اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مسلمـانوں کی حالـت زار اور اس کا سـد بـاب!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 11 April 2017

مسلمـانوں کی حالـت زار اور اس کا سـد بـاب!


ازقلم: محمد شمیـم بستوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے اور مسلمانوں کی تنزلی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کہیں پر ان کے حقوق سلب کرنے کی سازش رچی جارہی ہے، کہیں ان پر بے بنیاد الزام عائد کرکے  سالوں سال تک  جیل کے اندر ڈال دیا جاتا ہے اور کہیں ان کو  لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ کر مار دیا جاتا ہے، کہیں پر انہیں ہمیشہ کے لئے غائب کر دیا جاتا ہے، کہیں پر ان کے مکانات اور جائداد  کو نذر آتش کر دیا جاتا ہے، کہیں پر انہیں ذلیل و خوار کیا جاتا ہے،، اور ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے، ظلم و ستم کی ایک طویل فہرست ہے جو ان مسلمانوں کی حالت زار پر  ماتم کرتی ہوئی نظر آتی ہے حالانکہ یہ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں پر ہر ہندوستانی کو  اپنی زندگی اپنے مذہب اور اپنی ریت رواج سے  گزارنے کا پورا حق ہے لیکن اس  وقت  کچھ ملک دشمن عناصر  اس پرامن  فضا کو پامال کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اب ایسے حالات میں ہمارے  اکابرین کی ذمیداری بنتی ہے کہ اس ملک کی  امن و امان  کو برقرار رکھنے لئے آگے آئیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ امن کی بحالی ایک دن میں نہیں کی جا سکتی ، اور نہ ہی امن کی فضا کو ایک دن میں خراب  کیا جا سکتا ہے ، ان سب کے لیے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے، مسلمان تو وہ قوم ہے جو امن کا قائل ہے، اور اسلام مذہب بھی امن کا پیغام دیتا ہے اور تاریخ بھی اس بات کی شاھد ہیکہ   مسلمان اپنے ملک کا ہمیشہ وفادار رہا ہے، مسلمان کے خون میں غداری ہوتی ہی نہیں ہے.
پھر کیا وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی حق تلفی کی جارہی ہے ان کے ساتھ  عدم رواداری برتی جارہی ہے انہیں شک کی  نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، میں جب  اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش کرتا ہوں  تو مجھے کچھ مختلف وجوہات سمجھ میں آتی ہیں  جو مندرجہ ذیل ہیں.
 ایک وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے بڑے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں میں نے اپنے والد محترم کو دیکھا کہ وہ ہندو اور مسلمان بھائیوں سے کیسے حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمان تو والد محترم سے محبت کرتے ہی ہیں ہندو بھائی بھی بڑے ادب سے پیش آتے ہیں، میں نے اپنے والدمحترم کو ہندو بھائیوں کی خوشی غمی میں شرکت کرتے ہوئے دیکھا ہے ، ہمارے اندر وہ صفات موجود نہیں ہیں جس سے ایک انسان دوسرے انسان سے محبت کرتا ہے  سب سے پہلے ہمیں اپنے معاملات ٹھیک کرنے ہونگے اپنے اخلاق اور اپنی خصلتوں کو درست کرنے ہونگے اونچ نیچ اور ذات برادری کی دیوار کو مسمار کرنا ہوگا  ، ،اور ہمیں ایک دوسرے کے  غمی و خوشی میں شریک ہونا ہوگا  جہاں تک شریعت اجازت دیتی ہے، اور  ہمارے جس برے  عمل سے ہمارے  ہندو بھائی ہم سے دور بھاگتے  ہیں، اس برے عمل  کو ہمیں ترک کرنا ہوگا، کچھ عرصہ قبل ایک خوبصورت جملہ میں نے انقلاب نیوز پیپر میں پڑھا تھا کہ، یہودی مسلمان کا دوست نہیں، اور ہندو مسلمان کا دشمن نہیں، کچھ متشدد ہندؤں کے غلط نظریات کو ہم سب ہندؤں پر مسلط نہیں کر سکتے ہیں.
