اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جلتا معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 19 November 2016

جلتا معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں

از قلم: سلیم صدیقی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اس بات میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام جو دین فطرت ہے اس نے نہ صرف یہ کہ انسانی روحوں کو غلط عقائد سے پاک کیا بلکہ ہر اس چیز سے روکا جو صالح معاشرہ کی بگاڑ کا سبب ہو ـ اور عوام میں بے چینی اور بے سکونی کا ذریعہ ہوـ مگر افسوس .......... آج ہمارا پورا معاشرہ برائیوں کی آماجگاہ بنتا جارہا ہےـ سارا سماج ظلم و ستم ـ فحاشی و عیاشی ـ رشوت خوری و نا انصافی کی لعنت کا ننگا ناچ دیکھ رہا ہے ـ سوسائٹی کی دوسری برائیوں کی طرح اک برائی اور ہے جو وائرس کی طرح پورے وجود انسانی پر زہریلا اثر ڈال رہی ہے ـ جس نے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لے لیں ـ لاکھوں دوشیزاؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیئے ـ ہزاروں والدین کی آنکھوں کی راحتوں کو آگ و خون کے حوالے کردیاـ جس نے سماج کی اخوت و محبت، ہمدردی و رواداری، دل جوئی و دلداری اور بھائی چارگی کے پاکیزہ مفہوم کو گندہ کردیاـ مگر...... عوام آج تک اس برائی کے سد باب کیلیے میدان عمل میں نہیں نکلے ـ اب تک صرف زبانی جمع خرچ ہوتی رہی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوا ـ اس بیماری میں عوام و خواص، دیندار اور دنیادار سب ہی کسی نہ کسی صورت میں ملوث ہیں ـ بولتے سب ہیں مگر اس کو دور کرنے کیلیے کوئی آگے آنے کو تیار نہیں ـ اس برائی اور مرضِ لا علاج کا نام ـ "جہــــــــــیز" ہے جسے ہم اور آپ کوئی برائی ہی نہیں سمجھتے ـ اگر سمجھتے بھی ہیں تو غیر متعدی ـ اس بیماری کے مہلک اثرات پر بنظر غائر نظر سے ڈالنے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن و سنت اور آثار و فقہ میں اس کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں ـ قرآن کے متون و تفاسیر میں صرف مہر کا ثبوت ملتا ہے ـ جب احادیث کا مطالعہ کیا گیا تو وہاں بھی مہر کا ذکر ملا جہیز کا ذکر کہیں نہ ملاـ فقہ میں اس کو ڈھونڈا گیا تو یہ حقیقت واضح ہوئی کہ کسی فقیہ نے جہیز کے جواز کے بارے میں نہیں لکھا چناں چہ...... اس سلسلہ میں فقہ حنفی کے مشہور و معروف عالم علامہ ابن عابدین شامی رح نے طرفین سے لین دین کے بارے میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں "جعلت المال علي نفسها عوضا عن النكاح و في النكاح العوض لا يكون علي المرأة" شامی جلد نمبر ۸ صفحہ نمبر ۵۰۸ یعنی عورت اپنے نکاح کے عوض جو مال دے وہ باطل ہےـ کیوں کہ عوض مرد پر ہے نہ کہ عورت پر ـ یعنی مرد پر مہر تو واجب ہے مگر عورت پر جہیز نہیں ہےــ قرآن ،سنت، آثار اور فقہ کا خلاصہ یہی ہے کہ جہیز غیر شرعی عمل نہے ـ اسلام میں جہیز کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی شریعت میں اس کا کوئی حصہ ہے ـ اور تواریخ عالم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت بھی آشکارا ہوجاتی ہے کہ عرب میں جہیز کا رواج کبھی رہا نہیں بلکہ جہیز تو ایک ہندوانہ رسم ہے ـ جسے ہندوستانی مسلمانوں نے گلے لگا لیا ہے ـ اس رسم قاتل کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ ہندو تہذیب و تمدن ـ مگر ہندو مذہب کے "ویشیہ" فرقے سے اس کو زیادہ فروغ ملا ـ پھر یہ زہر رفتہ رفتہ مسلم سماج میں پھیلتا گیا اور آج یہ حال ہے کہ کوئی گھر اس کی لعنت سے محفوظ نہیں ہے ـ اور بعض نیم عالم مقرر اپنی تقریروں میں بڑے زور و شور سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو جہیز دیا تھا ـ جو کہ آپ ص پر سراسر بہتان ہے ـ اور آپ کی شان اقدس کی مخالف بات ہےـ ان نیم عالم مقرروں سے یہی گزارش ہے کہ خدارا اپنے آپ کو"من کذب علیَّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار " کی وعید سے بچائیے ـ کہیں ایسا نہ ہو آپ کو یہ تجاھل عارفانہ جہنم کے گڑھے تک پہونچادے اور آپ بے خبر جہیز کی ترویج کرتے رہیں ـ اگــــــر مقررین کی یہ بات درست مان لیں کہ آپ ص نے حضرت فاطمہ کو جہیز دیا ہے تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام آئے گا کہ آپ نے حضرت فاطمہ رض کو جہیز دیا اور اپنی دوسری تین شہزادیوں کو جہیز سے محروم کردیا لہذا مقررین کو چاہیے کہ اپنی تقریروں میں حضرت فاطمہ کی شادی کے ذکر کے ساتھ حضرت زینب رض حضرت ام کلثوم رض اور حضرت روقیہ رضی اللہ عنہا کی شادیوں کا بھی تذکرہ کریں .... ™غـــــلــط فــــہمی کا ازالہ™ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو جو سامان دیے تھے وہ حضرت علی رض کے پیسوں کے تھے ـ صاحب کنزالعمال نے اس سلسلہ میں حدیث نقل کی ہے ـ اس کا مختصر طور پرترجمہ و تفصیل زیر قرطاس ہےـ جس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہ جہیز تھی یا کچھ اور؟ ؟ اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ میں فاطمہ رض کے بارے میں اپنا پیغام نکاح لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوا تو آپ نے اس کو قبول فرمالیا اور مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس مہر کیلیے کوئی چیز ہے؟ تو میں نے جواباً عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس جہیز کیلیے کچھ نہیں ہےـ تو آپ نے پھر پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی سامان ہے؟ تو میں نے جواب دیا جی ہاں اک زرہ اور گھوڑا ہے تو آپ ص نے فرمایا گھوڑا جنگ میں کام آنے کی چیز ہے اسلیے اس کو جنگ کیلیے محفوظ رکھو ! اور زرہ بیچ آؤ ـ تو میں نے بولی لگائی تو حضرت عثمان نے ۴۸۰ درہم میں اس کو خرید لیا پھر انہوں نے زرہ مع قیمت واپس کردی ـ چناں چہ ...! میں وہ رقم حضور ص کے پاس آیا تو آپ نے اس میں سے ایک مٹھی درہم نکال کر حضرت بلال رض کو دیا کہ جاؤ اس سے فاطمہ کی زیب و زینت کیلیے سامان وغیرہ خرید لاؤ ـ اور مابقیہ پیسے حضرت انس کی والدہ ماجدہ حضرت ام سلمی رض کو دیا کہ اس سے فاطمہ کے گھر کے سامان خرید لاؤ ـ چنانچہ انہوں نے ان پیسوں سے خانہ داری کا انتظام کیا ــ حضرت فاطمہ اپنے ساتھ جو سامان لائی تھیں ـ اس میں ایک مینڈھے کی کھال تھی جو بستر کا کام دیتی تھی اور ایک چھوٹی سی چادر تھی اس سے اگر سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتا اور پاؤں ڈھانپتے تو سر برہنہ ہوجاتا ، اس میں کبھی اضافہ نہ ہوسکاــ ماں باپ اپنی ہی اولاد کو جہیز کے خوف سے شکم مادر میں ہی مارڈالنے پر مجبور ہیں ـ ان معصوموں کی کیا غلطی ہے کہ دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے ہی اس کی آنکھیں بند کردی جاتی ہیں ـ اس کا سوال قاتل ماں باپ کے ساتھ ہم تمام سے ہوگا ـ بہت ساری غریب لڑکیاں بن بیاہی زندگی گزارنے مجبور ہوتی ہیں جب حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہیں تو پھر وہ عفت و عصمت بیچنے کیلیے گھروں سے نکل جاتی ہیں ـ پھر دنیا اسے طوائف کہ کر گناہوں کی سمندر میں ڈوبنے کیلیے چھوڑ دیتی ہےـ لوگ انہیں طوائف کا طعنہ دے کر معاشرہ سے باہر کردیتے ہیں ـ مگر کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ وہ طوائف بنی تو کیوں ؟ اپنا جسم بیچا تو کیوں؟ اس کے بارے میں لوگ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتےـ چند سال قبل پڑوسی ملک کے اک ٹی وی اینکر نے اس بات کا خلاصہ کیا تھا کہ ہمارے ملک میں طوائف خاندانی نہیں ہوتیں بالکہ جہیز کی لعنت ، والدین کی بیچارگی اور سسرال والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہی طوائف بنتی ہیں اور اپنے قیمتی زیور (عزت) کو سرعام بیچنے کیلیے سڑکوں پر اترجاتی ہیں ـ جہاں جہیز کی کثرت سے قتل جنین اور جسم فروشی کی بیماری پیدا ہوتی ہے وہیں کثرت جہیز کے سبب طلاق کی کثرت بھی ہوتی ہے ـ اور پھر صرف دو زندگیاں نہیں پورے دوخاندانوں کا چین و سکون ہمیشہ کیلیے ختم ہوجاتا ہے ـ مثل مشہور ہے اگر چھوٹی پھنسی کا بر وقت علاج نہ ہو اور اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے تو وہی چھوٹی سی پھنسی کبھی کینسر کی شکل اختیار کرکے جان لیوا ثابت ہوتی ہے ـ اسی طرح اگر جہیز کو معمولی برائی سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے تو ایک دن معاشرے کیلیے یہی زخم ناسور بن جائے گی اور بنتی بھی جارہی ہے ـ اور یہ بھی حقیقت ہے اگر اک بیماری کا علاج نہ ہوتو اسی ایک سے سینکڑوں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ـ جہیز کی وجہ سے بہت سی برائیوں کے ساتھ جنس پرستی کی وبا بھی تیزی سے پھیل رہی ہے ـ اور جہیز کا سد باب نہ کیا گیا تو ملک میں امریکی لعنت ہم جنس پرستی کی سرکاری چھوٹ ہوجائےگی ـ کیوں کہ لوگ جہیز کے ڈر سے بیٹیوں کو پیدا ہونے نہیں دیتے اور پھر نتیجۃً عورت کا تناسب مرد سے کم ہوتا جارہا ہےـ دوہزار سات کی رپورٹ کے مطابق ۱۰۰۰ ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں ۹۰۰ نو سو لڑکیاں ہیں ـ اب آپ خود غور کیجیے صرف نو سو مردوں کی شادی ہوپائے گی اور سومرد یوں ہی کنوارے رہیں گےـ تو ہم جنس پرستی کی برائی کا پیدا ہونا فطری بات ہے.... اس لیے ہم میں سے ہر شخص کو جہیز کی روک تھام کرنے کیلیے میدان عمل میں آنا ہوگا