دارالعلوم پوکرن میں حاضری
کتبہ ........ منظور احمدقاسمی اسعدنگر ملوا
مدارس اسلامیہ میں شعبان المعظم کاپہلاعشرہ سالانہ امتحانات کی سرگرمیوں اور امتحان کےمتعلقہ امور کی انجام دہی میں نذرہوجاتا ہے،اہل مدارس *۱۰* شعبان کو تعلیمی سرگرمیاں دوماہ کےلیے مؤخر کردیتے ہیں، بعد رمضان المبارک ازسرنوپورےشوق وذوق اور نئےجذبہ وولولہ کےساتھ تعلیم شروع کرتےہیں،
اس ماہ جاری کےپہلےدس ایام میں ذمہ داران مدارس طلبہ عظام کی درسی وتعلیمی نتائج اور انکی کوششوں اور جدجہد کوبروء کارلانے اورمحنتی طلبہ عظام کی حوصلہ افزائی اور لاپرواہ کم شوق طلبہ کرام کو صحیح تعلیمی رخ پرڈالنےکےلیے سالانہ امتحانات کرواتے ہیں،اور اس میں اچھے نمبرات سےکامیاب ہونے والے طلبہ کوگرانقدرانعامات سے نوازاجاتا ہے،
سالانہ امتحانات کےموقعہ قرب وجوار کے مدارس سے ممتحنین مدعو کئے جاتے ہیں،کچھ تقریری امتحانات ہوتے ہیں، اور کچھ تحریری امتحانات کی کاپیاں چیک کرائی جاتی ہیں،
بحمدہ تعالی اساتذہ کرام کےحسن ظن کےبناپر اپنی کم علمی مائیگی اور بےبضاعتی کےباوجود پچھلےتین سالوں سےبلاناغہ ازہرراجستھان دارالعلوم پوکرن میں سالانہ امتحانات کے موقعہ پرحاضری کی سعادت سے سرافراز ہونےکی توفیق مل رہی ہے، *اس عظیم ادارہ میں جہاں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم درسگاہ میں درس دینےوالے اساتذہ کرام بحیثیت ممتحنین حاضر ہوتے ہیں* ایسے ادارہ میں مجھ جیسے فرو مایہ طالب علم کی بحیثیت ممتحن حاضری اساتذہ کرام کی توجہ اور انکے کرم ولطف کاہی نتیجہ ہے
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دارالعلوم پوکرن میں ہرسال سالانہ امتحانات کے موقعہ پردارالعلوم دیوبند سے اساتذہ مدعو کئے جاتے ہیں، اور تحریری امتحانات کی کاپیوں کاجائزہ لیتے ہیں، اورالحمدللہ تمام آنے والے اساتذہ دارالعلوم دیوبند نے تعلیمی حسن کارکردگی کے حوالہ سے بہت ہی مسرت واطمینان بخش تاثرات تحریرفرمائیں ہیں {الفضل يرجع الى الله}
امسال بھی ازہرہند سے حضرت مولانا اشرف عباس دامت برکاتہم وحضرت مولانا وقاری افتاب عالم صاحب دامت برکاتہم تشریف لائے تھے،
دارالعلوم پوکرن کے منتظمین حضرات کی پرخلوص دعوت پربہ روز اتواردارالعلوم پوکرن کےلیے عازم سفرہوا،اورشام ساڑھے چاربجے مادرعلمی میں حاضرہوا، وہ مادر علمی جس کےعلمی ماحول وپدری شفقت دینےوالےمہربان اساتذہ کے سایہ عاطفت تلےمسلسل تین سال رہنےکاموقعہ ملا،وہ مادرعلمی جس کے بطن میں کچھ لکھنےپڑھنےکاشوق اورعلمی میدان کچھ کرگزرنےکاذوق ملا،وہ مادر علمی جس کےپاک وروحانی ماحول میں ازہرہند دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنےکاشوق مزید پروان چڑھا،اور الحمدللہ اساتذہ کرام کی محنت وآہ سحرگاھی کی بدولت ازہرہند سےخوشہ چینی کرنےوالی جماعت میں شریک ہوئے،
