اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: "ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا: اچھےمعلم ، بہترین انسان" ____ میرے مطالعہ کی روشنی میں ========================== عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیاوی، دربھنگہ، بہار استاذ: معہد العلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، ویشالی، بہار 9308426298 Abdurrahim.darbhanga@gmail.com

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 26 August 2020

"ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا: اچھےمعلم ، بہترین انسان" ____ میرے مطالعہ کی روشنی میں ========================== عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیاوی، دربھنگہ، بہار استاذ: معہد العلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، ویشالی، بہار 9308426298 Abdurrahim.darbhanga@gmail.com


 "ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا: اچھےمعلم ، بہترین انسان" ____

میرے مطالعہ کی روشنی میں

==========================

عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیاوی، دربھنگہ، بہار

استاذ: معہد العلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، ویشالی، بہار 9308426298

Abdurrahim.darbhanga@gmail.com

==========================


"ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا: اچھے معلم، بہترین انسان" اس کتاب کو برادر محترم مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری، استاذ حدیث وفقہ: دار العلوم سبیل السلام، حیدرآباد نے ترتیب دیا ہے، 340/ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی کمپوزنگ محمد وہاج الہدیٰ سبیلی قاسمی نے کی ہے، کتاب کو نور اردو لائبریری، حسن پور گنگھٹی، بکساما، ویشالی کےزیر اہتمام شائع کیا گیا ہے، سرِ ورق بہت ہی عمدہ اور دیدہ زیب ہے، کتاب کی اصل قیمت 400/ روپے ہے، جو کہ مناسب ہے۔ آپ بھی اس کتاب کو نور اردو لائبریری، حسن پور گنگٹھی، بکساما، ویشالی، نور القمر لائبریری، مدنی نگر، مہوا، ویشالی، اور دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد سے بہ آسانی حاصل کر سکتے ہیں۔

مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری صاحب کی ایک دوسری کتاب "آسان ترجمہ و تفسیر قرآن مجید" (دو جلدوں میں) کچھ سال پہلے ہی شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہو چکی ہے۔

 340/صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب ایک نئی ترتیب کردہ کتاب ہے۔ کتاب کا انتساب مرتب نے سب سے پہلے اپنے دادا و دادی جان کےنام کیا ہے، اس کے بعد والد مرحوم کے نام، پھر اپنی والدہ محترمہ کےنام کیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ والدہ محترمہ کا سایہ تادیر قائم و دائم رکھے، آمین۔ حرف چند کے عنوان سے مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی صاحب، نائب ناظم: امارت شرعیہ، بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ نے اظہار خیال کیا ہے۔ حضرت مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ: انسانی زندگی میں عبرت و موعظت کے بڑے سامان ہیں، اسی لیے اللّٰہ رب العزت نے کتاب ہدایت، قران کریم میں انسانی تخلیق سے لےکر موت تک کے احوال کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، زندگی کے نشیب و فراز، اتار چڑھاؤ، بے سروسامانی کے باوجود انبیائے کرام کا وقت کے جابر و ظالم حکمرانوں پر غلبہ کی کہانی آج کے حالات میں بھی ہمارے لیے سکون واطمینان اور ڈھارس کا بڑا سبب ہیں، سوانحی خاکہ، تذکرے اور انسانی زندگی کی کہانی کی بڑی اہمیت ومعنویت ہے، مختلف انداز کی زندگی گزارنے والوں کے لیے یہ الگ الگ آئینہ ہوتا ہے، جس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی زندگی کا تجزیہ بھی کیا جاسکتا ہے، اسے راہ راست پر لایا جا سکتا ہے، اور ان منکرات سے بچا بھی جاسکتا ہے، جو دنیا و آخرت کی زندگی کو برباد کر دیتے ہیں۔

اس کے بعد عرض مرتب کے عنوان سے مرتبِ کتاب نے 13/تا 18/ صفحہ، کل چھ صفحات پر تفصیل سے کتاب کے حوالے سے گفتگو کی ہے، جس کو پڑھنے کے بعد قارئین کرام مکمل کتاب پڑھے بغیر خود کو نہیں روک سکتے ہیں۔