 دوسری وجہ سیاست ہے جس سے ہم ملک کی سیاست اور ملک کے آئین  سازی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اسے مضبوط کرنا ہوگا جس کے لئے ہمیں اپنے درمیان سے کسی سچے مسلم لیڈر کو اپنا نمائندہ منتخب کرکے راجیہ سبھا اور ریاستی اسمبلی میں بھیجنا ہو گا جو ہمارے حق کی لڑائی لڑ سکے  کیونکہ ابھی تک جتنے بھی مسلم لیڈر ہمارے بیچ سے گئے ہیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے رہے ہوں سبھی نے پارٹی کی زیادہ مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم کی ہے    الا ماشاءاللہ کوئی ایک حق پرست ہوگا، باقی جو حق پرست مسلمان ہیں وہ سیاست کو شیطان کا جال سمجھ کر اس سے کنارہ کشی اختیار کئے ہوئے ہیں. اب ایسے لوگوں کو آگے آکر سیاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی.
تیسری وجہ عصری تعلیم ہے جس کے حصول سے مسلمان سرکاری عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں اور امن کی فضا کو خوشگوار بنانے میں اپنا رول ادا کرسکتے ہیں، اور اپنے قوم کی خدمت کر سکتے ہیں، لیکن یہاں پر بھی مایوسی نظر آتی ہے، آج اس ملک کے دماغ یہی تعلیم یافتہ ، آئی اے ایس،  پی سی ایس ، لوگ ہی ہیں، انہیں لوگوں کے اشاروں پر ملک چلتا ہے ، اگر یہ دونوں چیزیں کسی متعصب اور ظالم کے ہاتھ لگ گئی تو انسانیت کے پرخچے اڑ جائیں گے، ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں جو خوفناک منظر ہمارے سامنے پیش کیا جائے گا.
، ہندوستان میں امن قائم رہے اس کے لیے ہمیں ایسے خوددار، جراءت  مند، بے باک، نیک سیرت، انسانیت کے غمخوار، علماء کرام کو بے شمار تعداد میں آئی ایس کی پوسٹ تک پہنچانا ہوگا، یہ ممکن کیسے ہو سکتا ہے ہر شہر میں تمام ادارے کے سربراہ سرجوڑ کر میٹنگ مشورہ کریں اس کے لئے خصوصی مراکز قائم کئے جائیں، اس پر قوم کا پیسہ خرچ کیا جائے، کیونکہ جب ملک ہی سلامت نہیں رہے گا امن کا ماحول نہیں رہے گا تو ہم ان مدارس کو لیکر کیا کریں گے....عروس البلاد ممبئی میں مدارس کا جال بچھا ہوا ہے، لیکن عصری تعلیم کا فقدان ہے حالانکہ ممبئی کے مدرسے دیگر علاقوں کے مقابل کافی خوشحال ہیں یہاں کے اکثر مدارس میں ابتدائی تعلیم کے حصول کا بندوبست ہے، اور ایک ایسا طالب علم جو ناظرہ کی ابتداء سے حفظ قرآن کی تکمیل تک ایک ہی مدرسے میں پڑھتا ہے وہ کم از کم پانچ سات سال اپنی زندگی وہاں کھپا دیتا ہے اور یہ طالب علم اسکول کا منہ نہیں دیکھتا ہے.... کیا اس طرح کا کوئی بندوبست نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ طالب علم جو ایک جگہ پر پانچ سات سال لگادے وہ حفظ قرآن کی تکمیل کے ساتھ دسویں جماعت تک اسکول بھی پڑھ لے، یہی دسویں جماعت تک کی تعلیم اس کے لئے مستقبل میں اعلی عصری تعلیم کے حصول میں مددگار ثابت ہوگی،اور کسی سرکاری محکمہ میں نوکری کا ذریعہ بنے گی، یہ بہت آسان ہے لیکن لوگ اس پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں، آسان اس لئے ہے کہ سال گزشتہ مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی میں بارہ طالب علموں کے سروں پر تکمیل حفظ قرآن کی دستار باندھی گئی، جس میں سے پانچ طالب علم ایسے تھے جو اسکول کے ساتھ حافظ ہوئے، اس نمونے کو سامنے رکھ کر   میں نے کوشش کیا کہ تمام بچے اسکول بھی جائیں اور مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کریں، لیکن افسوس کہ ہمارے ایک خیر خواہ مدرسہ کے کہنے لگے کہ دیگر ممبئی  دارالاقامہ کے بچے اسکول جاتے ہیں کیا؟ میں نے کہا کہ نہیں، تو انہوں نے کہا کہ جیسے سب چلتے ہیں ویسے ہمیں بھی چلنا چاہیے اور میرے ارمان جل کر راکھ ہو گئے لیکن میری کوشش سے تمام بچے نہ سہی پندرہ سترہ اسکول کے ساتھ آج بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، احباب وہ وقت کب آئے گا جب اس بارے میں ہم غور کریں گے.
اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے. آمیــــن