رپورٹ: محمــد عاصـــم اعظـــــمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مالیر کوٹلہ/پنجاب(آئی این اے نیوز 10/اپریل 2017) جامعةالھدایہ جے پور، راجستھان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے دو روزہ بروز سنیچر واتوار تفہیمِ شریعت ورکشاپ منعقد ہوا، جسکی صدارت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نے فرمائی، جس میں تین سیشن ہوئے، پہلا سیشن بروز سنیچر صبح 10 بجے سے شروع ہوا جس میں ہندوستان کی آٹھ ریاستوں راجستھان، مغربی اتر پردیش، دلی، اتراکھنڈ، ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش اور جموں کشمیر کے علمائے کرام اور مفتیان عظام شریک تھے، واضح رہے کہ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے پنجاب کے پانچ مفتیان کرام مفتی محمد ثاقب قاسمی، مفتی عبد الملک قاسمی، مفتی محمد ساجد قاسمی، مفتی محمد سلیم قاسمی اور مفتی محمد شاداب قاسمی اس پروگرام میں شریک تھے، سب سے پہلے جامعة الھدایہ کے مہتمم مولانا شاہ فضل رحیم صاحب نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے ایک سروے بیان کیا کہ موجودہ دور میں یورپ و امریکہ میں زنا اور طلاق کے واقعات کی شرح 70 فی صد سے زیادہ ہے جب کہ عرب ممالک میں صرف 5 فی صد طلاق واقع ہوتی ہیں اسی طرح ہمارے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو بھائیوں کے یہاں طلاق کے واردات کثرت سے پائے جاتے ہیں، اور دوسری رپورٹ میں انہوں نے فرمایا کہ بچوں کو پیٹ میں مارنے کے واقعات دوسری قوموں میں بہت زیادہ ہیں اسکے بعد بورڈ کے سیکریٹری و کنوینر تفہیم شریعت کمیٹی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے نکاح، طلاق، وراثت، تعدد ازدواج کے متعلق بہت عمدہ محاضرہ پیش کیا اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے متعلق پھیل رہی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے عدل کی وضاحت کی کہ عدل نام ہے اس چیز کا کہ جس کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں تو اسکا حق بھی اللہ پاک نے زیادہ رکھا ہے اور جس کی ذمہ داریاں کم ہوتی ہیں اسکا حق بھی کم ہے ظاہر سی بات ہے کہ عورت کی مرد کے مقابلہ میں کم ذمہ داریاں ہیں اسی لئے وراثت کا حق انکا کم رکھا ہے اور پھر بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا سید ولی رحمانی صاحب نے اپنے خطاب میں کوٹ میں درج طلاق ثلاثہ کا موجودہ کیس کی وضاحت کی اور مزید یہ کہا کہ دفعہ 25، 26، اور 29 کے تحت ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے اور شریعت مطہرہ پر عمل کرنے کی تلقین کی اور اپنے تمام عائلی مسائل دارالقضاء میں حل کرانے کی نصیحت کی، ایک سوال کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ عام علمائے کرام کو ٹی وی پروگرام میں نہیں جانا چاہیئے وہ لوگ اس طرح کے علماء کو بلاکر اسلام کو نیچا دکھاتے ہیں ہم ایسے افراد تیار کریں جو بلاججھک اور جارحانہ انداز میں تسلسل کے ساتھ بولنا جانتے ہوں اور اپنے علم میں رسوخ کے ساتھ ساتھ آئین ہند کا بھی گہرا مطالعہ ہو ایسے لوگوں کو ٹی وی پر آکر باطل کا مقابلہ کرنا چاہیئے، بعد نماز مغرب دوسرا سیشن شروع ہوا جس میں طلاق ثلاثہ اور بابری مسجد کی پیروی کرنے والے ملک کے مشہور ومعروف وکیل ظفر یاب جیلانی صاحب نے لیکچر دیا جس میں انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ 11 مئی کو جو طلاق ثلاثہ کے متعلق فیصلہ ہوگا وہ فیصلہ انشاء اللہ ہمارے حق میں ہی ہوگا اور یہ بھی کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کو وراثت میں کم حصہ دیا ہے انہوں نے کہا کہ ہندوستانی سرکار نے کونسا عورتوں کو ہر چیز میں مردوں کے مساوی رکھا ہے.
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ مردوں کے مقابلے میں کتنی عورتوں کو آئی ایس، آئی پی ایس، پولس، یا دوسرے محکمہ میں برابر رکھا ہے تو وہ اسلام پر مساوات کے متعلق کیوں اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو مرد سے کم حقوق دیئے ہیں، پھر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اس دوسری نشست میں علمائے کرام کے ساتھ جے پور شہر کے وکلاء حضرات بھی شریک تھے کچھ حضرات نے سوال کئے انکا تسلی بخش جواب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے دیا پھر دوسرے دن بروز اتوار صبح 10 بجے تیسرا سیشن شروع ہوا اس میں بھی علمائے کرام کا خطاب ہوا اور باہم مذاکرہ بھی ہوا اور جامعة الھدایہ میں دارالقضاء کا قیام عمل میں آیا مولانا انظار احمد کو قاضی شہر منتخب کیا گیا.