اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…
Monday, 5 December 2016
گم ہے وہ نگیں جس پر کھدے نام ہمارا !
ازقلم: سلیم صدیقی پورنوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
6/ دسمبر کا دن صرف ملت اسلامیہ ہند کے ماتھے پر تاریخ کا سیاہ دھبہ نہیں ہے بلکہ ہر سیکولر غیر متعصب ہندوستانی کے سر پر بدترین داغ ہے جس کا ازالہ 24 سالوں کی لمبی مدت کے بعد بھی نہ ہو سکا ـ
اور یہ ایک دو دن سے نہیں مسلسل ²⁴ سالوں سے ہندوستانی جمہوریت کو ناگن کی طرح ڈس رہا ہے،
اتنا ہی نہیں ہر حقیقت پسند تاریخی شد بد رکھنے والا انسان اس ڈرامے کو سمجھنے میں ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچاتا کہ رام مندر کا قضیہ انگریزوں کی مذموم پالیسی "لڑاؤ اور حکومت کرو" کا شاخسانہ ہے ـ
چنانچہ !
تاریخی اعتبار سے بابری مسجد کے قضیے کو دیکھیں تو رام جنم بھومی کا دعوی کھوکھلا نظر آتا ہے، کیوں کہ بابری مسجد کی تعمیر 1527 کو ہوئی اور تعمیر کرنے والے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے ایک وزیر میر باقر اصفہانی تھےـ
اور بابری مسجد کی تعمیر کے 328 سال کے ایک لمبے عرصے کے بعد 1855 میں انگریزی سرکاری کی نگرانی میں اس فتنے کو ہوا دی گئی کہ بابر نے رام جنم بھومی کو توڑ کر مسجد بنائی ـ
اب ذرا دماغ پر زور دے کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت بالکل مترشح ہوجائے گی کہ جب تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا اثر و رسوخ نہیں ہوا تھا تب تک کسی ہندو بھائی نے مسجد کی جگہ رام جنم بھومی ہونے کی بات نہیں کہی ـ
اب یہ سوال اٹھتا ہے:
³²⁸سال تک کسی ہندو نے مسجد کی جگہ مندر ہونے کا دعوی کیوں نہیں کیا؟؟
اور اس سے پہلے کسی تاریخ دان نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ بابر نے مندر توڑ کر مسجد بنائی؟ ؟
دال میں کچھ کالا تو ہے!
مندر توڑ مسجد بنانے کی بات سب سے پہلے انگریزی دور حکومت میں ہالیند سے تعلق رکھنے والے ایک متعصب مؤرخ ہنس بیکر نے کہی ـ
اب یہاں بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہندوستان میں تاریخ دان نہیں تھے جو ہالینڈ کے مؤرخ کو یہ تاریخ بیان کرنے کی ضرورت پڑی؟
حقائق پر گہری نظر ڈالنے سے تاریخ کے چہرے پر پڑے یہ گرد و غبار بھی ختم ہوجاتا ہے کہ رام جنم بھومی کی جگہ مسجد بنائی ہی نہیں گئی ـ
انگریزی مؤرخ اور متعصب و متشدد ہندوؤں کا یہ بھی دعوی ہے کہ مسجد بنانے والا بابر ہے، جوکہ سرے سے ہی باطل ہے ـ کیوں کہ تاریخ جاننے والے حضرات جانتے ہیں کہ بابر نے چار بار ہندوستان پر حملہ کیا جس میں سے تین بار لاہور تک ہی رہے اور چوتھی بار ¹⁵²⁵ میں پانی پت تک آئے اور فتح کے بعد ¹⁵²⁶ کو آگرہ چلے گئے اور پھر ادھر آنے کا اتفاق ہی نہیں ہواـ
مگر اسلام دشمن ہندؤوں کی آنکھوں پر انگریزوں نے جو پٹی باندھی تھی اس نے یہ جاننے کا موقع ہی نہیں دیا کہ بابری مسجد کی تعمیر بابر نے نہیں بلکہ ان کے وزیر میر باقی اصفہانی نے کرائی ہےـ
اور کئی ہندو مؤرخ اس حقیقت کے معترف بھی ہیں کہ بابری مسجد سے پہلے اجودھیا میں رام جنم بھومی کا کوئی شوشہ نہیں چھوڑا گیا تھا ـ
چناں چہ!
