از قلم : *ارشد جمال عمار*
*مئو یوپی انڈیا*
متعلم : *دارالعلوم دیوبند*
یوں تو ہزارہا ہزار واقعات صفحہ قرطاس پر مۂ و انجم اور آفتاب نصف النہار کی طرح تجلی زار ہیں، لاتعداد صفحات ایسے شہداء کو اپنے حلقۂ آغوش میں لئے ہوئے ہیں جن کو پڑھنے اور سننے سے چشم پر آب ہوجاتی ہے، روح کانپ اٹھتی ہے اور قلب تھرا جاتا ہے،
یہ تمام واقعات محض ورق گردانی اور خبر رسانی کے لئے نہیں رقم کیے گئے، بلکہ یہ تمام واقعات شُعبِ حیات انسانی کے لئے جانثاری و جانبازی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں،
اگر اس کا چشمِ قلب، باریک بینی اور درست نقطۂ نظر کو مد نظر رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو اس سے جزبۂ ایمانی میں قوت اور جہادِ زندگانی میں ندرت پیدا ہوتی ہے،
لیکن جو واقعہ محیر العقول اور تکسر الاذہان ہیں، جن سے اوراقِ تاریخ لالہ زار، اور اقلامِ مورخ آہ زار ہے تو وہ واقعۂ کربلا اور شہادت حسین ہے،
اہل کوفہ بار بار حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو فریب دہ مضامین کی خطوط نویسی کے ذریعہ دعوت دیتے، اور اس میں خلافت یزید کی بغاوت کا تذکرہ کرتے کہ یہاں کے بیشتر باشندے یزید کے ظلم و جبر اور تصلب و تشدد کی بنیاد پر متنفر ہوچکے ہیں، اور وہ آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کے خواہاں ہیں اس لئے آپ تشریف لائیے ....
جب خطوط کی آمد حد سے متجاوز ہوگئی تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود جانے کے بجائے اپنے چچا زاد بھائی کو حالات کا جائزہ لینے کیلئے بھیجا، جب مسلم بن عقیل وہاں پہونچ کر لوگوں سے گفت و شنید کی تو پتہ چلا کہ واقعی بہت سے لوگ یزید سے متنفر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کیلئے بیچین ہیں جب انہوں نے ایسے حالات دیکھے تو اپنے ہاتھوں پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت لینی شروع کردی ،چند ہی روز میں اٹھارہ ہزار افراد نے انکے ہاتھوں پر بیعت کرلی، انہوں نے فوراً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ حالات بالکل سازگار اور موافق ہیں، اس لئے آپ فی الفور تشریف لائیے یقین ہے کہ پورا عراق آپ کی تعبیداری اور باجگزاری کو تسلیم کرے گا، اور بآسانی خلافت حق قائم ہوجائے گی ....
لیکن اسکے بعد حالات بدل گئے اور یزید کو عبداللہ بن مسلم اور دیگر لوگوں نے خط کے ذریعے باخبر کیا کہ اگر تم کوفہ کو اپنے دائرۂ تسلط میں دیکھنا اور اس پر اپنا قبضہ باقی رکھنا چاہتے ہو تو نعمان بن بشیر کی جگہ ایسے آدمی کو بھیجو جو قوت کے ساتھ آپ کے احکامات پر عمل کرتا ہو، کیونکہ یا تو وہ قصداً ضعیف بن رہیں ہیں یا واقعتاً یہ ان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے ...
یزید نے اس مشورے کو قبول کرکے عبداللہ بن زیاد کو کوفہ اور بصرہ کا حاکم مقرر کر دیا، اور اس کو ایک خط لکھا کہ فوراً کوفہ پہونچ کر مسلم بن عقیل کو گرفتار کرو اور اسے قتل کردو،
ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کو مکر و فریب سے قتل کرا دیا، اور ان کی لاش بازار میں پھینکوا دی،
ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، آپ قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حربن یزید تمیمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے سے ملا اس نے کہا کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا ! کوفہ.... اس نے کہا وہاں کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ آپ کو یہاں سے واپس ہو جانا چاہیے ۔ پھر اس نے کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ سنایا، سارا واقعہ سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کر لیا، لیکن مسلم رضی اللہ عنہ کے بھائیوں نے کہا ہم بدلہ لیں گے یا شہید ہو جائیں گے، اس پر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے بغیر زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے، اب سب کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے جب آپ کو ابن زیاد کی فوج کا ہر اول دستہ نظر آیا تو آپ نے کربلا کا رخ کر لیا ...
جب آپ کربلا میں پہنچے خیمے نصب کر لئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو (100) کے قریب پیدل تھے۔ اس وقت ابن زیاد نے عمر بن سعد کو بلایا کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں میری مدد کریں۔ اس نے معذرت کی لیکن ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمر بن سعد نے ایک رات سوچنے کی مہلت لی۔ عمر بن سعد نے سوچنے کے بعد آمادگی کا اظہار کیا۔ عمر بن سعد کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ...
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین باتوں میں سے ایک مان لو۔
1۔ مجھے کسی اسلامی سرحد پر جانے دو۔
2۔ مجھے موقع دو کہ میں براہ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں۔
3۔ جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں۔
ابن سعد نے تجویز قبول کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دی اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، بس ایک بات کی کہ حسین رضی اللہ عنہ بیعت کریں، عمر بن سعد نے ہر بات امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی، انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر لڑائی چھڑ گئی، آپ کے سب ساتھی مظلومانہ شہید ہو گئے، دس سے زائد جوان گھر کے تھے، اسی اثناءمیں ایک تیر آیا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بچے پر لگا جو گود میں تھا، اس سے خون کو صاف کرتے ہوئے فرمایا! اے اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے بلایا اور اب ہمیں قتل کر رہے ہیں ....
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود تلوار ہاتھ میں لی اور مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔
اور جس شخص کے ہاتھ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ قبیلہ مذحج کا آدمی تھا۔ اگرچہ اس کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں۔ حج ھانی بن عروہ کا وہی قبیلہ جس نے قصر امارت پر چڑھائی کر دی۔ یہ شخص آپ کا سر تن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے کر گیا، اس نے سر مبارک یزید کے پاس بھیج دیا ....
یزید کے متعلق صیغہ فسق و فجور استعمال کرنا، اور لعن طعن کا نشتر چلانا کسی بھی طرح روا اور بجا معلوم نہیں ہوتا، یا اس کے برعکس اسے صالح و متقی کہنا، زہد و تقویٰ کا علمبردار گرداننا اور پاکبازی و پارسائی کے منصب پر بٹھانا بھی اس کے باطنی مزاج کے مترشح نہ ہونے کی وجہ سے جائز و مباح ہے، اس سلسلے میں احسن اور افضل راستہ سکوت و صموت کا اختیار کرنا ہے ....
کیونکہ جب حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کا سر مبارک اس کے سامنے رکھا گیا تو اس نے کہا کہ خدا کی قسم اگر میں تمہارا صاحب ( ابنِ زیاد کی جگہ میں ہوتا ) تو تم کو قتل نہ کرتا ...
( ابن کثیر 191/8، ابن اثیر : 299/3)
ابن تیمیہ نے بصراحت لکھا ہے !
لكنه هو لم يامر بقتله و لم يظهر الرضاء به و لا انتصر ممن قتله ( منهاج النبوة ٤ : ١٧٩ )