(للہ الحمد من قبل ومن بعد)
دارالعلوم پوکرن میں یہ حاضری چارماہ کےبعد ہورہی تھی، اس قلیل عرصہ میں تعمیری اعتبار سے کافی ترقی ہوئی ہے، لب سڑک واقع شاندارعمارت کو اوپرسےچاروں طرف جودھبور کے قیمتی پتھر سے مزین کیا گیا ہے، اور سامنے سے دوبہترین گنبد بنائیں گئے ہیں،جودیکھنےوالےکو بہت ہی خوشنمامعلوم ہوتے ہیں، اور سامنے سےگذرنےوالےکودعوت نظارہ دےرہےہیں،خیرساڑھے چاربجے بس سے اترکرمادرعلمی کی راہ لی، تواچانک پیچھے سے ایک موٹرسائکل والے نے زور دار ہارن بجھاکررکنے کااشارہ کیا، پیچھےپلٹ کردیکھاتو معلوم ہواکہ مادرعلمی کے شعبہ قراءت کے مایہ ناز استاذ جناب قاری نورمحمد صاحب زید مجدہ تھاٹ ہیں،موصوف نے سلیک وعلیک کےبعد بااصرارموٹرسائکل پرسوارکرکے مادرعلمی کے صدردروازہ پرلاچھوڑا،اندر داخل ہوتے ہی ایک روحانی کیفیت محسوس ہوئی، دل باغ باغ ہوگیا،دارالعلوم پوکرن میں ہمیشہ سے ایسے نفوس قدسیہ کاورود رہاہے، جنکی آمد سے دارالعلوم پوکرن کےبام ودرمنور وروشن ہے،
خود حضرت مہتمم صاحب مدظلہم ایک صاحب نسبت بزرگ ولی کامل ہیں، یقینا حضرت مدظلہم کاوجود بھی دارالعلوم پوکرن میں روحانی کیفیت کاعظیم سبب ہے،
بندہ عارف باللہ ولی کامل حضرت اقدس مولاناوقاری محمدامین صاحب مدظلہم سے ملاقات وزیارت کےاشتیاق میں سیدھاانکے حجرہ کی طرف گیا، لیکن یہ معلوم ہوکر بہت افسوس ہوا کہ حضرت کچھ دیر پہلے پھلــودی کےلیے سفرپر نکل چکے ہیں، بعد نمازعشاء واپسی کاامکان ہے، تھوڑی دیر سستانےکےلیے حضرت ہی کے کمرہ میں بیٹھ گیا، کچھ دیر گذرتھی کہ بندہ کے دو مخلص شاگرد جوعلاقہ پاٹودی کے باشندہ ہیں، حاضرہوئے، مختصر گفت وشنید کےبعدان میں سےایک بغیرمطالبہ کے بہترین چائےلےآئے، چائے نوشی کےبعد ظہرکی دوگانہ اداکرنےکےلیے حضرت کےکمرہ سے نکل مسجد انور کی طرف رخ کیا، اثناء راہ قدیم شناسائی رکھنےوالے دوست واحباب سےبھی ملاقات ہوئی،سبھی نے گرم جوشی سے ملاقات کی، نماز ظہر کی ادائگی کےلیےمسجد میں گیا، مسجد پوری کھچاکھچ طلبہ سے بھری ہوئی تھی، سارے طلبہ امتحانات کی تیاری میں کتابوں کےمطالعہ میں محوتھے
یہ منظردیکھ کردارالعلوم دیوبند کی یاد تازہ ہوگئی،
دارالعلوم پوکرن میں تعلیمی ڈھانچہ مضبوط اور بہت زیادہ بہتر ہے، ارباب بست کشاد کی کدوکاوش کی بدولت تعلیم اورتربیت پورے صوبہ راجستھان میں مثالی ہے، باری تعالی مزید دارالعلوم پوکرن کو ترقیات سے مالامال فرمائے!!