پروفیسر شری رام شرما اپنی مشہور تصنیف "مغل امپائر آف انڈیا" کے ¹⁹³⁵ کے ایڈیشن صفحہ ⁵⁵ پر لکھتے ہیں
"ہم کو کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی کہ بابر نے کسی مندر کو منہدم کیا اور کسی ہندو کی ایذا رسانی محض اس لیے کی کہ وہ ہندو ہے"
اسی طرح ایک اور ہندو مؤرخ آر کے داس گپتنا نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ "رام جنم بھومی میں کسی مندر کے وجود کا آثار قدیمہ کی ریکارڈز سے کوئی ثبوت نہیں ملتاـ
اسی طرح ایک اور ہندو مؤرخ رام پرشاد گھوسلہ جو کہ پٹنہ یونیورسٹی کے تاریخ کے استاد رہ چکے ہیں نے اپنی کتاب "مغل کنگ شب اینڈ نو بیلٹی" میں صفحہ نمبر ²⁰⁷پر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ بابر پر الزام سراسر غلط ہے ـ
چنانچہ! انہوں نے لکھا ہے" بابر کے تذکرے میں ہندوؤں کے کسی مندر کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی یہ ثبوت ملتا ہے کہ بابر نے ہندؤوں کا قتل عام ان کے مذہب کی وجہ سے کرایا وہ نمایاں طور پر مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے بری تھے"
اور تو اور!
سابق ہندوستانی صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد بابر کی مرنجا مرنجی طبیعت کے بارے میں یوں بیاں کرتے ہیں، کہ بابر نے اپنے بیٹے ہمایون کو نصیحت کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے تھےـ
فرزندو! ہندوستان کی سلطنت مختلف مذاہب سے بھری ہوئی ہے ، خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں بادشاہت عطا کی، تم پر لازم ہے کہ اپنے لوحِ دل سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹا دو، ہر مذہب کے طریقے کے مطابق انصاف کرو، تم خاص کر گائے کی قربانی چھوڑ دو، اس سے تمام ہندوستانی کے دلوں کو تسخیر کر سکوگے، پھر اس ملک کی رعایا بادشاہی احسانات کے تحت دبی رہے گی، جو قوم حکومت کے قوانین کی رعایت کرے اس کی عبادت گاہوں اور مندروں کو منہدم نہ کرو،عدل و انصاف اس طرح کرو کہ رعایا بادشاہ سے اور بادشاہ رعایا سے خوش رہے، اسلام کی ترویج ظلم کی تلوار سے زیادہ احسانات کی تلوار سے ہو سکتی ہے،شیعوں اور سنیوں کے اختلاف کو نظر انداز کرتے رہو ورنہ اسلام میں اس سے کمزوری پیدا ہوگی
(India divided page39)
ان سب کے علاوہ بھی بابری مسجد کے اندر چند کتبات نصب تھے جو حقیقت کا منہ بولتا ثبوت تھے ـ جسے ہندو متعصبوں نے تاریخ کو جھٹلانے کیلیے ان کتبات کو سرے سے ہی اکھاڑ کر مٹادیا ـ
مگر ان عقل کے اندھوں کو یہ نہیں معلوم کہ
"حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے"
ان تمام حقائق و شواہد کے باوجود 1949 کی درمیانی شب میں ہنومان گڑھی کے مہنت ابھے رام نے اپنے چیلوں کے ساتھ مسجد میں مورتیاں رکھ دیں، جس کے خلاف ایک ہندو کانسٹبل نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی ،جس کے نتیجے میں سٹی مجسٹریٹ اندریش کمار نے مسجد اور مسجد سے متصل قبرستان کو قرق کرلیاـ اور پھر 1961میں مسجد میں تالا لگوادیا، جس کے خلاف سنی وقف بورڈ نے حق ملکیت کا دعوی کیا اور عدالت میں اس کے متعلق مقدمہ دائر کیا مگر فیصلہ ندارد رہاـ
اور 1984 کو وی ایچ پی نے معاملہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسی سال اکتوبر سے لے کر 1986 تک اترپردیش میں لال کرشن ایدوانی کی سرپرستی میں رتھ یاترائیں نکالی گئیں اور اڈوانی اور اشوک سنگھل کی جوشیلی زہریلی تقریر سے پورے ہندوستان کے سیدھے سادھے ہندو عوام کے دلوں میں نفرت کی آگ بھرکائی جس کا اثر یہ ہوا کہ میرٹھ میں 1989میں روح فرسا واقعہ رو نما ہوا ـ
اور پھر لمبی پلاننگ کے بعد 6/دسمبر کو ملک کی پرشکوہ عمارت خدا وندی ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوگئی اور ہندوستانی مسلمان و سیکولر عوام کی گردنوں پر بھاری ذمہ داری ڈال گئی کہ مسلمانان ہند و سیکولر بھائیوں کو ہرحال میں متحد ہونا پڑے گا
اگر متحد نہیں ہوگے تو میری طرح دوسری مساجد و دیگر عبادت گاہوں کو بھی زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھنے کیلیے تیار رہو،
بہر صورت بابری مسجد کا پورا قضیہ یہ بتا رہا ہے کہ ایک آبادی کو ویرانی میں بدلنے کیلیے شرپسندوں نے کیا کیا جتن نہیں کیے مگر حقیقت کو مکمل طور پر جھٹلایا نہیں جاسکا اور نہ ہی جا سکتا ہے.