ازقلم: علی اشہد اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیف اللہ ایک پڑھا لکھا بےروزگار لڑکا تھا باپ نے مارپیٹ کی تو گھر سے ناراض ہو کر بھاگ گیا اور پیسے کمانے کے لئے سعودی عرب جانے کی تیاری کرنے لگا سیاسی شہ پر دہشت گردی بھڑکانے والے گروہ کے چکر میں پڑ گیا شیلیندر سنگھ اور راکی راناوت نے ہتھیاروں کا بیگ دے کر روانہ کر دیا جس میں آئی ایس آئی کا جھنڈا بھی تھا اور اپنے سیاسی آقاؤں کو خبر کردی مدھیہ پردیش میں کال سینٹر کھول کر رکھنے والے 11 آئی ایس آئی دھریندر یہی کام کرتے تھے بہرحال سیاسی آقا ایسا ماحول تیار کرنے کی فراق میں تھے جس سے یوپی انتخابات کے آخری مرحلے میں ان کے فائدے کا کوئی واقعہ پیش آجائے ان کی نظر جئے پور کورٹ سے اجمیر بلاسٹ پر آنے والے فیصلے پر بھی تھی میڈیا میں اس کا ذکر ہو اور ان کی نیت پر سوال اٹھے اس سے پہلے ہی سیف اللہ کو 12 گھنٹے تک گھیرے رکھا اور آخر میں طہ شدہ پلان کے مطابق مار دیا گیا 3 دہشت گردوں کو اجمیر بلاسٹ میں سزا ہوئی اس کا کوئی ذکر نہیں سیف اللہ ایسا تھا سیف اللہ ویسا تھا کو لیکر بد ذہنیت والے جرم کہانی قلم کاروں نے اینکروں کے منھ میں الفاظ ٹھونس دیئے اے ڈی جی دلجیت چودھری کہتے رہے آئی ایس سے رشتوں کا کوئی ثبوت نہیں مگر جو ثابت کرنا تھا کر دیا گیا باپ نے لوک لاج کی ڈر کی وجہ سے لاش لینے سے انکار کر دیا لیکن اس کی پہچان ایک دہشت گرد کے باپ کی بنا دی گئی اور اس طرح ایک مرتبہ پھر سیاسی بازیگری جیت گئی اور سچ سامنے آنے سے پہلے ہی ہار گیا.