___________________________
جیسا کہ یہ بات واضح ہے کہ کرونا وائرس مہاماری کے نام پر جب ملک بھر کی تمام دینی و دنیاوی تعلیم گاہوں کو بند کرایا گیا، تو اس وقت مدارس اسلامیہ ہندیہ نے دارالعلوم دیوبند کے ہی حکم و مشورہ پر عمل کیا تھا، حکومتی دباو یا اس کی گائڈ لائن کو پیش نظر نہیں رکھا تھا، کیونکہ ملک بھر کے اسکول و کالج ١٢/مارچ سے بند ہونے شروع ہوگئے تھے، مگر مدارس اسلامیہ کا نظام تعلیم جاری تھا، اس میں سب سے پہلے صوبہ گجرات کے رابطہ مدارس اسلامیہ نے اعلامیہ جاری کیا تھا، پھر صوبہ بنگال، اس کے بعد رفتہ رفتہ تمام دیگر صوبوں نے اعلامیہ جاری کیا تھا، اور اسی کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا بدرالدین اجمل اٰسام کو خصوصاً اور دیگر مدارس اسلامیہ کو عموماً مخاطب کرکے حکومتی گائڈ لائن کو مان کر مدارس اسلامیہ کو بند کرنے کے لیے دارالعلوم دیوبند کی جانب سے بھی اعلامیہ جاری کیا گیا تھا،جو کہ ١٨/مارچ کے بعد جاری ہوا تھا، مگر یہ کس کو معلوم تھا کہ یہ تعلیم گاہیں اتنے لمبے عرصہ تک بند رہے گی، سب نے یہ سوچ کر کہ اٰگے رمضان المبارک بھی ہے،اور بھی کئی ساری صورتیں مدارس والوں کے سامنے تھی اس لیے یہ سمجھ کر مدارس اسلامیہ بند کردیے تھے، کہ عیدالفطر کے بعد حالات درست ہوجائیں گے اور دوبارہ سے جدید تعلیمی سال شروع ہوجائے گا، مگر رات دن جیسے گزرتے گئے حالات ویسے ہی بد سے بدتر ہوتے گئے، جب کہ لاک ڈاون بھی کھلا، اور نہ جانے اٰن لاک 01 سے لیکر اٰن لاک 04 تک، اب تقریباً تمام صوبوں کے اندر سے لاک ڈاون بالکلیہ ختم کردیا گیا،
اب تعلیم گاہیں کھولنے کے لیے ابھی حکومت نے واضح انداز میں کوئی نئی پالیسی و ہدایات بھی جاری نہیں کی ہے، اور ابھی جلد امید بھی نہیں کی جاسکتی، یہ الگ بات ہے درجہ ٩/سے لیکر درجہ ١٢/تک والدین کی راضی نامہ کو جمع کراتے ہوئے طلباء اسکول کالج جاسکتے ہیں، یہ فرمان اٰئندہ ٢١/ستمبر سے جاری ہو سکتا ہے، مگر بالکیہ ابھی اسکول و کالج نہیں کھلیں گے،کیونکہ حکومت نے خود کہا ہے کہ کروناوائرس کا ویکیسین تیار ہونے میں ابھی وقت لگے گا، اور2021 کی پہلی تماہی تک ٹیکہ اٰنے کی امید ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اٰن لائن تعلیم کا سسٹم برابر جاری رہے گا، چہ جائے کہ اس سے بہت بڑا طبقہ محروم ہے اور وہ اٰن لائن کلاسز نہیں لے پا رہا ہے، کیونکہ غریب دیہات کے بچوں کے پاس نہ تو اسمارٹ فون ہے اور نہ ڈاٹا کے لیے خرچ، کیونکہ وہ تو بے چارے اٰٹے کے لیے ہی ترس رہے ہیں، مگر حکومت نے لوگوں کو اٰن لائن کلاس کے نام پر بیوقوف بنا رکھا ہے، ادھر کچھ مدارس اسلامیہ نے بھی یہ مصلحت سامنے رکھتے ہوئے اپنے قدیم طلباء کے لیے کلاسز شروع کر رکھی ہے کہ تعلیم نہ ہونے سے اس طرح ہی تعلیم جاری رکھنا بہتر ہے، وہ الگ بات ہے کہ یہ طریقہ تعلیم کتنا کامیاب ہے اور کتنا ناکام،
یہ بھی حقیقت ہے کہ دینی تعلیم میں بھی عصری تعلیم کی طرح پانچ طبقات ہے
(١)ابتداء سے لیکر ناظرہ قراٰن کریم پڑھنے والے طلباء و طالبات جس میں اکثر مکتبوں کے بچیں شامل ہیں
(٢) درجہ حفظ و قرات کے طلباء
(٣)فارسی سے عربی چہارم تک کے طلباء (ثانویہ)
(٤)عربی پنجم سے دورہ حدیث تک کے طلباء(علیاء)
(٥) تکمیلات کے جملہ شعبہ جات میں شریک طلباء