بہر کیف ظہرکی دوگانہ اداکرلینےکےبعدناظم امتحان حضرت مفتی عبدالسلام صاحب سے فون پرراطہ کیا،بندہ سے متعلقہ کتب کی کاپیاں چیک کرنے کےبارے میں معلوم کیا،انہوں نےجوابا فرمایا کہ آپکے متعلق عربی سوم میں پڑھائی جانے والی القراءة الواضحہ اور اسکےساتھ تعلیم المتعلم اور کافیہ کی کاپیاں چیک کرنا ہے، دوران گفتگونمازعصر کےلیے مؤذن صاحب نے بہترین سریلی آواز میں آذان دیتے ہوئے خدا کے حضور سربسجود ہونےکی دعوت دی، چنانچہ سارے طلبہ ومہمانوں نے وضوخانہ کارخ کیا، مادرعلمی کی ہردرسگاہ سے طلبہ کےجھنڈکےجھنڈ نکل کرمسجد انور کی طرف رخ کررہےتھے، ہرطرف سےسفید لباس میں فرشتہ خصلت طلبہ کی ٹولیاں نکل کرمسجد جارہی تھیں، یقینا منظر بہت ہی دل کش دل ربا اورخوشنماتھا، بایں وجہ امتحان کے حوالہ سے مفتی صاحب سے فون پرہورہی گفتگوکو موقوف کرکے بندہ نماز عصر کےلیے مسجدآگیا، یہ وہ مسجد انور ہے جس میں مکمل تین سال تک پانچوں نمازیں پڑھنے کاموقع مَیسرہوا، اسی مسجد انور میں امتحانات کی تیاریوں کےسلسلے میں شب کےدو تین بجے تک کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہنےکاموقع ملاتھا،مسجد میں داخل ہوتے ہی ذہن میں ماضی کی یادیں گھومنےلگی، شب کی وہ گھڑیاں یاد آنےلگیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری نماز ان خیالات کے نظرہوگئ،
خیر نمازعصر سےفراغت کےبعد بندہ اپنے کچھ دوستوں کےہمراہ پوکرن کی جامع مسجدکےپاس واقع رحمت اللہ درزی کی دکان ایک جوڑا کپڑے سلانےکےلیے گیا،بہت منت سماجت کےبعددودن میں درزی صاحب کو کپڑاتیارکرنےپر راضی کرلیا،اور الحمدللہ دودن میں تیار کرکے حوالہ کردیافجزاہ اللہ احسن الجزاء، بعدازاں سیرتفریح کی غرض سے اپنےساتھیوں کےساتھ شہرمیں چکرلگاتے ہوئے مدرسہ پہنچ گئے، تھوڑی ہی دیرکےبعد نمازمغرب کاوقت ہوگیا، پھر وہی نماز عصر والا خوشنمامنظر عودکرآیا،تقریبا بارہ سولوگ ایک ساتھ خدا کےحضور اپنی پیشانیاں رکھ کر عبدیت کاثبوت دےرہے تھے، مغرب کی نماز میں جناب قاری نورمحمد پھلودی امامت کررہےتھے، موصوف کواللہ تعالی نے حسن صوت کیساتھ فن تجوید میں بڑی مہارت عطافرمائی ہے، بہت ہی نرالےاچھوتے انداز میں سبعہ عشرہ تلاوت کررہےتھے،نماز سے فراغت کےبعد بندہ مفتی عبدالسلام صاحب کوتلاش کرنےمیں لگ گیا، تھوڑی سی جستجوکےبعد مفتی صاحب سےملاقت ہوئی، مفتی صاحب نے اپنے نرالے انداز میں مسکراکرملاقات کرتے ہوئے معانقہ کیا
