اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مثبت سوچ یا خاموشی؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 17 March 2017

مثبت سوچ یا خاموشی؟


تحریر: مولانا ندیم الواجدی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے ملک کے سب سے بڑے اور سیاسی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل صوبے اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں، یہ نتائج کافی کچھ چونکادینے والے ہیں، کسی کو بھی بل کہ خود بی جے پی کو بھی یہ امید نہیں رہی ہوگی کہ وہ تین چوتھائی نشستیں حاصل کرکے تاریخی فتح سے ہم کنار ہوگی، بلاشبہ یہ کامیابی تمام امیدوں اور توقعات کے برخلاف حاصل ہوئی ہے، تمام سیاسی پارٹیاں مودی لہر میں خس وخاشاک کی طرح بہہ گئی ہیں، جب الیکشن کا عمل شروع ہوا تھا اس وقت ان کالموں میں کئی مرتبہ لکھا گیا کہ ہوا کا رُخ صحیح نہیں ہے، سماج وادی  پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اکھلیش نے باپ اور چچا کے خلاف بغاوت کا جو بگل بجایا ہے آنے والے انتخابات میں اسے اس بغاوت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، وہ وقت کی نبض نہ پہچان پائے، انہیں یہ خوش گمانی رہی کہ انھوں نے صوبے میں جو ترقیاتی کام کرائے ہیں وہ ان کو دوبارہ وزیر اعلا کی کرسی پر بٹھا دیں گے، کنبے میں ٹوٹ پھوٹ سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے انھوں نے کانگریس کا ہاتھ تھاما، اور اس پارٹی کے شہزادے راہل گاندھی کے ساتھ روڈ شو کرکے صوبے کے عوام بالخصوص نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہا کہ اب بوڑھوں کا زمانہ لدچکا ہے اور آنے والے دن نوجوانوں کے ہیں، انھوں نے اپنی بیوی ڈمپل یادو کو بھی تشہیری مہم میں لگایا تاکہ ان کی موجودگی سے خواتین میں سماج وادی پارٹی کے تئیں نرم گوشہ پیدا ہو، مگر یہ تمام کوششیں رائگاں ہوگئیں، کام بولتا ہے اور ہاتھ کا ساتھ جیسے دلکش نعرے ہوا میں تحلیل ہوگئے، اکھلیش نے اور ان کو بغاوت پر اُکسانے والے چچا رام گوپال یادو نے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ ان کی پارٹی کی یہ درگت بنے گی، وہ خود توڈوبے ہی ہیں کانگریس کو بھی انھوں نے گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے، یہاں تک کہ وہ امیٹھی اور رائے بریلی جیسے روایتی حلقوں میں بھی شکست فاش سے دوچار ہوگئی ہے۔
ان حالات میں ہماری سوچی سمجھی رائے یہ تھی کہ مسلمانوں کو اس بار اپنا رُخ بدلنا چاہئے اور مایاوتی کی اپیل پر کان دھرنے چاہئیں جو برابر مسلمانوں کو بہوجن سماج پارٹی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کررہی تھیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اکھلیش نے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا، مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ وہ اکھلیش کو اس کی بے عملی کی سزا دیتے، مگر ایسا نہ ہوسکا، اس الیکشن میں مسلمان جس بے سمتی کا شکار ہوئے ہیں اور جس طرح ان کے ووٹ بے اثر ہوئے ہیں اس کی کبھی امید نہیں کی جاسکتی تھی، اس کی بڑی وجہ ہمارے علماء کرام اور قائدین عظام کی وہ مختلف اپیلیں تھیں جو مسلمانوں میں کنفیوژن پیدا کررہی تھیں، مسلمان آخر تک یہ کنفیوژن دور نہیں کرپائے اور جس نے جدھر بہتر سمجھا اُدھر اپنا رخ کرلیا، ان حالات میں یہی ہونا تھا جو ہوا، لیکن اتنا طے ہے کہ کوئی بھی نام نہاد سیکولر جماعت اس مرتبہ اپنی شکست کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پر نہیں پھوڑ پائے گی، کیوں کہ جو کچھ ہوا اس میں مسلمانوں کے بہ جائے خود ان کا قصور زیادہ ہے، اس پورے دورانیے میں سماج وادی پارٹی