آخر کی قسم کے سلسلہ تعلیم کو تو اگر موقوف بھی کردیا جائے تو کوئی اتنا سخت حرج نہیں ، باقی تمام اقسام کے طلباء و طالبات کا سخت تعلیمی نقصان ہوا ہے، اور ہو رہا ہے، کیونکہ سب مدارس اسلامیہ نے تو اٰن لائن نظام قائم نہیں کیا، اور جنہوں نے کیا بھی ہے تو تمام طلباء کو اسباب اٰن لائن تعلیم مہیا نہیں ہے، ایسی صورت میں طلباء میں سخت بیچینی کا عالم بھی ہے،اور دینی تعلیم سے بہت طلباء میں ذہنی اعتبار سے دوری بھی پیدا ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ حکومت کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈاون کے باعث 40% فیصدی طلباء عصری تعلیم چھوڑ دیں گے، جب کہ دینی تعلیم سے تو ویسے ہی مسلمانوں میں اتنی بے التفاتی ہے اور اوپر سے لاک ڈاون کی مار، تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مدارس اسلامیہ کے تقریباً 60% فیصدی طلباء دینی تعلیم کو چھوڑ کر دیگر مصروفیات میں لگ جائیں گے، اس لیے حضرت صدر محترم مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی صدر کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند ، و دیگر اکابرین ملت اسلامیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ آٓپ صرف اسی بات پر تکیہ لگائے نہ بیٹھیں رہیں کہ حکومت کوئی گائڈ لائن جاری کرے گی، اور جب ہی تعلیم کا سلسلہ جاری ہو سکے گا، کیونکہ حکومت تو چاہتی ہی نہیں ہے کہ یہ مدارس اسلامیہ چلیں،اور انمیں قال اللہ وقال الرسول کے پھر سے نغمیں گونجیں، اس لیے اٰپ حضرات ایک ہنگامی میٹنگ اٰن لائن منعقد کرکے تمام مدارس اسلامیہ کے لیے طلباء کی تعلیم و ترقی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی گائڈ لائن جاری کریں، اور حکومت سے بھی مطالبہ برابر جاری رکھیں کہ کسی طرح مدارس اسلامیہ میں پھر وہی پہلے جیسا نظام تعلیم وجود میں اٰجائیں؟
ورنہ جہاں طلباء میں دینی تعلیم سے دوری ہے، وہیں اساتذہ کرام کے سامنے معاش کا مسئلہ بھی ہے چند انگلیوں پر گننے کے لائق ہی ایسے مدارس ہیں جو اپنے اساتذہ کو تنخواہ ہر ماہ دے رہیں، ورنہ باقی تمام مدارس اسلامیہ نے اپنے اساتذہ کی تنخواہ کو یا تو بالکل ہی بند کردیا ہے لاک ڈاون کے لگتے ہی یا ایک دو ماہ دیکر اب بالکل بند کردی ہے، اب وہ بیچارے بے یارو مددگار اساتذہ کہاں جاکر مریں، کس کے سامنے دست سوال دراز کریں، علماء کی ایسی شان ہیں کہ وہ اپنے لیے تو کسی سے مانگ بھی نہیں سکتے، یہ تو صرف مدارس اسلامیہ کے لیے مانگ لیتے تھے، مگر اٰج مدارس اسلامیہ نے ہی ان سے رو گردانی کرلی ہے، اور مدارس اسلامیہ ہی کہاں سے تنخواہ دے جب اٰمدنی ہی نہیں ہے، بڑے مدارس میں تو یہ سلسلہ چہ جائے کہ جاری ہے مگر چھوٹے مدارس کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہے، اس لیے اٰپ حضرات اللہ کے واسطے طلباء کی تعلیم کی بقاء کے لیے اور اساتذہ کرام کے گھروں میں دو وقت کی روٹی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اٰپ یکجا ہوکر یا اٰن لائن سسٹم کے ذریعہ کوئی لائحہ عمل طے فرماکر ان خادمان و حاملان قراٰن و سنت پر نظر عنایت فرمائیں، اور ان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچالیں
یک از خاکپائے علماء:- محمد دلشاد قاسمی
صحافیI.N.A news شاملی/باغپت