اس کتاب کو کل چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا باب صفحہ 19/ سے شروع ہو کر صفحہ 88/ پر ختم ہوتا ہے، اس باب کا عنوان ہے "مہد سے لحد تک" جس میں مرتب کتاب نے سب سے پہلے اپنے والد محترم ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا کا سوانحی خاکہ "من کہ....." کے عنوان سے پیش کیا ہے، جس کا اکثر حصہ خود مرحوم نے وفات سے چند ماہ قبل سپرد قرطاس کیا تھا، جس میں پوری تفصیل سے اچھے انداز میں نام و نسب، تعلیم و تربیت، ملازمت، شادی بیاہ، اور آل و اولاد تمام باتوں کا ذکر ہے۔

اس کے بعد وہ مضامین جو صاحب تذکرہ کی زندگی کے از ابتدا تا انتہا مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں، انہیں اس باب میں جگہ دی گئی ہے، اس باب میں سوانحی خاکہ کے بعد پہلا مضمون محمد نجم‌الہدیٰ نجم صاحب کا "اچانک کی موت" کے عنوان سے درج ہے، مرحوم ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا آپ کے بھتیجا تھے، آپ سے عمر اور رشتے دونوں میں چھوٹے تھے، مگر ان کے باوجود آپ کا جو دلی لگاؤ، انسیت و محبت، ہمدردی اور حسن ظن مرحوم کے ساتھ تھا، اس کو تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

اس کے بعد مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی، جو مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں، "ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا رحمانی" کے عنوان سے صفحہ 32/ تا 36/ مرحوم کے ساتھ بچپن سے لے کر  اب تک کے تمام خوشی و غم‌ کے گزرے لمحات کو اجمالاً قلم بند کیا ہے، جو بہت آسان کام نہیں ہے، مفتی صاحب کی بہت سی خصوصیات ہیں، ایک آپ کی خاص خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کا قوت حافظہ اور یاد داشت بہت مضبوط ہے، اللّٰہ آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ عمر دراز ی نصیب فرمائے، آمین۔

مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ: "بھیا ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا ہم آٹھ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، میری پیدائش اور ان کی ولادت میں دو سال کا فاصلہ تھا، بھیا اور ہم ساتھ پلے بڑھے، کھیلے کودے؛ لیکن مجھے یاد نہیں کہ کسی موقع پر محبت و اخوت کے رشتے پر آنچ آئی ہو یا دل کے شیشے پر بال پڑا ہو، وہ مرنجا مرنج انسان تھے، حسد، کینہ، بغض و نفرت سے کو سوں دور تھے"، اپنے بھیا مرحوم کے متعلق مفتی صاحب نے معاملات، عبادات، عاجزی و انکساری کا نقشہ کھینچا ہے، جس کو پڑھتے پڑھتے آنکھوں سے اشکوں کا جاری ہونا یقینی ہے۔ مرحوم مہمان نواز تھے، مرحوم کا دل اور دستر خوان دونوں کشادہ اور وسیع ہوتا تھا، جس کا  مشاہدہ راقم نے خود بھی کیا ہے، مفتی صاحب اپنے مضمون کو اس مصرع پر مکمل کرتے ہیں :

کبھی فر صت میں سن لینا

بڑی ہے داستان میری۔

اس کے بعد ماسٹر محمد رضاء الہدیٰ رحمانی نے "بھائی جان کی کہانی میری زبانی" کے عنوان سے بھیا کے ساتھ گزرے زندگی کے یادگار لمحات اور بھیا کے خصوصی کمالات کو یکجا کر کے بہت سلیقہ سے پیش کیا ہے، رضاءالہدی رحمانی اپنے بھیا کے ساتھ گزرے لمحات میں 2004ء کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ: "بھائی جان جب حج کرنے جارہے تھے، تو مجھ سے ملنے مظفر پور آئے تھے، میں ایک ہفتہ قبل ہی سعودی عرب سےآیا تھا، چلتے  وقت 100ریال بھائی جان کے ہاتھ میں دیا کہ ایرپورٹ پر خرچ کیجیے گا، ان شاء اللہ میں محرم الحرام میں سعودی آؤں گا، تو ملنے کے لیے آؤں گا، ضرورت ہوگی تو بولیے گا، بھیا پیسہ رکھ کر بہت خوش ہوئے اور رونے لگے، میں بھی رونے لگا، پھر ہم دونوں بھائی ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے، اس واقعہ سے محبت و ہمدردی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ماسٹر محمد ذکاء الہدی صاحب کا مضمون "محمد ضیاء الہدیٰ ضیا: میرے بزرگ میرے رہنما" کےعنوان سے شامل ہے۔ ماسٹر محمد ذکاء الہدی صاحب نے اپنی یادوں کو کم‌ سے کم‌ الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، بھیا کے ساتھ گزرے شروع، درمیان اور آخری لمحات سب کو یکجا کرنے کے بعد، اپنے مضمون کو اس شعر سے مکمل کیا ہے:

یاد ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اس کے بعد مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری صاحب نے سوانحی انداز کا ایک تفصیلی مضمون قلم بند کیا ہے، جو کہ صفحہ 54 تا 73پر موجود ہے، جس کا عنوان ہے:  "اے دل! خموش صبرو رضا کا مقام ہے" مرتب نے اپنے والد ماجد کے متعلق جس تفصیل اور ترتیب سے سوانحی خاکہ کو قلم بند کیا ہے، مجھے رشک آتا ہے، یعنی ولادت باسعادت سے موت تک کے احوال، اور زندگی کے آخری ایام، سب کو یکجا کر کے قلم بند کردیا ہے۔ مرتب نے اپنے مضمون کو اس شعر سے مکمل کیا ہے:

غم کی آگ بڑی البیلی ہے، کیسے کوئی بجھائے

اندر ہڈی ہڈی سلگے، باہر نظر نہ آئے۔

اس کے بعد "آہ! میرے اباجی" کے عنوان سے محمد تاج الہدی رحمانی کا مضمون ہے۔ اس کے بعد "میری بھی سنو!" کے عنوان سے محمد وہاج الہدیٰ سبیلی قاسمی کا مضمون ہے، جو صفحہ 80 سے شروع ہو کر 88 پر ختم ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد باب دوم شروع ہوتا ہے، جو صفحہ 89 سے شروع ہو کر صفحہ 238 پر ختم ہو تا ہے، "نگارشات اعز و اقربا" کے عنوان سے یہ باب شروع ہوتا ہے، اس باب میں افراد خاندان کے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے، جن میں مرد حضرات، عورتیں اور بچے و بچیاں بھی شامل ہیں، جنہیں پڑھ کر صاحب تذکرہ کی گھریلو زندگی کی مکمل تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ مرتب نے اس باب میں مضامین کی ترتیب میں رشتے اور مراتب کے فرق کے ساتھ پہلے مردوں، بچوں، پھر عورتوں اور بچیوں کے مضامین شامل اشاعت کیا ہے، اگر مضامین کے معیار کے مطابق ترتیب دیتے تو میری راقم کی نظر میں اور بہتر ہوتا، اس باب میں بعض مضامین بہت معیاری اور جامع ہیں، مرتب کتاب کا بھی ایک مضمون "یہ ہے پیغام ضیا اسے سن لو ذرا" کے عنوان سے ہے، جس میں والد ماجد کے صرف اور صرف اوصاف جمیلہ کا تفصیل سے ذکر ہے۔ اس باب میں تمام بھائی، بیٹے، بیٹیاں، بہو، پوتے، پوتیاں، بھتیجے، نواسے، نواسیاں اور داماد کے مضامین شامل ہیں، سب نے اپنے اپنے انداز میں بھولی بسری یادیں یکجا کرنے کے بعد، قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند مضامین میں تھوڑی بہت تکرار بھی ہے، ورنہ بعض مضامین تو بہت معیاری ہیں، جیسے کہ: ڈاکٹر محمد نداء الہدی ندا صاحب کا مضمون "بھائی جان مانند رہبر" کے عنوان سے 13/ صفحات پر مشتمل تفصیلی مضمون ہے، جس میں بھائی جان کے احسانات، اعلیٰ اخلاق، صلہ رحمی اور مہمان نوازی سب کو شامل کیا ہے۔ صفحہ 110/ تا 111/ ڈاکٹر محمد صباء الہدیٰ صبا صاحب کا مضمون "آنسو نہیں تھمتے" کے عنوان سے درج ہے، بہت کم الفاظ میں ڈاکٹر محمد صباء الہدیٰ صبا صاحب نے اپنی بات بہت سلیقہ سے پیش کی ہے۔