احوال سفر دریافت کرنےکےبعد القراءة الواضحہ کی تقریبا47 کاپیاں سپردکیں، بندہ وہاں سے سیدھااسعدی دارالضیوف جوفدائے ملت کےنام سے موسوم ہےکارخ کیا،جوالحمدللہ بہت ہی وسیع اور خوبصورت اور جدید تمام سہولیات سے مزین ہے، اس میں ایک خالی کمرہ میں بیٹھ کرالقراءة الواضحة کی جوابی کاپیاں جانچ کرنے میں مصروف ہوگیا،طلبہ کی جوابی کاپیاں دیکھراندازہ ہوا کہ اساتذہ دارالعلوم پوکرن طلبہ کی علمی قابلیت کونکھارنے اورانکی تعلیمی رہنمائی میں رات دن لگے ہوئے ہیں،حسن خط، مضمون نگاری، جوابات لکھنے میں سلیقہ مندی اس بات کی طرف مشیرتھی کہ طلبہ محنت اوراپنے قیمتی اثاثہ کو صحیح خرچ کرتے ہیں، اسی بیچ قدیم شناسائی رکھنےوالے دوست واحباب بھی تشریف لاتے رہےجن کےمتعلق عربی اول دوم کے تقریری امتحانات کی ذمے داری سپرد کی گئی تھی، نتیجہ یہ ہواکہ اچھاخاصا وقت ان ملاقتوں کےنذرہوگیا،تاآنکہ عشائیہ کےلیے ناظم مہمان خانہ نے دسترخوان پر بلایا، چنانچہ کاپیوں کوسمیٹ کریک طرف رکھتے ہوئے باہرنکلا،اچانک میری نظر میرے انتہائی مشفق استاذ جناب حضرت مولانا ومفتی سعید احمدصاحب دامت برکاتہم ناظم تعلیمات دارالعلوم پوکرن پرپڑی، جنکو اللہ تعالی نے حسن اخلاق وتواضع کاوافرحصہ عطافرمایا ہے،جواپنےپرائے سب سے خندہ پیشانی سے ملنے والےعظیم انسان ہیں، حضرت نے یہ کہتے ہوئے معانقہ فرمایا کہ مولوی منظور کب آئے ہو، یقین مانیے حضرت کامجھ جیسے ناکارہ کےساتھ یہ مشفقانہ وپدرانہ برتاؤدیکھر کراندازہ ہواکہ حضرت مفتی صاحب اپنے خوردوسے کتنی محبت فرماتے ہیں،اس کااندازہ لگانا مجھ جیسے احسان فراموش کےلیے مشکل ہے، قبل ازیں کہ دسترخواہ سےاٹھتا کہ دارالعلوم پوکرن میں شعبہ حفظ کے مقبول استاذ جناب حافظ عبدالمالک بھی آگئے، جو رابطہ مدارس کی طرف سے جودھپور میں حفظ کےامتحان لینے کےلیے گئے ہوئے تھے، بڑی محبت سے ملاقات کی، بعد فراغت طعام فورا کاپیاں جانچنے مصروف ہوگیا!!
ابھی کچھ دس ہی کاپیاں جانچی ہوگیں کہ نمازعشاء کےلیے اذان ہوئی، چنانچہ جوابات کی کاپیاں سمیٹ کر ایک طرف رکھی دی، اور وضوسےفارغ ہوکرمسجد انورکی طرف چل دیا،بلامبالغہ ایک ہزار سے متجاوز طلبہ کاازدحام وہ بھی آقاء نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ سفید لباس میں ملبوس ایک روحانی سماں قائم کیے ہوئےتھا، ایک نہایت ہی شاندار قابل دید منظرآشکاراتھا،پھر مزید امام صاحب کی مسحور کن قراءت نے ایک سرور کاماحول قائم کردیا، مسجد کی محراب والی دیوار کی کھڑکیوں میں تین بہترین کولر نصب کیے ہوئے ہیں، جسکی یخ بستہ ٹھنڈھی ہواؤں سےمصلی حضرات لطف اندوز ہوکر اپریل کی گرمی سے نجات پارہے تھے، وتر ونوافل سے فراغت کےبعد تمام نمازی سورہ ملک کی تلاوت میں لگ گئے، اس کےبعد ناظم دارالعلوم پوکرن حضرت مفتی سعیداحمد صاحب نے جمیع طلبہ کومسجد میں اکھٹا کرکے پندونصائح سے نوازا، اورسالانہ تعطیلات گذارنےکےحوالہ سے