اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *١٥/محرم الحرام یوم تاسیس دارالعلوم دیوبند* *_عبید اللہ شمیم قاسمی_*

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 5 September 2020

*١٥/محرم الحرام یوم تاسیس دارالعلوم دیوبند* *_عبید اللہ شمیم قاسمی_*


 *١٥/محرم الحرام یوم تاسیس دارالعلوم دیوبند*

 

 *_عبید اللہ شمیم قاسمی_* 


   *1857ء کی جنگ آزادی* کی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند کے سیاسی اور معاشی زوال کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق، ثقافت، مذہب اور معاشرت پر بھی دوررس نتائج کے حامل برے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کا ملی تشخص خطرے میں پڑ گیا تھا اگر ایک طرف سقوط دہلی کے بعد مدرسہ رحیمیہ کے دروازے بند کر دئیے گئے تھے تو دوسری طرف ان کو ان کے مذہب سے بیزار کرنے کے لیے مذموم کوششوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا تھا۔


 *ان حالات میں ضروری* تھا کہ مسلمانوں کو اسلامی احکامات کی اصل روح سے باخبر رکھا جائے اور ان میں جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت کی تجدید کا عمل بلا تاخیر شروع کیا جائے تاکہ اسپین اور خلافت عثمانیہ کے مسلمانوں کی طرح ان کا شیرازہ ملت کہیں نہ جائے۔


 *ان حالات میں مولانا محمد قاسم نانوتوی* رحمہ اللہ اور آپ کے رفقائے کار نے فراستِ ایمانی سے اندازہ کرلیا کہ اگر ان نازک حالات میں مذہبی اور دینی طور پر مسلمانوں کی حفاظت وتربیت کا کوئی معقول اور خاطر خواہ انتظام نہ کیا گیا تو سخت خطرہ ہے کہ مسلمان کہیں نصرانیت اور دیگر فتنوں کے دام ہمرنگ زمین ہی میں نہ الجھ جائیں۔ جس جال کو بچھانے میں شاطرانِ افرنگ اور پنڈتوں اور دیگر باطل پرستوں کے عزائم ومساعی کوئی راز پنہاں نہ تھے، مسلمانوں کی اجتماعی شیرازہ بندی کو تربتر کرنے اور آئندہ ان کو دینی ماحول سے بے بہرہ رکھنے کی جو کوشش اس ملک میں ہورہی تھی، ان تمام پریشانیوں کو سوچنے اور سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اور آپ کے رفقاء کار کو نتیجہ رس دماغ اور سیماب (پارہ) کی طرح بے قرار دل مرحمت فرمایا تھا اور متلاشیانِ حق کے ایک ایک فرد کو زبانِ حال سے پکار پکار کر یہ کہہ رہے تھے:


 *کھول کر آنکھیں میرے آئینہ گفتار میں* 

 *آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ* 


 *ان حالات سے یقین ہوچکا* تھا کہ اسلام کا چمن اب اجڑا ہی چاہتا ہے اور یہ کہ اب ہندوستان بھی اسپین کی تاریخ دہرانے کے لئے کمربستہ ہوچکا ہے کہ اچانک چند نفوس قدسیہ نے باالہام خداوندی اپنے دل میں ایک خلش اور کسک محسوس کی، یہ خلش علومِ  نبوت کے تحفظ، دین کو بچانے اور اس کے راستہ سے ستم رسیدہ مسلمانوں کو بچانے کی تھی، وقت کے یہ اولیاء اللہ ایک جگہ جمع ہوئے اور اپنی اپنی قلبی واردات کا تذکرہ کیا جو اس پر مجتمع تھیں کہ اس وقت بقائے دین کی صورت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ دینی تعلیم کے ذریعہ مسلمانانِ ہند کی حفاظت کی جائے اور تعلیم وتربیت کے راستے سے ان کے دل ودماغ کی تعمیر کرکے ان کی بقاء کا سامان کیا جائے اور اس کی واحد صورت یہی ہے کہ ایک درس گاہ قائم کی جائے، جس میں علومِ نبویہ پڑھائے جائیں اور ان ہی کے مطابق مسلمانوں کی دینی معاشرتی اور تمدنی زندگی اسلامی سانچوں میں ڈھالی جائے، جس سے ایک طرف تو مسلمانوں کی داخلی راہ نمائی ہو اور دوسری طرف خارجی مدافعت بھی ہو۔ نیز مسلمانوں میں صحیح اسلامی تعلیمات بھی پھیلیں اور ایمان دارانہ سیاسی شعور بھی بیدار ہو۔