صفحہ 147 تا 152 پر مولانا محمد نظرالہدی قاسمی صاحب کا مضمون ہے، مولانا محمد نظرالہدی قاسمی صاحب کا مرحوم سےدو رشتہ تھا، ایک چچا بھتیجے کا، تو دوسرا رشتہ سسر داماد کا، مولانا کے مضمون کا عنوان ہے "ابا! ہم‌آپ کو کبھی بھلا نہ پائیں گے"، مرحوم کی جو شفقت و محبت، ہمدردی، عنایت اور کرم فر مائیاں مولانا موصوف کے ساتھ تھیں، سب کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔

"میرے چچا جان" کے عنوان سے مفتی محمد ظفر الہدیٰ قاسمی صاحب کا مضمون جو تین صفحہ پر مشتمل ہے، مختصر؛ مگر جامع اور معیاری ہے، مرحوم کی خاص اوصاف کا تذکرہ مولانا نے کیا ہے۔ "بھائی جان _ ایک باکردار انسان" کے عنوان سے عشرت پروین زوجہ مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی صاحب کا مضمون بھی شامل باب ہے، مختصر مگر بہت اچھا مضمون ہے، مضمون تھوڑا اور طویل ہوتا تو بہت بہتر ہوتا اور مرحوم کے مزید اوصاف نکھر کر قارئین کے سامنے آتے، عشرت پروین لکھتی ہیں کہ: وہ میرے پھوپھی زاد بھائی اور میرے رضاعی بھائی بھی تھے، ہم لوگوں کے ساتھ ان کا اپنے بھائی بہنوں سے بڑھ کر اچھا سلوک تھا۔ "چمن ھدی کے نایاب پھول" کے عنوان سے ڈاکٹر زینت آراءصاحبہ  زوجہ محمد نداء الہدی ندا کا مضمون شامل باب ہے، جو صفحہ  190 سے شروع ہو کر 197 پر ختم ہوتا ہے، مضمون بہت معیاری اور عمدہ ہے۔ ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا صاحب کی تمام بیٹیوں نے بھی مضامین لکھے ہیں، جو اسی باب میں شامل ہیں، انداز، اسلوب اور معیار کے حساب سے بیٹیوں میں سب سے اچھا مضمون میری نظر میں سب سے چھوٹی بیٹی نگارافزا کا "بابا! میں تیری ملکہ ٹکڑا ہوں تیرے دل کا" شامل ہے، دیگر بہنوں کے مضامین بھی کچھ کم نہیں ہیں۔

اس کے بعد باب سوم شروع ہوتا ہے، جو 239 صفحہ سے شروع ہو کر 304 صفحہ پر ختم ہوتا ہے، اس باب میں اہل علم، دوست احباب اور محبین و مخلصین کے تاثرات و مضامین کو "کہتی ہے خلق خدا،، کے عنوان سے زینت قرطاس بنایا گیا ہے، اس باب میں بعض اہم ادبی، سماجی اور مذہبی شخصیات کے مضامین بھی شامل ہیں، جن میں فخر اردو، مشہور صاحب قلم، اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ہر دم رواں دواں انوار الحسن وسطوی صاحب کا مضمون صفحہ 255 تا 259 پر موجود ہے، دیگر احباب اور اہم شخصیات کے مضامین کے بعد راقم الحروف کا مضمون بھی "ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم" کے عنوان کے تحت 289 تا291 صفحہ پر موجود ہے۔