قیمتی ومفید باتیں ارشادفرمائی،فرمایا کہ طلبہ عزیز آپ حضرات دوماہ کےلیے اپنے وطن جارہے ہیں، ایک نورانی ماحول سے نکل ایک ایسے معاشرہ کارخ کررہے ہیں، جہاں دین سے دوری پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی ،اس لیے تمہارےلیےنماز وتلاوت تسبیحات کی پابندی ازحد ضروری ہے، اور مفتی صاحب نے تمام طلبہ کودارالعلوم پوکرن کےقوانین کےروسے دس شوال المکرم کومدرسہ میں حاضری دینے پرسخت تاکید فرمائ، اور مزید فرمایا کہ علمی قابلیت اسی وقت بڑھ سکتی ہے جب اسباق میں مکمل پابندی اور حاضرباشی ہوگی،
یادش بخیر، بندہ مسجدانور سے نکلا، اور مہان خانہ میں رکھی تحریری کاپیاں اٹھاکرجناب حافظ عبدالمالک صاحب برسانوی کی قیامگاہ میں جودومنزلہ عمارت پرمشرق کی جانب واقع ہے، چلاآیا، اور پوری یکسوئی اورحاضردماغی کےساتھ جوابات کی کاپیاں جانچنے میں لگ گیا، اور قریبا پونے بارہ بجے تک کاپیاں جانچتا راہا،پورے دن سفر میں ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ سستی کاہلی کاپورا قبضہ تھا، انگڑائی پہ انگڑائی پریشان کیے ہوئے تھی، بالآخرنید کےسواء کوئی چارہ کار نہیں تھا، چنانچہ حضرت قاری صاحب کی خلوت گاہ کے پڑوس میں بنے ایک دوسرے مہمان خانہ میں ایسی گہری نید سوگیا،کہ فجرکی اذان پرایک صاحب جواسی مہمان خانہ میں آرام فرماتھے، بیدار کرنے پرہی جاگ اٹھا،اور *النوم اخت الموت* اعتقاد مزید پختہ ہوگیا،کہ پوری رات ایک پل بھر میں اپنا سفر ختم کرچکی تھی، وضودگر ضروریات سے فارغ ہوکر فجرکی دوگانہ مسجد انور میں اداکی، بعدہ مسجد انورمیں معمول کےمطابق مجلس ذکرلگی، اس بابرکت مجلسِ ذکر میں دارالعلوم کے سینئر تمام اساتذہ شریک ہوکر قلب کو مصفی ومجلی کرنےکے لیے اسم ذات کی ضربیں لگاتے ہیں، حضرت مہتمم صاحب مدظلہم کی ذکرکے وقت کیفیت قابل دید ہوتی ہے،باری تعالی کے اسم ذات کاورداس پیارومحبت اورعشق سے کرتے ہیں، کہ معاصی کی دلدل میں پھنسے قلب میں بھی عشق الہی کی چنگاری بھڑکنےلگتی ہے، مسجد کےدرودیوارذکرالہی کےانوارت سے معمور نظرآنےلگتی ہے، باری تعالی اسی متبرک مجلسیں تاروز محشر برقرار رکھے، کافی دیرتک بندہ بھی اس مجلس میں بیٹھ کراپنے عاصی دل کو منور کرتارہا،اور اللہ کے نام میں بھری مٹھاس سے محظوظ ہوتارہا، اللہ باربار ایسی مجلسوں میں شریک ہونے کی توفیق عطافرمائے، بعدازاں مسجد سے نکل کررات والی قیامگاہ میں چائے نوشی اور اس کےلوازمات سے فارغ ہوکرسیدھا حضرت قاری صاحب کے کمرہ میں حضرت کی دید کےلیے گیا، لیکن حضرت ابھی تک مسجد ہی تشریف فرماتھے، حضرت کایہ ہمیشہ سے معمول ہے کہ حضرت اشراق پڑھ کرہی اپنی خلوت گاہ پرتشریف لاتے ہیں، استقامت اور اعمال صالحہ میں ہمیشگی حضرت قاری صاحب مدظلہم کی عادت ثانیہ بن گئی ہے، سخت سے سخت نامساعد حالات میں بھی اپنے یومیہ اوراد واذکارکوناغہ کرناانکے بس سے باہر ہے، سستی وکاہلی کاقریب کابھی واسطہ نہیں، حضرت اپنے متوسلین ومعتقدین کوبھی مداومت اور ہمیشہ کی تاکید فرماتے ہیں،