 *ان مقاصد کے لئے* کمر باندھ کر اٹھنے والے یہ لوگ رسمی قسم کے رہنما اور لیڈر نہ تھے، بلکہ خدا رسیدہ بزرگ اور اولیائے وقت تھے، ان کی یہ باہمی گفت وشنید کوئی رسمی قسم کا مشورہ یا تبادلہ خیال نہ تھا، بلکہ تبادلہ الہامات تھا۔ ان اہل اللہ کا اس تبادلہ واردات کے بعد قیام مدرسہ پر جم جانا، درحقیقت عالم غیب کا ایک مرکب اجماع تھا جو قیام مدرسہ کے بارہ میں منجانب اللہ واقع ہوا۔ اس سے جہاں یہ بات واضح ہے کہ اس وقت کے ہندوستان میں قیام مدرسہ کی یہ تجویز کوئی رسمی نہ تھی، بلکہ الہا می تھی۔ وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس تجویز کے پردہ میں ملک گیر اصلاح کی سپرٹ چھپی ہوئی تھی جو محض مقامی یا ہنگامی نہ تھی، کیونکہ اسلامی شوکت ختم ہوجانے کا اثر بھی مقامی نہ تھا، جس کے تدارک کی فکر تھی وہ پورے ملک پر پڑرہا تھا، اس لئے اس کے دفعیہ کی یہ ایمانی رنگ کی تحریک بھی مقامی انداز کی نہ تھی، بلکہ اس میں عالم گیری پنہاں تھی، گو ابتداء میں اس کی شکل ایک چھوٹے سے تخم کی سی تھی، مگر اس وقت اس میں ایک تناور شجرہ طیبہ لپٹا ہوا تھا، جس کی جڑیں سچے قلوب کی زمین میں پھیلی ہوئی تھیں اور شاخیں آسمان سے باتیں کرہی تھیں، اس سلسلہ میں نفوس قدسیہ کے سربراہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تھے، جنہوں نے اس غیبی اشارہ کو سمجھا اور اسے ایک تجویز کی صورت دی۔


 *تاریخ قیام دارالعلوم دیوبند* 


    ۱۵/ محرم ۱۲۸۳ھ ١٨٦٦ء بروز جمعرات تاریخ کا وہ مبارک دن ہے جس میں پیغمبر خدا کی دی ہوئی امانت کا چشمہٴ علم سرزمین دیوبند سے پھوٹا اور رشد وہدایت کا پورا شجرہ طوبیٰ بن کر پھیلا، جس کے لذیذ پھل سے دنیائے اسلام کی علمی بھوک ختم ہوئی اور جس کی سرسبز وشاداب شاخوں کے سایہ کے نیچے جہالت اور غفلت کی بادِ سموم میں جھلسنے والوں کو چین اور اطمینان نصیب ہوا اور اس صاف وشفاف چشمہ سے نہریں اور ندیاں پھوٹ کر نکلیں اور ایشیا بھر کے حضرات، اس مبارک تقریب میں بہت سے باخدا بزرگ جمع ہوئے اور دارالعلوم دیوبند کی موجودہ عمارت کے متصل جنوب کی طرف مسجد چھتہ میں انار کے درخت کے سایہ میں اس مدرسہ کا افتتاح ہوا۔ 


 *اس چشمہ نے ایک طرف* تو دین کے چمن کی آبیاری شروع کردی اور دوسری طرف اس تیز وتند رَو نے شرک وبدعت، فطرت پرستی، الحاد ودہریت اور آزادئ فکر کے ان خس خاشاک کو بہانا اور راستہ سے ہٹانا شروع کردیا، جنہوں نے مسلمانوں کے قلوب میں جڑ پکڑ کر انہیں یہ روز بد دکھایا تھا۔


 *اس طرح دارالعلوم دیوبند* کی ابتدا ہوئی، اس کے کچھ ہی عرصہ بعد پورے ملک میں مدارس کا جال پھیل گیا، اور راسخ العقیدہ اور دین اسلام کا پرچم بلند کرنے والے طلبہ ان مدارس سے فیض یاب ہونے کے بعد اطراف عالم میں پھیل گئے، آج جہاں کہیں بھی مدارس نظر آرہے ہیں وہ سب اسی شجرہ طوبی کی شاخیں ہیں، اللہ تعالی دارالعلوم دیوبند کی اور تمام مدارس اسلامیہ کی حفاظت فرمائے۔