں سے جنگ کے لیئے لشکر اسامہ رض کو روانہ کیا تو انکو دس باتوں کی ہدایات پیش کیں۔
۱۔ خیانت نہ کرنا۔ ۲۔ جھوٹ نہ بولنا۔ ۳۔ بدعہدی نہ کرنا۔ ۴۔ بچوں، بوڑھوں،اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔ ۵۔ کسی ثمر دار درخت کو نہ کاٹنا نہ جلانا۔ ۶۔ کھانے کے سوا اونٹ گائے بکری وغیرہ کو ذبح نہ کرنا۔ ۷۔ جب کسی قوم پر گذر ہو تو اسکو نرمی سے اسلام کی دعوت پیش کرنا۔ ۸۔ جب کسی سے ملنا تو اسکے حفظ مراتب کا پاس رکھنا۔ ۹۔ جب کھانا تمہارے سامنے آئے تو اللہ کے نام سے شروع کرنا۔ ۱۰۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ان لوگوں سے جنہوں نے دنیاوی تعلقات سے الگ ہو کر اپنی عبادت خانوں میں رہنا اختیار کیا ہے ان سے کوئ تعرض نہ کرنا۔ اور ان تمام کاموں میں جن کو کرنے کا اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے اسمیں نہ کسی بھی قسم کی زیادتی اور نہ ہی کسی قسم کی کمی کرنا۔ اللہ کی راہ میں کفار سے اللہ کے نام کے ساتھ لڑو۔ (تاریخ اسلام) 
      یہ ہیں اسلام کے زریں اصول، اسکے باوجود بھی باطل، اسلام کا رشتہ تشدد اور دہشت گردی سے جوڑتا ہے۔
     آج جب کہ دنیا میں ہر طرف بدامنی پھیلی ہوئی ہے، اضطراب و بے چینی، انتشار و تشدد کی فضا قائم ہے، انسانیت دم توڑتے نظر آ رہی ہے۔ اگر عالمی تناطر میں دیکھا جائے تو انسانی قدروں کی پامالی ایک بہت برا المیہ بن چکی ہے، خرمن انسانیت مذہبی، مسئلکی، قومی اور نسلی آگ کی پوری طرح لپیٹ میں ہے اور آہستہ آہستہ اسے خاکستر کرنے کے دہانے پر ہے۔ جہاں مشرق وسطی میں بے گوروکفن لاشوں کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں وہیں جنوب مغرب ایشیاء میں انسانیت درد و کرب ، ظلم و ستم اور فساد و خون ریزی سے کراہ رہی ہے، اور پوری دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہیکہ اس کے باوجود یہ فریبی نظام خود کو امن انسانیت کا علمبردرا گردان رہا ہے، اور تحفط انسانیت کی رٹ لگانے سے نہیں تھکتا۔ اور جب یہ فریبی نظام انسانیت کی اس حالت زار کے سد باب کے لیئے کوئ نتیجہ نکالنے میں ناکام و نامراد ہو جاتا ہے تو ان سب کا ذمہ دار اسلام اور سکی تعلیمات اور اسکے متبعین پر بڑے آسانی سے لگا دیتا ہے۔
     مزید حیرت تو اس بات پر ہیکہ کچھ ہمارے سادہ لوح بھائ بھی ان کے مکر و فریب میں آکر ان کی اس چیرہ دستی کو قبول کرتے ہوئے ظالموں کے ساتھ صف آراء ہو جاتے ہیں۔ اور کچھ ہمارے غیر مسلم بھائ اسلام سے نابلد و ناواقف ہونیکی وجہ سے وہ بھی اس جالی فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں جو لوگ اسلام کی شبیہ کو خراب اور داغدرا کرنیکی ناکام کوششیں کر رہے ہیں ان کے سامنے اسلام اور اس کے روشن و تابناک پہلوؤں کو وضاحت کے ساتھ اجاگر کرنیکی اشد ضرورت ہے کہ حقیقتا مذہب اسلام کے اندر ہی احترام انسانیت کا درس پنہا اور انسانی اقدار کا تحفظ موجود ہے، نیز انسانیت و بھائ چارگی کا بے مثال رشتہ ہے۔
     اللہ رب العزت ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے اور مزید غور و فکر کرنیکی توفیق عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین۔