کسی بھی نیک کام پر بغیرمداومت کہ اچھے نتیجہ کی امیدیں وابستہ کرناایک امرمحال سےکم نہیں،
کچھ پندرہ بیس منٹ کےبعد حضرت دامت برکاتہم تشریف لائے، چہرہ پرذکرومراقبہ کے انوارات کی بارش ہورہی تھی، ویسے ہروقت حضرت کے چہرہ سے شب خیزی وتہجد گزاری آہ سحرگاہی کے انوار نمایاں طوردکھائی دیتےہیں، ہزاروں کی بھیڑ میں نمایاں نظرآتے ہیں،اس عمر کی آٹھویں دہائی میں بھی چہرہ مکھڑے میں تروتازگی اورمسرت انگیزنوراللہ کے ذکر کی برکات ہی ہوسکتی ہیں، پہلی بار دیکھنےوالےکادل بھی اندر سے ولی کامل ہونے گواہی دیتا ہے،
حضرت نے محبت بھرےانداز میں مصافحہ کرتےہوئے فرمایا کہ بیٹی کب آئی ہو، حضرت اپنے شاگردوں اور متوسیلین کوہمیشہ بیٹی ہی سے مخاطب فرماتے ہیں، خیرخیریت معلوم فرمائی، اور ڈھیربھریچب دعاؤں سےنوازا،اور بندہ سےمتعلق ممتحنہ کتب بھی دریافت فرمائی، بتانے پرمزید ترقی کی دعاؤں سے نوازا،
کم وپیش حضرت قاری صاحب مدظلہم کی صحبت عالیہ میں آدھا گھٹنہ بیٹھنے کی سعادت میسرآئی، اور اس دوران حضرت نے درس وتدریس کےعلاوہ خارجی علمی مطالعہ و مشغولی کےبارے میں بھی دریافت فرمایا،اوریومیہ علمی امور کو انجام دینے کےلیے ایک مناسب وقت طےکرکے اس کام کواسی وقت متعینہ میں پوراکرنے کے بےشمار فائدہ بتاتے ہوئے حضرت حکیم الامت علیہ الرحمہ کی مثال دی، فرمایا کہ حضرت حکیم الامت نے اپنے پورے دن کےاوقات کو ہرعلمی کام کےلیے تقسیم کررکھا تھا،اور اسی مخصوص وقت میں اس کام کو پابندی سے کیا کرتے تھے، اسی کانتیجہ تھا کہ حضرت حکیم الامت نےمختلف موضوعات پربےشماراردووعربی میں کتابیں تحریر فرمائی ہیں، جسکی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے، اللہ ہمیں اپنے اکابرین کےنقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے،
اس ملاقات میں حضرت کی نوازشیں عنایتیں،خُرد نوازیاں بارش کی طرح سےبندہ پر برس رہی تھیں، *یک زمانہ صحبت بااولیابہتراز سوسالہ طاعت بےریا* جیسی عظیم عبادت بندہ کامقدور بن رہی تھی،دل اندر سے مزیدحضرت کےپاس بیٹھنےکوتڑپ رہاتھا، لیکن تحریری امتحان کی ذمےداری کے بوجھ نے ایک طرح سے بےچین کیےہوئے تھا،اس لیے بادل ناخواستہ مجبورا بندہ حضرت قاری صاحب مدظلہم سے اجازت لےکر سیدھا حافظ عبدالمالک کے کمرہ میں فن نحو کی مشہور ومعروف کتاب کافیہ کی تحریری