ازقلم: محمد سلمان دھلوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی و ثلث و ربٰع °الآیة
ترجمہ: عورتوں میں سے جو تم کو اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرو دو دو، تین تین، چار چار.
آج مسلم معاشرہ اس قدر جہیز جیسی ناسور بیماری سے متأثر ہوگیا ہےکہ جہاں مسلم معاشرہ میں بے شمار برائیاں وفحاشیاں اورناسور پیدا ہوئے ہیں ان ہی میں سے ایک بہت بڑی وباء مسلم سماج میں شادی بیاہ کے وقت میں جہیز کے مطالبات نے پروان پایا ہے یہ رسم و رواج مسلم معاشرے میں اس قدر نفود پاچکے ہیں کہ شادی بیاہ میں اتنے شدت پسندی اور ناموری کہ بے شمار مسلمان سود، بیاج جیسے امراض میں مبتلاء ہوگئے ہیں اور فضول واصراف اس قدر کے جو کام نہ کرنے کے ہوتے ہیں وہ سب کئے جاتے ہیں، برایں بناء شادی بیاہ آج بوجھ سا بن کر رہ گیا ہے اور کتنی ہی بچیاں ایسی ہیں جنہوں نے اس رسم و رواج کی زد میں آکر اپنی زندگی کو داغ داغدار بنادیا ہے اور یوں ہی بیٹھی ہیں، جبکہ اسلام نے شادی بیاہ کو محض ایک خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کو ایک عظیم ترین عبادت کا بھی درجہ دیا ہے، لیکن کف دست اس کو ہم نے محض جسمانی تعلقات اور اپنی خواہشات پورا کرنے کا آلہ سمجھ لیا ہے جس کا ثمرہ یہ ہوا کہ شادی بیاہ میں نہ جانے کتنے ہی لوگ مقروض ہوجاتے ہیں جن کی ادائگی بھی بہت سارے بعد میں نہیں کر پاتے چار و ناچار مجبورا کوئی ایسا کام کرجاتے ہیں جن سے ان کو معاشرے میں جو ایک عزت وقار ملا تھا سب خاکستر ہوکر رہ جاتا ہے.
اب تو مرد جہیز کے بدلے بکنے لگیں ہیں جب کہ آقا نامدار سرور کونین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی شادی کی لیکن کوئی جہیز نہیں لیا بس آپ نے ولیمہ کیا اسی طرح اپنی چار دختران کی شادی کی اور آپ نے ولیمہ کیا اگر آپ علیہ السلام چاہتے تو اپنی دختر نیک اختروں کو دنیا کی بڑی سے بڑی شیئ جہیز میں دے سکتے تھے لیکن پھر آپ علیہ السلام نے کچھ نہ دیا سوائے اس کے کہ ایک تکیہ چھال بھری ہوئی.
لیکن کیوں نہیں دیا کبھی ہم نے اور آپ نے سوچا؟
محض اسی وجہ سے کہ کہیں میری امت اس کو اتنا عروج نہ دیدے کہ غریب گھر کی بیٹیاں بیٹھی رہیں اور یہ دھوم دھام سے شادی بیاہ رچائیں اور بغل کے گھر میں بیٹھی غریب نوجوان لڑکی یہ سوچ رہی ہو کہ آخر ہم سے کونسا گناہ ہواتھا جس کی سزا دی جارہی ہے کہ میں اپنی شادی کی عمر کو چھوڑ کر عمر دراز ہوگئ ہوں اور اس خوشی کا موقع میسر نہ ہوسکا اور بغل کی گھر میں کتنی شان وشوکت سے بیٹی رخصت کی جارہی ہے اگر اس غریب کی دل سے آہ نکل گئی تو آپ کی یہ شادی شادی نہیں بلکہ خانہ بربادی ہوجائے گی اسی لیے اسلام نے یہ درس دیا ہے کہ اگر اپنے گھروں میں کھانا بناو تو تھوڑا سا یہ سوچ کر بڑھالیا کرو کہ پتا نہیں آپ کے اپنے پڑوسی کے گھر میں نجانے کتنے دن سے چارغ ہی نہ چلا ہو تو جو مذہب اپنے پڑوسیوں کی اتنی باز پرس رکھنے کا حکم دیتا ہو وہ اس بات کو کیسے پس پشت ڈال دےگا کہ تم اپنی بیٹیوں کی شادی بیاہ رچاو اور پڑوس کے گھر میں بیٹھی جوان لڑکی اپنے ماں باپ سے سوال کرے کہ یہ خوشی کا موقع مجھے کب میسر ہوگا اور ان غریب ماں باپ کے آنکھوں میں آنسوں آجائیں تو سوچو کیا ہوگا ایسی شادی کا سوائے اس کے کہ وہ شادی بربادی بن جائے
