تحریر: محمد ابوذر صدیقی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آسمان ابر آلود تھا ہوا میں ہلکی خنکی کا احساس ہورہا تھا ہر چہار سمت اندھیرا اپنا قبضہ جمائے ہوا تھا میں اپنے بستر پہ لیٹے ہوئے خدا کی اس عظیم قدرت کو دیکھ رہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ وہ خدا کتنا عظیم ہوگا، جس نے اس عجیب و غریب ماحول کو پیدا کیا میں انہی سوچوں میں گم تھا تبھی بازو والے کمرے سے میری ماں کی ایک نحیف سی آواز فضا میں ابھری "بیٹا ہوا تیز ہے اور سرد بھی بارش کا بھی امکان ہے تو اندر جاکر لیٹ جا" جب یہ آواز کو میں سنا تو اس کمزور سی آواز میں محبت کی ایک قوت کو محسوس کیا کہ ماں کس قدر عظیم ہوتی ہے کہ اس بڑھاپے کے عالم میں بھی اپنوں بچوں کس قدر خیال رکھتی ہے کہ سرد ہوا موسم میں تبدیلی کہیں میرا بیٹا بیمار نہ پڑ جائے.
ماں تیری عظمت پر میری جان بھی قربان
مگر ماں کی اس احساس کو اگر اولاد سمجھنے لگے تو ہر بیٹا سلطان العارفین بنے گا اور ہر بیٹی رابعہ بصریہ بنے گی.
خدا ہم سب کو اپنے والدین کی خدمت کرنے کا جذبہ اور حوصلہ دے
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے "والدین کی رضامندی میں رب کی رضامندی ہے اور والدین کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے" ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم سے جہاں تک بن پڑے گا اپنے ماں باپ کو خوش رکھنے کی ضرور کوشش کرینگے. انشاء اللہ
ــــــــعــــــــ
ایک مُـدت سے میـری ماں نہیـں سوئی تابـش
میں نے بـس اک بار کہا تھـا مجھے ڈر لگـتـا ہے