کاپیاں جانچنے میں لگ گیا، اور تقریبادوگھٹنے کی محنت شاقہ کےبعد ساری کاپیاں جانچ کرفارغ ہوا، اب حسب پروگرام دارالعلوم پوکرن کے مشہور استاذ ادیب باکمال جناب مولانا *عبدالرؤوف* صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات کرنی تھی، اسی پروگرام کےتحت حضرت مولانا کی زیارت کےلیے وہاں سے نکل نیچےاترآیا، لیکن چونکہ تھکاوٹ بہت ہورہی تھی، سستی وکاہلی کی وجہ سے دماغ ہرکام سے یکسو ہوکرآرام طلبی کےکیےآمادہ تھا،ویسے بھی فطرتا بندہ سست وکاہل واقع ہواہے، سوچاکہ تھوڑی چائے نوشی اورسیرتفریح کرکے تازہ دم ہوجائیں،چنانچہ دارالعلوم پوکرن کے صدر گیٹ سے نکل کربازار کی راہ لی، تھوڑا ہی دور گیاتھا کہ بندہ کے ایک قدیم دوست محترم *عبدالحنان* کاناسروی متعلم درجہ ہفتم سے اثناہ راہ ملاقات ہوئی، مختصر گفت وشنیدکےبعداز خود انہوں نے ناشتہ وچائے کی فرمایش کی،گویا انکو میرےپروگرام کا علم پہلے ہوچکا تھا،اور کچھ قدم دورچلےتھے کہ انہوں دریادلی کاثبوت دیتے ناشتہ کےلیے ایک بہترین ہوٹل کاانتخاب کیا، جومیرے خیال سے ابھی نئ تعمیر شدہ بہترین ہوٹل ہے،موصوف نے ناشتہ میں بہترین میٹھائی اورکچھ نمکین ناشتہ منگایا،اور الحمد للہ ہم دونوں نے شکم سیر ہوکر ناشتہ کھایا،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ دوپہر کےدسترخواں پر بہترین میٹھے چاول اوربکرےکےگوشت سے لطف اندوز نہ ہوسکا،دیکھنے کےعلاوہ ان چاول اورکباب کو برتنےکاموقع بہت کم ملا،دسترخوان پر رکھی سلادلینے پراکتفاکیا،،
خیرچائے ناشتہ سے فارغ ہوکرہم دونوں حضرت مولاناعبدالرؤوف صاحب سے ملنے ان کی قیامگاہ پرچلےآئے،اورابھی انکے کمرہ کےسامنے ہی پہنچے تھے کہ ادیب صاحب سامنےسے تشریف لاتے دکھائی دیے، بالکل کمرے کےسامنے ادیب صاحب سے ملاقات کاشرف حاصل ہوا، پھر اسکےبعدکافی دیر تک حضرت کےپاس بیٹھ کرعلمی باتیں سنتارہا، ادیب صاحب دامت برکاتہم درس وتدریس سے انتہائی شغف رکھنے والے عظیم استاذ ہیں، انکو پڑھنےوپڑھانےکےسوامَدْرسِی دگر سرگرمیوں سے دلچسپی بہت ہی کم بلکہ نہ ہونےکےدرجہ میں ہے، انکا سارا دن درسگاہ میں تدریس یااپنی قیامگاہ پر مطالعہ ہی میں گذرتا ہے، ادیب صاحب مجلس بازی سے کنارہ کش ہوکر رہتے ہیں، اور بےضرراستاذ ہیں، عیب جوئی وغیبت حسد کینہ جیسی مہلک باطنی امراض سے ناآشنا ہیں،انکی طبیعت میں بہت سادگی ہے،بندہ ان سے بےپناہ محبت وعقیدت رکھتاہے، ان سے بہت ہی انسیت ہے، اللہ اسکو تادم واپسیں سلامت رکھے، کافی دیرکےبعدجب گھڑی کودیکھاتو معلوم ہوا کہ گیارہ بجنےکو ہے،اس لیے ادیب صاحب سے اجازت لےکر دارالضیوف آگیا،اوردوپہرکے کھانے سے فارغ ہوکر قیلولہ کی نیت سے دراز ہوگیا"