اب ایسی صورت حال میں شادی بیاہ میں خیرو برکت ہو تو کیسے ہو ایک غریب کا خون جلا کر ہم خوش رہنا چاہتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے
اب تو شادی بیاہ میں تمام سنتوں کی پامالی اس طرح کی جاتی ہے جیسے کہ دین اپنے گھر کا ہو کھانوں میں طرح طرح کے رسم ورواج جو غیر قوموں کے تھے وہ ہم نے اپنا لئے اور ایسی شادیاں کرکے ہم خوش فہمی کے شکار ہوجاتے ہیں اور اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام قربانیوں کو جو آپ علیہ السلام نے اپنی اس امت کے لیے دی تھی سب بھلا دیتے ہیں اور مغرب کی تہذیب کو اپناتے ہوئے فخر کرتے ہیں کھڑے ہو کر کھانا کھلانا محرم و غیر محرم کا اختلاط میل جول شادی بیاہ میں ناچ گانا ڈھول باجا یہ سب تو عام ہوگیا ہے گھر کی جوان لڑکیاں شادیوں میں ناچتی گاتی ہیں نہ جانے اس وقت کتنے ہی غیر محرم موجود ہوتے ہیں وہاں پر لیکن ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے ہیں مسلم قوم کی حالت اب اتنی ناسازگار ہوگئی ہے کہ اگر کوئی چاہے سنت کے مطابق شادی کرنا تو اس کو معاشرہ میں معیوب اور حقیر نگاہ سے سمجھا جاتا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یا تو اس کے پاس مال و زر نہیں یا یہ کنجوس ہے جو اپنا ذخیرہ جمع کر رہا ہے معلوم نہیں کہاں لےجاےگا ایک بیٹی یا بیٹا تھا اس کی شادی میں بھی اتنا بخل کیا کہ کچھ نہ لین نہ دین بس شادی کو سادگی سے کردیا پتا ہی نہیں چلا کہ کہیں ہمارے علاقہ میں شادی تھی یہ تصور یقینا گمراہی و ضلالت کی جانب راہ کو ہموار کرتا ہے ہم سب کو اس سے اجتناب کرنا لازمی طور پر ضروری ہے.
آج ہم ان تہذیب کو اپنا رہے ہیں جو یقینا غلط اور ناسور پیدا کررہی ہیں اور دنیا کے اندر اس شادی بیاہ کے طریقہ کو جو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ایک آسان طریقہ پر کرنا سکھا گئے اس کو ہم نے دشوار بنادیا ہے کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے.
لوگ ان کے پیچھے چلنا چاہتے ہیں جو چاند پہ جاتے ہیں
کامیابی تو ان کے پیچھے چلنے میں ہے جنہوں نے چاند کے ٹکڑے کردیئے
ہم کو ان کی تہذیبوں کو ترک کرکے کامیابی اور آسانی والے راستے کو اپنانا چاہیئے.
اس لیے ہم خود بھی اس بری بلاء سے بچیں اور جہاں اپنی بچی کو دے رہے ہیں یا جس کی بیٹی کولے رہے ہیں ان کو بھی ترک کرنے کے لیے کہنا چاہیے اور مسلم معاشرے سے اس کو بالکلیہ طور پر جڑ سے ختم کرنے کی شدید ضرورت ہے اللہ ہم سب کو سب کو سنت نبوی کے مطابق شادی بیاہ کرنے کی توفیق دے. آمیــــــن