اپنی مسلم نواز شبیہ سے پیچھا چھڑانے میں لگی رہی، یہاں تک کہ اکھلیش کے اسٹیج پر کہیں بھی کوئی داڑھی ٹوپی والا نظر نہیں آسکا، حد تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنا اسٹیج اعظم خاں سے بھی شیئر کرنے کی کوشش نہیں کی، مسلمانوں کے لیے ان کی زبان سے کوئی ایک لفظ نہیں نکلا، پارٹی کے مینو فسٹو میں بھی مسلم کے بجائے اقلیت کا لفظ استعمال کیا گیا اس کے باوجود مسلمان سماج وادی کے پیچھے لگا رہا، اکھلیش اور ڈمپل کی ریلیوں میں بھی بھیڑ مسلمانوں سے رہی اور ان کا بڑا ووٹ سماج وادی کو پڑا، دوسری طرف مایاوتی نے مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا کام دیر سے شروع کیا، مسلمانوں کا بڑا طبقہ اکھلیش کو ان داتا سمجھ کر اپنا ذہن سماج وادی پارٹی کے حق میں بنا چکا تھا اس کے باوجود ان سیٹوں پر مسلمان دو حصوں میں تقسیم نظر آئے جہاں بہوجن سماج پارٹی نے مسلم امید وار کھڑے کئے تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم ووٹ اگرچہ بھاری تعداد میں سماج وادی /کانگریس امید واروں کے حق میں گیا ہے مگر بہوجن سماج پارٹی بھی ان کے ووٹوں سے محروم نہیں رہی۔
مسلمانوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے، اگرچہ ان کا کچھ ووٹ منتشر بھی ہوا، مگر زیادہ تر ووٹ سماج وادی کے حق میں اس کی تمام تر کج ادائیوں کے باوجود گیا ہے، اس کے باوجود ان پارٹیوں کو شکست فاش ہوئی، اس کی مختلف وجوہات سامنے آرہی ہیں، سیاسی بصیرت رکھنے والوں کا کہنا یہ ہے کہ سماج وادی کے پاس دو بنک ووٹ تھے، یادو اور مسلمان، اس مرتبہ بی جے پی یادو ووٹ بنک میں نقب لگانے میں کامیاب رہی ہے، دوسری طرف بی جے پی کا یہ بھی دعوی ہے کہ اس الیکشن میں دلت بھی بڑی تعداد میں پھول کی طرف گیا ہے، جاٹ بیلٹ پر اجیت سنگھ بھی ناکام رہے، کیوں کہ جاٹ بھی بی جے پی میں چلے گئے ہیں، اس صورت حال نے بی جے پی کو تین سو چوبیس سیٹوں پر پہنچا دیا اور باقی تمام پارٹیوں کو سو سے بھی کم سیٹوں کے اندر سمیٹ کر رکھ دیا، ان حالات میں کسی پارٹی کی یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرائے، مسلمان ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سیکولرزم کا جھنڈا تھامے کھڑے رہے، لیکن یادو، دلت اور جاٹ اپنی اپنی پارٹیوں سے باغی ہوگئے، دوسری بڑی وجہ یہ رہی کہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس اگرچہ بہ ظاہر ایک ساتھ الیکشن لڑ رہی تھیں مگر زمینی سطح پر صورت حال دوسری تھی، متعدد سیٹوں پر ان دونوں پارٹیوں میں دوستانہ مقابلہ ہوا، اور بہت سی سیٹوں پر سماج وادیوں نے کانگریس کو اور کانگریسیوں نے سماج وادی کو ہرانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا، گویا دونوں پارٹیوں کے کارکنان نے اس ملاپ کو غیر فطری سمجھ کر مسترد کرنے کی کوشش کی۔
اس صورت حال سے اگرچہ مسلمان ووٹ بے اثر ہوا ہے، اور ستر برسوں میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ بادشاہ گرہونے کی ان کی حیثیت ختم ہوئی ہے، سماج وادی اور بہوجن کے چکر میں پڑ کر مسلمانوں نے اپنے ہی پچاسی امید واروں کو دوسرے نمبر پر پہنچا دیا ہے، مگر یہ صورت حال مسلمانوں سے زیادہ ان پارٹیوں کے لیے لمحہئ فکر ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کو ووٹ بنک کی طرح استعمال کرتی آئی ہیں، اور بی جے پی کا ہوا دکھا کر ان کا ووٹ لے کر اقتدار کی دہلیز تک پہنچتی رہی ہیں، اقتدار پر قابض ہونے کے بعد مسلمانوں کو ان پارٹیوں نے جس طرح نظر انداز کیا تاریخ سیاست میں اس کی نظیر نہیں ملتی، برسہابرس تک کانگریس یہی کرتی رہی، بل کہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ مسلمانوں کی لاشوں پر راج کرتی رہی، کانگریس سے مایوس ہونے کے بعد مسلمانوں نے کبھی سماج وادی کو نجات دہندہ سمجھا اور کبھی بہوجن سماج پارٹی کو اپنا مسیحا جانا، وہ باری باری ان کو اقتدار کے ذائقے چکھاتے رہے، اور بدلے میں صرف وعدے پاتے رہے، مسلمان آج بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے، اگرچہ جن طبقات کو ان پارٹیوں نے اپنے دور حکومت میں انعامات سے نوازا وہ بی جے پی کی تیز رو میں بہہ گئے، ان پارٹیوں کو سوچنا چاہئے کہ اپنے سیاسی وجود کی بقا کے لیے انہیں آگے کیا کرنا ہے، سیکولرزم کو بچانے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ہی کیوں ڈالی جائے۔
یوپی میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے مسلمانوں کا خوف اور مایوسی فطری ہے، کیوں کہ بی جے پی کی پوری سیاست کا محور مسلم دشمنی ہے، مسلمانوں کو ڈر ہے کہ بی جے پی اپنے سیاسی ایجنڈے پر عمل کرے گی، اس سلسلے میں ہمیں یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو مایوس ہونے اور ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، قوموں کی زندگی میں اس طرح کے مراحل آتے رہتے ہیں، بہادر اور سمجھ دار قوم وہی ہے جو وقت کی نزاکتوں کو سمجھے اور ان مرحلوں سے سلامتی کے ساتھ گزرنے کے طریقے تلاش کرے، اب تک ہم نے بی جے پی کو شجر ممنوعہ سمجھا ہے، مگر اب جب کہ بی جے پی اقتدار پر قابض ہوتی چلی جارہی ہے اور مرکز سے لے کر ریاستوں تک تیزی کے ساتھ اس کے اقتدار کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جارہا ہے بی جے پی کے بارے میں مسلمانوں کو اپنے نقطہئ نظر میں کچھ نہ کچھ مثبت تبدیلی لانی پڑے گی، ماضی میں جو کچھ ہوا وہ یقینا بہت برا تھا، لیکن مستقبل میں ایسا کچھ نہ ہو اس پر بھی نظر رہنی چاہئے، سوشل میڈیا پر آج کل جس طرح کے تبصرے چل رہے ہیں، اور بعض لوگ جس طرح کے منفی بیانات دے رہے ہیں وہ کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں، اب مسلمان یا تو خاموش رہیں یا پھر مثبت سوچ کا مظاہرہ کریں، بی جے پی کو کوسنا، اس پر تبرّابھیجنا یا شکست سے مایوس ہوکر سینہ کوبی کرنا مناسب نہیں ہے، مرکز میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہی صورت حال میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی، جو بعض قائدین ملت کے سخت رویّے کے باعث ممکن نہ ہوسکی، اب یوپی میں اس کے مکمل طور پر آجانے کے بعد اس تبدیلی کی کچھ زیادہ ہی ضرورت محسوس ہورہی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمان بی جے پی میں شامل ہوجائیں، اور جے شری رام کے نعرے لگائیں، بل کہ صرف اتنی درخواست ہے کہ بی جے پی کو بھی باقی پارٹیوں کے نظرئیے سے دیکھنے کی کوشش کریں، آخر ان پارٹیوں نے ہمیں دیا ہی کیا ہے ہم ان کی محبت کے جوش میں بی جے پی کی مخالفت کیوں کرتے رہیں، مدھیہ پردیش اور گجرات کے مسلمانوں کا عمل لائق تقلید نہ سہی غور وفکر کے لائق ضرور ہے کہ وہ لوگ انتخابی سیاست میں بی جے پی کو اب اچھوت خیال نہیں کرتے، حال ہی میں مہاراشٹر میں بھی مسلمانوں نے شیوسنا کو ووٹ دے کر باقی ملک کے مسلمانوں کو مثبت سوچ کی دعوت دی ہے ہمیں بھی اپنی سوچ میں اس طرح کی تبدیلی لانی ہوگی۔
تسلی کی بات یہ ہے کہ یوپی کا الیکشن جیتنے کے بعد وزیر اعظم مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کچھ بدلے بدلے سے نظر آرہے ہیں، انتخابی عمل کے دوران جن لوگوں نے قبرستان، شمشان، دیوالی اور عید کی بات کی تھی وہ ہماری سرکار سب کی سرکار کے نعرے کے ساتھ سامنے آئے ہیں، ہمیں اس تبدیلی کو خوش آمدید کہنا چاہئے، ہوسکتا ہے ہمارا یہی عمل مستقبل میں مثبت تبدیلی کا نقطہ آغاز بن جائے۔