اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: راشٹریہ علماء کونسل کو صحیح تناظر میں سمجھیں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 4 June 2017

راشٹریہ علماء کونسل کو صحیح تناظر میں سمجھیں!


تحریر: مولانا طاھر مدنی جنرل سکریٹری راشٹریہ علماء کونسل
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
راشٹریہ علماء کونسل ایک سیاسی پارٹی ھے جو پچھلے نو سال سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ھے، ستمبر 2008 میں بدنام زمانہ بٹلہ ھاؤس فرضی انکاؤنٹر کے بعد جس طرح اعظم گڈھ اور آس پاس کے علاقے میں خوف و ھراس کا ماحول تھا، اس سے سب لوگ بخوبی واقف ھیں. نوجوانوں کا گھر سے نکلنا مشکل تھا، تعلیم حاصل کرنے والے ضلع کے بچوں کو کوئی جگہ دینے کیلئے تیار نھیں تھا، اعظم گڑھ کو دھشت گردی کی نرسری قرار دے دیا گیا تھا اور خفیہ ایجنسیاں علاقے کو ٹارگٹ بنائے ھوئے تھیں. ان حالات میں کوئی آگے بڑھکر سھارا دینے والا نہ تھا، مایوسی کا عالم تھا اور ناامیدی کے بادل چھائے ھوئے تھے، ان حالات میں علماء اکٹھا ھوئے، جامعہ الرشاد میں میٹنگ ھوئی اور علماء کونسل کے قیام کا فیصلہ ھوا، جس کا کنوینر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کو بنایا گیا. اس کے بعد بڑے بڑے احتجاجی جلسے اور مظاھرے ھوئے، لوگوں کو ایک حوصلہ ملا اور مایوسی کے بادل چھٹنے لگے. اسی درمیان مولانا کے لڑکے طلحہ عامر کو ٹرین سے اے ٹی ایس نے اٹھا لیا کہ تحریک کو کمزور کیا جاسکے. لیکن اللہ کا شکر ھے مومنٹ نے اور دھار پکڑ لیا اور دھلی اور لکھنؤ میں بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ھوئے اور سرکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کیا گیا :
ادھر آ ستمگر ھنر آزمائیں
تو تیر آزما،ھم جگر آزمائیں
قافلہ آگے بڑھتا رھا، اسی درمیان 2009 کا جنرل الیکشن آگیا اور عوام کے اصرار پر کونسل نے اپنے امیدواران میدان میں اتارے اور پھر باقاعدگی کے ساتھ الیکشن کمیشن میں سیاسی پارٹی کی حیثیت سے رجسٹریشن کرایا گیا. مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کو صدر اور خاکسار کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا. کونسل ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اس وقت سے برابر کام کر رھی ھے، یوپی کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی اس کے کام کی توسیع ھوئی. پارٹی میں ھر سطح پر شورائیت قائم ھے اور اھم امور میں وابستگان سے مشورہ ھوتا ھے. یہ ایک فطری بات ھے کہ رایوں میں اختلاف ھوتا ھے، بعض ساتھی الگ بھی ھوگئے، وہ کسی اور پلیٹ فارم سے ملک و ملت کی خدمت انجام دے رھے ھیں، کسی کی نیت پر حملہ ھرگز نھیں کرنا چاھئے. ھر شخص اپنی سمجھ کے مطابق کام کرتا ھے اور آراء کا اختلاف نیچرل ھے، البتہ الزام تراشی کی روش غیر صحتمند علامت ھوتی ھے اور بالغ نظر اقوام اس سے بچتی ھیں.
کونسل نے پچھلے ریاستی انتخابات میں بی ایس پی کی حمایت کا فیصلہ لیا تھا، لیکن ھائی کمان نے فیصلے سے پھلے کارکنوں کی تفصیلی میٹنگ لی اور سب کو اعتماد میں لینے کے بعد ھی فیصلہ لیا. کارکنوں اور اعلی قیادت کے درمیان باھمی اعتماد اور رابطہ بھت قوی ھے، رات کے 12 بجے بھی ایک عام کارکن قومی صدر سے رابطہ کرتا ھے اور اس کی کال ریسیو ھوتی ھے.
سیاسی پارٹیاں مختلف تجربات کرتی ھیں، کبھی سمجھوتہ ھوتا ھے، کبھی فرنٹ بنتا ھے، کبھی مخالفت ھوتی ھے، کبھی حمایت ھوتی ھے. حالات کے تحت پالیسیاں بنتی ھیں اور فیصلے ھوتے ھیں.
کونسل سے اختلاف یا اتفاق کا حق سب کو حاصل ھے، لیکن انصاف کا تقاضا یہ ھے کہ بے بنیاد الزامات اور بے سر پیر کے اتھامات کا سھارا لے کر کونسل کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کی جائے. ھم انسان ھیں، ھم سے غلطی ھو سکتی ھے، آپ اگر مخلص ھیں تو ھمدردانہ انداز سے متوجہ فرمائیں، اگر دو قدم ساتھ نھیں چل سکتے ھیں تو کم از کم دعا ھی سے نوازیں، سنی سنائی اور ھوائی باتوں کو ادھر ادھر پھیلا کر آپ کس کی خدمت کر رھے ھیں؟ اس بات کو یاد رکھئے کہ مسلمانوں میں مضبوط سیاسی قیادت اس لئے نھیں ابھر پاتی ھے کہ ھم اجتماعیت سے متعلق اخلاقیات میں بھت کمزور ھیں، کردار کشی اور الزام تراشی ھمارے بائیں ھاتھ کا کھیل ھے اور افواھیں پھیلانے میں ھم بڑی مھارت کا ثبوت دیتے ھیں. مضبوط سیاسی طاقت کے بغیر ھمارے مسائل حل نہ ھو سکیں گے اور مضبوط سیاسی طاقت کیلئے قوم کے اندر اخلاق کی بلندی بھت ضروری ھے.