اس کے بعد باب چہارم صفحہ 304 تا 318 ہے، اس باب میں صرف منظوم خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے، مولانا سید مظاہر عالم شمسی قمر صاحب نے "ہو لحد پر ان کے بارش نور کی" کے عنوان سے منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے، اس کے بعد مشہور قلم کار، ناقد و ادیب، نئی نسل کے ابھرتے ہوئے شاعر ڈاکٹر کامران غنی صبا نے بھی "کاش ایسی ہو میری بھی شخصیت" کے عنوان سے خراج عقیدت پیش کیا ہے، اس کے بعد دو منظوم خراج عقیدت "الوداع! اے والد مرحوم الوداع" اور "جگاؤ نہ بابا کو نیند آگئی ہے" کے عنوان سے مرتب نے ابو یحییٰ ازہری کے نام سے پیش کیا ہے، مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری پہلے شاعری بھی کیا کرتے تھے، اور آپ کی بعض نظمیں، آج سے تقریباً دو دہائی پہلے ملک کے بعض جرائد و رسائل میں شایع ہوئی ہیں، آپ نے شاعری بھی بہت آسان زبان میں ہی کی ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو بیک وقت کئی کمالات اور خوبیوں کا مالک بنایا ہے۔ آپ کے مضامین مذہبی، ادبی اور سماجی، ملکی و غیر ملکی اخبارات و رسائل میں "ابو یحییٰ ازہری" کے نام سے بھی شائع ہوتے ہیں، آئندہ کبھی ابو یحییٰ ازہری کے نام سے مضامین پڑھیں تو سمجھ جائیں کہ یہ کوئی اور نہیں؛ بلکہ مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری ہی ہیں، حالاں کہ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی ایک مشہور صاحب قلم ابو یحییٰ ہیں، مگر ماشاءاللہ مولانا نے اس کنفیوزن اور شک کو بھی ابو یحییٰ کے ساتھ ازہری جوڑ کر ختم‌کر دیا ہے، حالاں کہ اب موصوف کی توجہ شاعری کی طرف نہیں ہے، آپ اچھے معلم، بہترین انسان، مفسر قرآن، اچھے خطیب اور عمدہ قلم کار کے اوصاف سے جانے جاتے ہیں۔ والد ماجد پر لکھی گئی اس کتاب میں مرتب کے دو اہم مضامین اور دو منظوم خراج عقیدت ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ حال اور مستقبل میں یہ کتاب "ھدی فیملی" کے لیے کسی قیمتی سرمایہ سے کم نہیں ہو گی۔

باب پنجم میں ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا صاحب کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریریں جمع کی گئی ہیں، جن کو پڑھنے کے بعد آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا علم وعمل کا پیکر ہونے کےساتھ صاحبِ قلم بھی تھے، جس کا نمونہ اس باب میں ہے۔ ماسٹر محمد نور الہدی ، مولانا سید شمس الحق اور شمیم جرنلسٹ پر تعزیتی مضامین اور یکجھتی کے عنوان پر بھی ایک مضمون ہے، "چند یاد داشتیں" کے عنوان سے مرتب نے مرحوم کی ڈائری سے چند باتوں کو منتخب کرکے پیش کیا ہے۔ باب ششم جو کہ کتاب کا آخری باب ہے، اس میں خاندان کا شجرۂ نسب ، مرحوم کے چند اہم کاغذات؛ آدھار کارڈ، حج کارڈ اور دیگر کاغذات کے عکس جمع کیے گئے ہیں۔

جن مضامین کے اخیر میں نصف یا اس سے زیادہ صفحہ خالی رہ گیا تھا، وہاں عبرت و نصیحت کے لیے آیت قرآنی، حدیث نبوی، کوئی عمدہ شعر یا کسی مشہور صاحب قلم کا اقتباس درج کر دیا گیا ہے، جس سے کتاب کے حسن میں اضافہ ہو گیا ہے، کتاب کے پچھلے حصے (بیک ٹائٹل/ بیک کور پیج) پر مرتب نے "یہ کتاب ! " کا عنوان دے کر اپنے والد محترم کا حقیقت سے لبریز ادبی پیرایۂ بیان میں، زبان و ادب کی چاشنی لیے ہوئے انتہائی جامع تعارف کرایا ہے، جس کا اختتام اس شعر پر ہے:

سورج ہوں ، زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا 

میں ڈوب بھی گیا، تو شفق چھوڑ جاؤں گا

جس سے کتاب کی خوب صورتی دو بالا ہو گئی ہے، میں دعا گو ہوں کہ آنے والی نسلوں اور ہدی خاندان کے لیے یہ مجموعہ اپنے اخلاق و کردار سنوارنے اور اپنے رب سے قربت پیدا کرنے میں "نشان راہ" ثابت ہو اور اس کتاب کو رب کریم مقبول عام و تام فر مائے، میں دل کی گہرائیوں سے برادر محترم مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری صاحب کو اس کتاب کی ترتیب و تصنیف پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید بھی کرتا ہوں کہ تصنیف وتالیف کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہےگا۔

==========================